عمر کی حد اٹھارہ سال

Elections

Elections

تحریر: مسز جمشید خاکوانی
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک بوڑھی عورت آئی اور جنت کی بشارت مانگی کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں جنت میں جائونگی؟ حضور نے کہا نہیں وہ بڑھیا رونے لگی آپ نے ہنستے ہوئے حضرت عائشہ سے کہا اسے کہہ دو وہ جنت میں جائے گی مگر بوڑھی ہو کر نہیں کہ جنت میں جانے والا ہر فرد اٹھارہ سال کا ہو گا………. میاں صاحب کے شیروں کے مطابق عمران خان اٹھارہ سال کے نوجوانوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں بے شک یہ عمر بڑی ہنگامہ خیز ہوتی ہے لیکن ولو لہ، جو ش ، جذبات، سچ بو لنے کی ہمت، جھو ٹ سے لڑ نے کی طا قت اسی عمر میں پائی جاتی ہے ور نہ تو جیسے جیسے انساں کی عمر آ گے بڑ ھتی ہے دنیا وی مصلحتیں اس کے قدم رو ک لیتی ہیں اسے دو سر وں کے لئے کم اور اپنے لئے زیا دہ سوچنا پڑتا ہے جذ بے ماند پڑ نے لگتے ہیں رشتے ناتے حرص و ہو س میں مبتلا کر دیتے ہیں الیکشن سے پہلے ایک طالبہ کی میل آئی کہ میں اخبار میں آپکے کالم شو ق سے پڑ ھتی ہوں تو ایک مسلئہ ہے جوغیر اخلا قی اورappresionst انتخا بی نظا م کے سا تھ تعلق رکھتا ہے کو وا ضح کر نا چا ہتے ہیں جیسا کہ آ پکو ا گلے انتخابات کا پتا ہے لیکن نتیجہ کسی کے fruitfullنظام ہمارے میں سے مثبت میں chang Election لا نے میں ناکام رے۔ چہرے بد لتے ہیںسسٹم نہیں بد لتامو جو دہ انتخابی نظام غریب کے حقوق پو رے نہیں کرتا، معیشت اور خراب ہو گی۔ تما م کر پٹ جماعتیں اقتدار میں یا حزب اختلا ف میں ایک ہی نقطے پر متفق ہیں اگر ہم دس مز ید انتخابات کروائیں تو بھی ہوا میں محل تعمیر کر نے کے برابر ہے۔۔

اور وہی ہوا انتخابات تو ہوئے لیکن اس کے ثمرات عوام تک پہنچتے پہنچتے مذمرات میں تبدیل ہو گئے۔ نتیجہ قوم اب سڑکوں پر ہے حالانکہ اس وقت معروف کالم نگار جنا ب ہارون رشید نے لکھا تھا چار بنیا دی تقا ضے پورے ہو گئے تو تبد یلی کی آرزو مند قوم اس کا پھل پائے گی، یعنی الیکشن کمیشن پوری قوت سے بر و ئے کا ر آئے، میڈیا، فوج، اور عد لیہ اسکی مدد کر یں اس سلسلے میں چیف جسٹس بھی فرما چکے ہیں کہ آر می الیکشن میں مدد دے سکتی ہے جس طرح جنرل کیا نی نے کو ر کما نڈروں کے ذر یعے غیر جا نبدار رہنے کا پیغام دیا تھا اگر سب کچھ ویسا ہوتا؟ لیکن ایسا ہوا نہیںاٹھارہ سال کی عمر میں جذبے منہ زور تو ہوتے ہی ہیں مگر انہیں بے لگام ہوتے بھی دیر نہیں لگتی۔

