کب تک k الیکٹرک کا ظلم و کرپشن سہنا پڑے گا؟

K-Electric

K-Electric

تحریر : عنایت کابلگرامی

دنیا ترقی پر ترقی کرتی جا رہی ہے اور ہم آج بھی زوال کی جانب گامزن ہے۔ دنیا بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور آنکھ مچولی مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے ،مگر ہمارے ہاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ ہم جس شہر میں رہتے ہے اس کو پاکستان کا معاشی ھب کہاجاتا ہے ، اس کے ساتھ غریب و کمزور طبقے کے لیے ماں کا درجہ بھی رکھتا ہے شہر کراچی ۔کراچی ایک عالمی شہر ہے ، دو کروڑ سے زائد آبادی ہے اس کی ، پاکستان کے خزانے کو سب سے زیادہ نفع بھی کراچی سے ہی جاتا ہے ، لیکن گزشتہ دو دھائی سے کراچی کے ساتھ مختلف طور تریقوں سے زیادتی کی جارہی ہیں، ان ہی زیادتیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نمایا ہے۔

بجلی جو اب صرف روشنی و ہوا کے لیے استعمال نہیں ہوتی بلکہ روز مرہ زندگی کے کئی شعبیں ایسے ہے جو بجلی کے بغیر اب نہیں چل سکتے، موبائیل جو زندگی کا ایک اہم ستون بن گیا ہے وہ بھی بجلی سے چارج ہوتا ہے ، فیکٹری میں کام پر جائو لائٹ نہیں ہے دیہاڑی نہیں لگتی اور جب دیہاڑی نہ لگے تو ایک روز مرہ دیہاڑی والے شخص کے گھر میں فاقوں کی نوبت آتی ہیں۔ کراچی کے باسی جن کی اکثریت ملک دیگر شہروں سے رزق حلال کمانے کے لیے شہر کراچی میں آباد ہوئے گزشتہ دودھائی سے کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی نجی کمپنیوں کی وجہ سے دوہرے عذاب میں مبتلا ہے۔ پہلے KESC(کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن)اور اب K,ELECTRIC (کراچی الیکٹرک) والے کراچی کی عوام کا خون چوس رہی ہے۔

بجلی کی اہمیت و ضرورت سے یوں تو ملک کے کسی بھی علاقے کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ، لیکن کراچی جیسے شہر کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے ۔ کراچی کی ترقی یا پسمادگی کا تعلق پورے ملک سے ہے ، کیوں کہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی شہر ہے ۔ قومی محاصل میں سب سے زیادہ حصہ لینے کے علاوہ شہر کی بندرگاہ اور ایئرپورٹ دنیا کی مصروف ترین آمد و رفت اور سامان کے نقل و حمل کا مرکز ہیں۔ ملک کے دیگر شہروں کی طرح بجلی یہاں کی بھی اشد ضرورت ہے۔

کراچی کے بزرگ شہریوں کو یہ اچھی طرح یاد ہوگا کہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ کراچی میں ایک لمحے کے لیے بھی بجلی نہیں جاتی تھی اور اگر کوئی فنی خرابی بھی آجاتی تو کچھ گھنٹوں میں ہی اس خرابی کو دور کردیا جاتاتھا اور بجلی کی سپلائی بحال رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی تھی، اس کے ساتھ اور بلنگ کا تو سرے سے نام و نشان تک نہیں تھا ، جس کو وجہ سے بجلی چوری بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ پھر اچانک نوئے کی دھائی میں کراچی کے شہریوں کو بجلی فراہم کرنے کی زمہ داری ایک نجی کمپنیKESC (کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن)کو دیدی گئی ، وہی سے شروع ہوا کراچی کے عوام کے ساتھ ظلم ۔ ابتداء میں کچھ عرصہ KESC (کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن)صحیح چلنے کے بعد آہستہ آہستہ لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی ساتھ ہی ساتھ فنی خرابیاں اور آگے چل کر اور بلنگ بھی شروع کردی گئی ، 2009میں KESC (کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن)پرانے کرتا دھرتائوں نے KESC (کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن) کو متحدہ عرب امارت کے ایک نجی گروپ (ابراج گروپ) کو فروخت کردی ، جس کے ساتھ حکومت پاکستان کے بھی کچھ معائدے ہوئے جس میں ایک معائدہ یہ بھی تھا کہ اور بلنگ ختم ہوگی اور جلد ہی لوڈشیڈنگ پر قابوں پانا ہوگا۔ ابراج گروپ نے شروع شروع میں ایسی پرانے نام کے ساتھ بجلی کی فراہمی جاری رکھی کچھ عرسے کے بعد نام تبدیل کرکے K,ELECTRIC (کراچی الیکٹرک)رکھ دیا گیا ۔ جب سے کراچی کی بجلی نجی کمپنیوں کے حوالے ہوئی تب سے عوام کو دوہرے عذاب میںمبتلا کیا ہوا ہے ، گزشتہ روز کراچی میں ہلکی سی بوندا باندی ہوئی تو K,ELECTRIC (کراچی الیکٹرک) کا سارہ نظام بیٹھ گیا اور کئی گھنٹوں تک شہر کے مختلف علاقوں بجلی کی بندش رہی جبکہ بعض علاقوں میں تو چوبیس گھنٹوں سے بھی زیادہ دیر تک بجلی بحال نہیں ہوئی ۔ ایک طرف لوڈشیڈنگ تو دوسری طرف اور بلنگ نے شہریوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔

