انتخابات کے حوالے سے عوامی سروے

Elections

Elections

تحریر : حفیظ خٹک

روان ماہ کی 25 جولائی کو ملک میں انتخابات ہونے جارہے ہیںاس حوالے سے شہر قائد سمیت پورے ملک میں انتخابی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں انتخابات میں عوام سے ووٹ لینے کیلئے جلسوں، جلوسوں،کارنرز میٹنگوں کے ساتھ گھروں پر بھی رابطوں میں مصروف عمل ہیں۔ اس صورتحال میں عوامی جذبات و احساسات معلوم کرنے کیلئے کراچی کے مختلف علاقوں میں عوام سے ان کی رائے لی گئی طویل سروئے اختصار کے ساتھ زیر خدمت ہے۔
صدر کی ایمپریس مارکیٹ میں متعدد دکاندارون سے جب پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ووٹنگ ہونے سے قبل عوام کا جم غفیر گاہے بگاہے بڑھتا ہے جس سے ہمارے کاروبار پر بسا اوقات مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کوئی جلسہ ہوتا ہے یا کوئی انتخابی جلوس گذر رہا ہوتا ہے تو اس وقت ہماری نظر اپنے دکان پر مزید بڑھ جاتی ہیں۔ جہاں تک ووٹ کا تعلق ہے تو ووٹ دیں گے اور بالکل ووٹ اس جماعت کو دیں گے جو اس ملک کیلئے کچھ کر دیکھائے۔ کچھ دکانداروں و گاہکوں کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایسے دور گذرے کہ جب ہم ووٹ اپنی مرضی سے نہیں دے سکتے تھے، بسا اوقات تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہمارے جانے سے قبل ہی ووٹ ڈل چکا ہوتا تھا، بحرحال اب کی بار ایسے حالات متوقع نہیں ہیں۔

شارع فیصل پر قائم نرسری اک معروف مقام ہے یہاں پر مختلف شعبہ زندگی کے افراد سے ان کی رائے لی گئی۔ نیر، اعظم، علی اور حارث کا کہنا تھا کہ اس بار کے انتخابات اب تک کے ہونے والے تمام انتخابات سے منفرد ہونگے۔ شہر قائد میں سب لوگ آزادی سے اپنا ووٹ دیں گے۔ ان کے اوپر ماضی میں جس طرح کا دباﺅ ہوا کرتا تھا اس نوعیت کا کوئی دباﺅ نہیں۔ ہر شہری آزاد ی محسوس کر رہا ہے اور وہ اسی آزادی کے تحت اپنی رائے کا اظہار کرے گا۔ ماضی میں ایسا ہوتا تھا کہ جب ہم بوتھ میں جاتے تھے اور اک طویل قطار کے بعد ہماری باری آتی تھی تو ہمارے انگھوٹے پر نشان لگا کر ہمیں بھیج دیا جاتا تھا۔ یعنی وہ ہمارا ووٹ خود ڈال دیا کرتے تھے۔ اس دوران انور کا کہنا تھا کہ گذشتہ انتخابات میں جب وہ اپنی ڈیوٹی دے کر گھر جارہے تھے تو ان سے اک نوجوان نے ان سے لفٹ مانگی۔ ان کو لفٹ دینے کے بعد ہم چل پڑے کچھ دیر بعد میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ووٹ دیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جی بہت ووت دیئے، کیسے تو انہوں نے کہا کہ دو سو سے زائد ووٹ دیئے ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی اور جگہ کا پوچھا تو کہنے لگا کہ شاہ فیصل کالونی میں یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اس وقت مجھے بڑی مایوسی ہوئی کہ جب انتخابات میں ہی اس قدر دھاندلی ہوگی تو پھر منتخب امیدواروں سے اچھے کام کی توقع کیسی کی جا سکتی ہے؟ اس لئے میں تو آپ کے توسط سے حکومت سے، الیکشن کمیشن سے اور ان سے بھی بڑھ کر فوج سے یہ کہنا چاہونگا کہ وہ دھاندلی کو نہ ہونے دیں۔

گلشن اقبال میں یونیورسٹی روڈ پر مختلف شہریوں نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ۔ شاہدہ کا کہنا تھا کہ میں تو ووٹ دونگی اور ووٹ دیتے وقت یہ دیکھونگی کہ جماعت کون کونسی ہیں ان کا نصب العین و منشور کیا ہے۔ ان کا ماضی میں کردار کیسا رہا ہے؟ یہ کام ازخد ضروری سمجھتی ہوں کیونکہ یہ ممبران اس وقت تو ووٹ لینے آتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد ووٹرز کو بھول جاتے ہیں۔ نازیہ کا کہنا تھا کہ ہم نے اس شہر میں ہمیشہ ایک ہی جماعت کو ووٹ دیا لیکن اب وہ جماعت نہیں رہی اب وہ کئی حصوں میں منقسم ہوچکی ہے اس لئے ہم اس بار تحریک انصاف کو ووٹ دینگے۔ ہاں یہ بات ہم بھی کہتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ انتخابات منصفانہ ہونگے۔
انتخابات کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے گلستان جوہر کے مقیم فہیم کا کہنا تھا کہ شہر قائد سمیت پورے ملک میں تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آگئی ہے، مسکراتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ میرا تعلق تحریک انصاف سے نہیں ہے تاہم ان کا یہ نعرہ عوام میں مقبولیت کی حدوں کو چوچکا ہے، اس لئے میں نے بھی یہ کہا کہ تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آگئی ہے۔ آپ دیکھیں نا کہ پاکستان میں کس نوعیت کی مثبت کام ان دنوں ہورہے ہیں۔ ماضی میں اپنا ووٹ دینے میں دیری کرتا تھا لیکن اس بار میرا ہی نہیں پورے خاندان کا فیصلہ ہے کہ ووٹ دینگے اور ووٹ کس کو دیں یہ اب نہ ہی پوچھیں۔ سمامہ شاپنگ سینٹر پر حسین کا کہنا تھا کہ ووٹ ہم لازمی دیں گے اور دینگے بھی عمران خان کو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو متعددمواقع مل گئے اور انہوں نے اپنی نوعیت کی خدمات سرانجام دیدئے ہیں جن سے ان کی اپنی جماعتوں کے کارکنان کے علاوہ کوئی بھی مطمئن نہیں۔ اس بار یہ موقع عمران خان کو ملنا چاہئے۔