ایسے ہی وقت میں ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے جو عمران خان نے بخوبی پوری کی کیونکہ ان فراڈ الیکشن نے نوجوانوں کو انتہائی مایوس کر دیا اگر ہم تاریخ عالم کا جائزہ لیں تو یہ قوموں کے عروج و زوال سے عبارت نظرتی ہے۔ اگر ہم برصغیر کے حوالے سے دیکھیں تو یہ تلخ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ١٨٥٧ کی جنگ آزادی نے برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی و معاشرتی اہمیت اور حیثیت کو بالکل ختم کر کے رکھ دیا تھا ۔مسلمان مایوسی کا شکار ہو چکے تھے لیکن مایوسی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں سر سید احمد خان کی شخصیت ایک روشن ستارے کی مانند تھی انہوں نے زندگی کے ہر نازک مرحلے پر مسلمانوں کی رہنمائی کی اور انکو نیا عزم و حوصلہ دیا۔سر سید احمد خان کی وفات کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت ہی ایک ایسی شخصیت تھی جنھیں ہم رہنمائوں کا رہنما کہہ سکتے ہیں ۔قائداعظم محمدعلی جناح نے مسلمانوں کا تشخص بحال کرانے کے لیئے ہی الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کے لیئے مختلف طریقے استعمال کیئے جاتے اسکولوں میں بچوں کو کھلم کھلا ہندو مذہب کی تعلیم دی جاتی ،گاندھی کی تصویر کی پوجا کرائی جاتی ،ایسی ایسی کتابیں لکھی گئیں جن سے ہمارے دین کو گذند پہنچتی تھی ۔عین نماز کے وقت مسجدوں کے باہر بینڈ باجے بجائے جاتے ،محرم کے دنوں میں جلوسوں کے اندر پٹاخے پھینک دیئے جاتے ،جس سے فسادات شروع ہو جاتے ۔پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ،ہندو غنڈے دندناتے پھرتے ،تہواروں کے موقع پر ہندو غنڈے مسلح ہو کر مسلمانوں کے گھروں میں گھس جاتے اور مسلمانوں کو بے دریغ شہید کرتے۔

چنانچہ قائداعظم کو آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کرنا پڑی۔یہ کمیٹی ٢٠ مارچ ١٩٣٨کو راجہ سید محمد مہدی ف پیر پور کی قیادت میں قائم کی گئی ۔جس نے تقریباً آٹھ ماہ تک کانگریسی وزارت کے صوبوں کے دورے کر کے بچشم خود جائزہ لیا لوگوں کے بیانات ریکارد کیئے اور ایک جامع رپورٹ کی صورت میں ١٥ نومبر ١٩٣٨ کو قائداعظم کے سامنے پیش کیئے یہ رپورٹ پیر پور کمیٹی کہلاتی ہے جو قیام پاکستان سے بہت پہلے شائع ہوئی۔یہ باتیں ان لوگوں کے لیئے آئینے کی حیثیت رکھتی ہیں جو قائد اعظم کو کافر اعظم قرار دیتے رہے ہیں ۔یہ انہی علماء کا تسلسل ہے جو آج بھی نشے کی حالت میں ٹی وی چینلوں پہ آ کر عمران خان کے خلاف فتوے دیتے ہیں جس نے اٹھارہ سال اس ملک کے لیئے جدوجہد کی ہے۔اٹھارہ سال کے نوجوانوں کے لیئے عمران خان اپنی زندگی کے اٹھارویں سال ہی کرکٹ کے میدان میں اترا تھا ……عمران خان کے بارے میں لکھی ایک تحریر پڑھی جو اختصار کے ساتھ نقل کر رہی ہوں یہ تحریر اٹھارہ سال کے نوجوانوں کے لیئے یقیناً مشعل راہ ہے۔۔۔۔