تین سال قبل K,ELECTRIC (کراچی الیکٹرک)کو چائناکے ایک نجی گروپ (شنگھائی گروپ) کو دینے کا اعلان ہوا جس کے لیے کراچی میں لگے تمام پرانے تانبے کے تاروں کی جگہ نئے تانبے کے کیبل لگانے کے معائدے ہوئے، ساتھ ہی پرانے میٹر کی جگہ نئے ڈیجیٹل میٹر لگانے کا اعلان ہوا، جس کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی کرپشن کی لہر نے جنم لیا جوتاحال جاری ہے ۔ شنگھائی گروپ کو K,ELECTRIC (کراچی الیکٹرک) میں حصہ تو نہیں ملا مگر موجودہ K,ELECTRIC (کراچی الیکٹرک) کے کرتا دھرتائوں کو کرپشن کا نیا فارمولا ضرورملا۔ K,ELECTRIC (کراچی الیکٹرک)کے کرپشن پر نظر ڈالتے ہے کس طرح وہ کراچی کے باسیوں کی کمائی کو ہڑپ کرنے میں مصروف ہے۔
(١)نئے میٹرز پورانے میٹرز سے تیس فیصد تیز چلتے ہے جو مختلف لوگوں مختلف اوقات میں ثابت کیے ہے ساتھ ہی K,ELECTRIC (کراچی الیکٹرک) کا عملہ بھی آف دی ریکارڈ اقرار کرتا ہے ۔ (٢)جب بل تیار کیا جاتا ہے تو اگر کسی صارف کے 280یونٹ چلے ہو تو اسے یہ لوگ 301یونٹ کردے تھے ہے کیوں کے تین سو تک یونٹ دس روپے کا اور اس سے ایک یونٹ بھی بڑھ جائے تو پندرہ روپے پر یونٹ پڑتا ہے ، جس کے بعد بل جو 280یونٹ کا 2800آنا ہوتا ہے وہ 301یونٹ کا ساڑھے چار ہزار سے بھی زیادہ آجاتا ہے ، اگر کوئی شکایت بھی کرنا چاہئے تو بھی نہیں کرپائے کیوں کہ میٹر چیک کرنے کے پندرہ دن بعد بل آتے ہیںاور کسی کی پاس اتنا وقت نہیں کہ انتظار کریں کہ کب میٹر چیک ہو تاکہ ہم بھی ریڈنگ لے سکے ، اگر کوئی یہ سب بھی کرتا ہے تو اس کو مختلف اقسام کی دھمکیاں لگائی جاتی ہے ۔(٣)کے الیکٹرک پابند ہے کہ صارف کو 220 وولٹ بجلی فراہم کرے۔

کے الیکٹرک اس بات کی بھی پابند ہے کہ وہ صارفین کو فلٹر ہوئی بجلی فراہم کرے جو نقصانات سے بچاتی ہے۔مگرہوتا برعکس ہی ہے، کراچی کے شہریوں کو کبھی دوسوبیس وولٹ فراہم نہیں کیاجاتا، نہ ہی فلٹر کی ہوئی بجلی فراہم کی جاتی ہے جسکا نقصان صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے۔جب وولٹج دوسوبیس وولٹ سے کم آتے ہیں تو اس کے ”امپیئر” بڑھ جاتے ہیں، جب امپیئر بڑھ جاتے ہیں واٹ زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اگر وولٹ دوسوبیس ہو،ہمارا لوڈ ایک ہزار واٹ ہو اور مسلسل ایک گھنٹے بجلی چلے تو ایک یونٹ بنتا ہے، اسی طرح اگر وولٹ 180 ہوہمارا لوڈ ایک ہزار واٹ ہو اور ایک گھنٹہ مسلسل چلے توڈیڑھ یونٹ بنتا ہے یعنی پانچ سو واٹ بجلی زیادہ استعمال ہوئی۔اس مسئلے کی سمجھ کے لیے بجلی کا کاریگر ہونا شرط ہے ۔(٤)چوتی کرپشن کے الیکٹرک نے یہ شروع کی ہے کہ پورے شہر سے تانبے کے تار اتار کر سلور وائر ڈال رہی ہے،نئے میٹر کے لیے جو صارفین ڈیمانڈ نوٹ کے ساتھ پیسے بینک میں جمع کراتے ہیں۔ اْس میں صارفین سے مین لائن سے میٹر تک آنے والی جو تار استعمال ہونی ہے اْس کے پیسے لیے جاتے ہیں اور وہ پیسے تانبے کے تار کے لیے جاتے ہیں مگر لگایا سلور وائر جاتا ہے، اور اگر میٹر تبدیل کرنے آتے ہیں تو صرف میٹر تبدیل نہیں کرتے بلکہ جو تانبے کا تار ڈالا ہوا ہوتا ہے اس کو بھی سلور وائر سے تبدیل کردیتے ہیں، جبکہ اس تانبے کے تار کے پیسے پہلے ہی صارف سے لیے جاچکے ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اور بھی کئی راستے ہے ان کے پاس کرپشن کے ، آئے روز مختلف اخبارات وٹی وی چینلز K,ELECTRIC (کراچی الیکٹرک) کے کرپشن پر اسٹوریاں کرہی ہوتی ہیں ۔ باجود تمام کرپشن کے جو الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جو K,ELECTRIC (کراچی الیکٹرک) کرہی ہے حکومت اور کرپشن کو پکڑنے والے ادارے خاموش ہے جو لمحہ فکریہ ہے ، اس خاموشی سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان اداروں کو بھی حصہ ملتا ہوگا اس کرپشن سے ۔ کراچی کے باسی حکومت سے یہ سوال کرہے ہیں کہ ہمیں ”کب تکK الیکٹرک کا ظلم وکرپشن سہنا پڑے گا؟” ۔۔۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ یااللہ تو ہی ہمارے حال پر رحم فرما(آمین)

Inayat ulhaq Kabalgraami

Inayat ulhaq Kabalgraami

تحریر : عنایت کابلگرامی