فیصل کا کہنا تھا کہ عمران خان نے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو یاد رکھا اور اس کی رہائی کو اپنے منشور میں رکھا ہے اس لئے میں ووٹ ضرور دونگا اور دونگا بھی بلے کو۔
فیڈرل بی ایریا کے علاقے میں سروئے کے دوران نوجوانوں کے اک گروپ کا کہنا تھا کہ ہم ہم ووٹ دیں گے ہی نہیں بلکہ ہم تو ووٹرز کو لینے ان کے گھروں پر جائیں گے اور انہیں ووٹ ڈالنے کیلئے پولنگ اسٹیشن پر لائیںگے۔ شہر میں ماضی کی وہ جماعت اب نہیں رہی جس کا صرف نام ہوا کرتا ہے اور کام سارے شہریوں کو پریشان کرنے والے ہوا کرتے تھے۔ اس بار سابق ناظم اعلی مصطفی کمال میدان سیاست میں آگئے ہیںان کی خدمات سب کو معلوم ہیں، اسلئے شہر قائد میں ان کی جماعت سرزمین پارٹی کو ووٹ ملیں گے۔ انہیں خدمات کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے کا موقع ملے گا۔

دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ سے گفتگومیں یہ بات سامنے آئی کہ عوام کے سامنے اک نئی جماعت ملی مسلم لیگ کی صورت میں آگئی ہے، یہ جماعت ماضی میں کسی اور نام سے انسانیت کی خدمت کرتی آئی ہے اور یہ پہلاموقع ہے انہوں نے میدان سیاسیت میں قدم رکھا ہے اس لئے ہم ووٹ ضرور دیں گے اور دیں گے ملی مسلم لیگ کو۔ نارتھ کراچی میں بھی عوام رائے لی گئی جس میں سبھی کا یہ تاثر یہ رہا کہ ووٹ کے حق ضرور استعمال کیا جائے گا۔ متحدہ مجلس عمل کی حمایت میں دینی جماعتوں کے کارکنان کا کہنا تھا کہنا کہ نارتھ کراچی سمیت پورے شہر قائد میں مجلس عمل کو کامیابی ملے گی۔ ووٹ دیں گے اور عوام کو اس کی ادائیگی کیلئے پوری سہولیات فراہم کریں گے۔ سروئے کے دوران پیپلز پارٹی کے کارکنان سے رابطہ ہوا اوراسی طرح مسلم لیگ ن و دیگر گروپوں کے کارکنا سے بات چیت ہوئی جس میں سبھی انتخابات کیلئے تندہی کے ساتھ سرگرم عمل رہنے کا عندیہ دیا گیا اور اس کے ساتھ صاف و شفاف انتخابات کی توقعات رکھی گئیں۔ اس ضمن میں متعلقہ اداروں سے یہ امید بھی رکھی گئیں کہ وہ اپنی فرائض کو احسن انداز میں پورا کریں گے۔

سروئے کی دوران بچوں سے ملاقاتیں اور باتیں ہوئیں ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ ہم اپنے بڑوں کو کہتے ہیں کہ آپ نے ووٹ ضرور دینا اور ان کو دینا ہے جو اس ملک کیلئے کچھ نہیںبہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اک چھوٹی سی بچی سمیرا نے کہا کہ میں تو اپنی امی سے یہ کتہی ہوں کہ ووٹ دینا ہمارے لئے کیونکہ آج آپ ووٹ ڈالنے جائیں گی تو کل کو ہم بھی اس حق کی ادائیگی کریں گے۔

شہر قائد کے سینکڑوں لوگوںسے گفتگو میں اک بات واضح ہوئی اور وہ یہ کہ اس بار انتخابات میں وہ اپنا ووٹ ضرور ڈالیں گے اور اس کے ساتھ ہی یہ اپیل بھی کی گئی کہ 25جولائی کے دن حالات کو پرامن رکھنے کیلئے اقدامات کئے جائیں اور پرامن فضا میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا عمل پورا کیا جائے ۔ اس طرح سے ہم ملک کو ایسی قیادت مل سکے گی جو پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی مسائل سے نکالنے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں گے۔

تحریر : حفیظ خٹک