Imran Khan

Imran Khan

اٹھارہ سال کی عمر میں جب کرکٹ کے میدان میں اتراتو ایک معمولی درجے کا میڈیم پیسر تھا مگر اسے فاسٹ بولر بننا تھا ۔جس کوچ جس فزیو سے ملا کہتے اس ایکشن کے ساتھ آپ فاسٹ بولر نہیں بن سکتے۔چھ سال کرکٹ کے میدان سے باہر رہ کر جدو جہد کی اور دنیا کا عظیم فاسٹ بالر بناحالانکہ برطانوی اخباراس کے نام کے ساتھ ” عمران کانٹ ” لکھا کرتے تھے یعنی عمران نہیں کر سکتا ……ایک بیمار ٹیم کے ساتھ ورلڈ کپ کھیلنے گیا کہا جیت کر آئوں گا دنیا بھر کے کرکٹ کے پنڈتوں نے کہا عمران احمقوں کی جنت میں رہتا ہے ورلڈ کپ فائنل کا ٹاس نکال کر دیکھ لیجئے کپتان وردی میں نہیں بلکہ جاگنگ کٹ میں ٹاس کر رہا ہے اور ٹاس ہوتے ہی کہہ رہا ہے جیت کے جا رہا ہوں اور جیت کے آیا ماں کینسر سے فوت ہوئی تو کہا کینسر ہسپتال بنائوں گا۔مختلف ملکوں سے بیس ڈاکٹر منگوائے انہوں نے کیس سٹدی کیا انیس نے کہا نہیں بن سکتا ایک نے کہا شائد ممکن ہے …ٹکٹ لے کر اس کے پاس پہنچا اس نے کہا ممکن تو نہیں ہے میں تو صرف آپکی خود اعتمادی کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ۔عمران نے کہا میں تو بنا کے رہوں گا اس نے کہا اربوں کا بجٹ چاہیئے کہا اللہ مالک ہے اس نے پوچھا اسپیشل بجٹ کتنا ہے کہا کہ ایک کروڑ بنک میں پڑا ہے ڈاکٹر نے سر پیٹ لیا ….لیکن پ دیکھ لیں ہسپتال بنا اور چل بھی رہا ہے۔۔۔۔۔

پورے ہسپتال میں صرف دو لوگوں کو علم ہوتا ہے کون پیسے دے کر علاج کروا رہا ہے کون مفت ۔۔ایک بار خبر نکل گئی فلاں صاحب کا علاج مفت ہو رہا ہے کہا پتہ چلائو کس نے خبر لیک کی ہے نام سامنے آنے پر تینوں کو نکال دیا ۔۔۔کہتے ہیں عمران کتوں کا شوقین ہے کیا لاکھوں کے خریدتا ہے ؟رفیق خان ضلع پشین سے تعلق رکھنے والا ایک پٹھان ہے جو اس وقت بھی عمران کے کینٹینر کے دروازے پر کھڑا ہو گا اس کا ایک کرکٹ کھیلنے والا دوست کاکو صفدر جو واپڈا میں لائن مین تھا پشین سے ایک کتا پکڑ لایا اور خان صاحب کو کہا بہت اچھا کتا ہے خان نے گھر میں رکھ لیا ایسے سیدھے لوگ بھی ہوتے ہیں کوئٹہ جانا ہوا تو ایک صاحب نے دو سوٹ دیئے کہنے لگے عمران خان کو دینے ہیں مین نے سوچا عمران خان کیا یہ کپڑے سلوا کر پہنیں گے ؟ سینٹرل آفس میں رفیق کو کہا کہ ایک غریب آدمی نے یہ سوٹ دیئے ہیں کہنے لگا میلوڈی میں ایک عام درزی ہے وہی سوٹ سیتا ہے۔۔

عمران پہن لیتا ہے اندازہ ہے میاں نواز شریف کی ایک گھڑی کتنے کی ہے عمران کی ایک چپل دس سال سے چار سدہ سے آتی ہے پہلے پانچ سو کی تھی اب پندرہ سو کی آتی ہے۔۔۔کے پی کے پولیس ریفارمز کے اشتہاری مہم کا مسلہ زیر غور تھا کہ عوامی شعور بڑھانے کے لیئے اشتہار دیتے ہیں عمران نے پوچھا فنڈ ہیں ؟کہا ہیں پوچھا کتنا ہے ؟ کہا پچاس کروڑ کہنے لگے اس کو ایجوکیشن میں ڈال دو اشتہار اگلے سال دے دیں گے۔۔۔ اے این پی نے تعلیم کے لیئے سات ارب کا بجٹ دیا عمران نے کتنا دیا ؟ چھیاسی ارب روپے بی بی سی کی رپورٹ نکال کر دیکھ لیجئے۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

