تحریر : مسز جمشید خاکوانی وہ ہر مہینے بجلی کا بل ہاتھ میں لیئے ہمارے گھر آن موجود ہوتی، ایک ماہ ہم نے ضرورت مند سمجھ کر پیسے دے دیے دوسرے مہینے ہزار روپے دے کر جان چھڑائی جب تیسرے مہینے پھر وہ آن موجود ہوئی تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا میں باہر گئی تو وہ لان میں کرسی پر بیٹھی تھی دیکھنے میں کسی کھاتے پیتے گھر کی لگتی تھی کپڑے اچھے پہنے ہوئے تھے بغل میں بڑا سا بیگ بھی دبایا ہوا تھا پچاس پچپن برس کی وہ عورت بالکل بھی پاگل نہیں لگ رہی تھی جبکہ میری ماسی نے بتایا پاگل لگتی ہے۔مجھے دیکھتے ہی وہ لپک کر آئی اور بولی میرا بل بھروا دو میں نے بل دیکھا تقریبا ساڑھے تین ہزار کا بل تھا ہم اپنے بل بھریں یا ہر ماہ تمھارا بل بھریں ہم حکومت میں نہیں بیٹھے نہ میری کوئی این جی او ہے جس کو باہر سے فنڈ ملتے ہوں آپ جائو کسی ایم این اے، ایم پی اے کے پاس جن کو ووٹ دیتے ہو وہ تو گھسنے ہی نہیں دیتے گارڈ بٹھا رکھے ہیں وہ مایوسی سے بولی تو ہم کیا کریں قیامت کی اس گرمی میں ہم خود نصف لاکھ کے قریب صرف بجلی کا بل بھرتے ہیں وہ بھی اتنی شدید لوڈ شیڈنگ میں اب اپنے ساتھ تمھارے بل بھی بھریں کیوں؟وہ روہانسی ہو کر بولی دیکھو جی میرے پاس نہ تو ٹی وی ہے نہ فریج نہ اے سی نہ کپڑے دھونے والی مشین میں تو صرف ایک بلب جلاتی ہوں اور یہ ہزاروں کا بل؟کپڑے تو بڑے اچھے پہنے ہوئے ہیں۔
میری ماسی تنک کر بولی اس نے اسے لال لال آنکھوں سے گھورا اور بولی ایک کپڑے ہی تو اچھے پہنتی ہوں ساری عمر ہی اچھے پہنے ہیں ایک کمرے کے گھر میں ایک چارپائی ہے ایک پانی کا کولر کھانا تک تیرے میرے گھر سے کھاتی ہوں پھر بھی یہ ہزاروں کا بل؟ اس کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی وہ ایک دم مخبوط الحواس عورت لگی بتائو نا جی کیا حکومت ایک بیوہ عورت کا بل معاف نہیں کر سکتی۔
اپنے وزیروں کو تو مفت بجلی دیتی ہے میرے پاس اس کے سوال کا جواب کہاں تھا مجھے بھی غصہ آنے لگا ایک تو اتنی گرمی اوپر سے اتنے تپتے ہوئے سوال ،دیکھو ہم بھی کوئی بجلی کی یخنی بنا کر نہیں پیتے چند سال پہلے یہ بل جو اب تمھارے ہاتھ میں ہے یہ ہمارا آتا تھا غریبوں کو تین ساڑھے تین سو کا بل آتا تھا لیکن تب ملک پر یہ خونی جمہوریت مسلط نہیں تھی ڈکٹیٹر کو ہم ووٹ نہیں گالیاں دیتے ہیں لیکن ان کو ہم ووٹ دے کر اپنے گلے کا طوق بناتے ہیں اب ان کی مرضی جو کریں بس آپ پلیز آئیندہ ادھر مت آنا بہت ہو گیا ،اس کے جانے کے بعد مجھے افسوس نے آ گھیرا تب ادھر ادھر سے معلومات کیں تو پتہ چلا بیٹے ملک سے باہر ہیں ماں کو بھول چکے ہیں ایک چھوٹا سا مکان شوہر اس کے لیے چھوڑ مرا تھا باقی مکان کرائے پہ دیکر وہ ایک کمرے میں رہتی تھی اور اس تھوڑے سے کرائے سے گذر بسر کرتی تھی وہ واقعی ایک بلب جلاتی تھی کوشش کرتی کرائے کے پیسوں سے اچھے کپڑے بنا لے اچھے وقتوں میں خوش لباس مشہور تھی لیکن اب ہزاروں کے بلوں نے اس کی زندگی اجیرن کر دی تھی اتنے پیسوں میں تو اچھا سا جوڑا بن جاتا ہے اس لیے وہ آپے سے باہر ہو جاتی وہ بے چاری یہ ایک بلب نہ بھی جلائے بل تو تب بھی آئے گا میں نے اسے کہا گھر جا کر اس بل کو غور سے دیکھنا یہ صرف بجلی کی قیمت نہیں ہے اس پہ کئی قسم کے ٹیکس لگے ہیں اس میں ٹی وی کی لائسینس فیس بھی ہے۔
میٹر کا کرایہ بھی ہے یہ بھی ایک قسم کا کاروبار ہے جو ہماری حکومتیں کرتی ہیں اگر بجلی کے محکمے والے یہ زبردستی کے ٹیکس وصول نہ کریں تو ان کو تنخواہیں نہیں ملتیں اس لیے وہ اس ظلم میں شریک ہو جاتے ہیں وہ اضافی یونٹ ڈالیں یا غلط ریڈنگ کریں بل ٹھیک کروانے جائو تو جواب ملتا ہے ابھی تو بل بھریں نا اگلے مہینے دیکھا جائے گا صارف بھی اس خوف سے بل بھر دیتا ہے کہ میٹر کٹ گیا تو نیا میٹر جیٹ کی رفتار سے چلے گا کئی کمزور دل والوں کے دل کی رفتار اس میٹر کی رفتار سے بند ہو چکے ہیں بل دیکھ کر ان کے ہارٹ فیل ہو جاتے ہیں واپڈا سے وابستہ ایک صاحب کا کہنا تھا ہم کیا کریں۔
جی اب تو ہم بھی مجبور ہیں ان کو اپنے سے اوپر اور اس افسر کو اپنے اگلے افسر کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے سب جانتے ہیں اس محکمے میں کتنے گھپلے ہیں لیکن مجبور لوگ خاموش تما شائی بنے ہوئے ہیں ہمارے وزیر اعظم نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر اقرار کیا تھا کہ چار ارب کے اضافی بل عوام کو بھیجے گئے جن کو ہم اگلے ماہ ایڈ جسٹ کر دیں گے لیکن وہ مبارک ماہ کبھی نہ آیا عوام بھی بھول گئے کیا ہوا تیرا وعدہ؟اورآج وزیر پانی و بجلی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے فرما رہے تھے جہاں سے ریکوری نہیں ہو گی وہاں لوڈ شیڈنگ تو کرنی پڑتی ہے وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کو اور ان جیسے سینکڑوں وزیروں مشیروں کو جو مفت کی بجلی ملتی ہے وہ ہماری ہی جیبوں سے پیسے نکلتے ہیں اسمبلی کے کیفے ٹیریا سے ایک روپے والی روٹی کھانے والے عوام کو دس روپے کی روٹی سے بھی محروم کر رہے ہیں جنوبی پنجاب میں بجلی ضرورت ہے عیاشی نہیں اتنی سخت گرمی پڑتی ہے کہ بندہ کتنی ہی بچت کر لے پنکھے اے سی کے بغیر گذارا نہیں ہوتا ایسے میں جب لوڈ شیڈنگ کے باوجود ہزاروں لاکھوں کے بل آتے ہیں دکھی دلوں سے ان کے لیے بد دعائیں تو نکل سکتی ہیں دعائیں نہیں اللہ ان ظالموں کو غارت کرے!