ڈھائی ماہ میں ڈھائی لاکھ بچے اسکولوں میں داخل ہوئے ہیں۔پھر کہتے ہیں عمران نے کے پی کے میں کیا کر لیا ۔۔۔ایسے بہت سارے واقعات ہیں چودہ سال تعریف کرنے والے ہارون رشید نے جب الیکشن میں ٹکٹ مانگے تو کہا یہ ممکن نہیں آج وہ اور اس کا بیٹا دونوں ناراض ہیں کیونکہ ان کو پنڈی میں اپنے بندے چاہیں تھے اپنے کزن کو ٹکٹ پر ناراض کر دیا یہ ہیں وہ اخلاقی اقدار جن کی وجہ سے لوگ عمران سے محبت کرتے ہیں۔۔سیاست میں غلطیاں ہوتی ہیں عمران سے بھی غلطیاں ہوئیں ،اس کی زبان بھی قابو میں نہیں ہے انداز بھی غلط ہو سکتا ہے لیکن وہ چور نہیں ہے اس کا کردار مضبوط ہے کوئی کرپشن ،کوئی خرد برد ، کوئی ٹیکس چوری ،اقربا پروری کچھ بھی نہیں ملے گا۔انتیس سالوں سے لُوٹنے والوں سے یہ بدر جہا بہتر ہے۔

سیلاب ذدگان اور ذلزلہ زدگان کی ہزارہا تصویریں تھیں ہم نے کہا الیکشن مہم کا حصہ بناتے ہیں عمران نے کہا جو کام ہم نے کیئے نہیں اس کا کریڈٹ کیوں لیں ۔۔جب لوگ اس کو پاگل خان کہتے تھے تب بھی وہ کہتا تھا ایک دن دیکھنا میں تقریر کر رہا ہونگا اور نیچے لاکھوں کا مجمع ہو گا اور عمران نے جو کہا وہ سچ کر دکھایا اس کے پاس بلا کی خود اعتمادی ہے اور اللہ پہ کامل یقین ،پھر جہد مسلسل یہ ہی چیزیں منزل سے ہمکنار کرتی ہیں۔ ایسے کئی واقعات لکھے جا سکتے ہیں جو عمران خان کی سادگی اور سچائی کی مثال ہیں لیکن کالم کی طوالت کے پیش نظر پھر کبھی سہی بس اتنا کہنا چاہونگی کہ جب کوئی انسان اللہ پہ بھروسہ کر لیتا ہے اور سچائی کے ساتھ اللہ کے بندوں کی بھلائی کے لیئے نکلتا ہے تو اللہ بھی ہر طرح سے اس کا ساتھ دیتا ہے چاہے کتنے ہی لوگ اس کا ساتھ چھوڑ جائیں وہ اس درخت کی طرح ہرا بھرا رہتا ہے جس کے پتے جھڑتے ہیں سوکھ جاتے ہیں اس کا ساتھ چھوڑتے ہی بکھر جاتے ہیں مگر وہ مضبوطی سے اپنی جگہ جما رہتا ہے ۔۔آج جاوید ہاشمی صاحب بھی اپنی سیٹ ہار کر درخت کے ایک ٹوٹ جانے والے پتے کی طرح بکھر گئے ۔عمران خان کو بھی ایک سایہ دار درخت کی طرح اٹھارہ سال کی اس نسل کو اپنے سایہ میں لے کر چلنا ہے اس کی تربیت کرنی ہے تاکہ یہ اپنے ملک کو اقوام عالم میں سر بلند کر سکیں۔عمران خان اس وقت مقبولیت کی انتہا پر ہیں ایسے میں تبدیلی کے خواہشمندوں کی امیدیں بھی اپنی انتہا پر ہیں آج جاوید ہاشمی نہیں ہارے یہ فرسودہ نظام ہارا ہے عامر ڈوگر نہیں جیتا عمران خان کی جیت ہوئی ہے لوگ دیوانہ وار تبدیلی کی آس میں آگے بڑھ رہے ہیں باہر ملکوں خصوصاً سعودیہ سے مجھے بے شمار میلز آئی ہیں کہ ہم اس آس میں پی ٹی آئی میں کھچے چلے آ رہے ہیں کہ ہمارے مسائل حل ہوں ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہم اس حالت میں صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ خدا ہمیں اس حکومت سے نجات دلائے اور عمران ہماری مشکلات کے خاتمے کا سبب بنے۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر: مسز جمشید خاکوانی