بجلی کا بحران اور موجودہ صورتحال

Loadshedding

Loadshedding

تحریر : ثناء سیٹھی
زندگی گزار نے کے لیے جن بنیادی چیزوں کی ضروت ہو تی ہے۔ آج کل بجلی گیس اور پانی بھی اپنی بنیادی ضروریات میں شمار ہوتے ہیں۔ انکے بغیر کم ازکم نئی نسل تو جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ کیو نکہ ظاہر سی بات ہے کہ جب آپ کے پاس ایک سہو لت موجود ہوا اور آپ اس کے عادی بھی ہو جائیں تو اس کے بغیرجینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہم ابھی سردی میں گیس کی قلت کو صحیح طریقے سے بھلا بھی نہ پائے تھے کہ گرمی کے آتے ہیں بجلی کی قلت نے ہوش الرا دہے۔ ہماری حکومت اور وزیراء اصل میں عوام کو کسی نہ کسی طریقے سے خدا کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ کیونکہ مشکل وقت میں انسان اللہ کو ہی پکارتا ہے اور ابھی شدید گر می آئی نہیں کہ بجلی کے بحران کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10 سے 12 گھنٹے سو چئے جب شدید گرمی پڑے گی تو کیا حال ہو گا اس غریب عوام کا کیونکہ بحران تو صرف غیرب عوامکے لیے ہی ہے چاہیے وہ بجلی کا ہو یا گیس کا ۔ بس ہر حال بہت افسوس ہو تا ہے۔

یہ سب دیکھ کر ہمارے حکمران بہت سے وعدے اور دعوے ہر سال کرتے ہیں ۔ مگر عمل ندارد کیونکہ وہ دعوہ بھی کیا جو وفا ہو جائے۔ وزیر اعظم صاحب نے جب حلف اُٹھا یا تھا تو وعدہ کیا تھا کہ اس ملک کے مسائل اُن کے ذاتی مسائل ہیں ۔ اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ جی جان سے کوشش کریں گے ۔ مگر افسوس وہ اور عوام جنہوں نے اُن پر اعتماد کر کے ووٹ دیے تھے شاہد سارے وعدے بھول گئے ۔ لوڈ شیڈنگ چاہیے بجلی یا گیس کی ہو انسانی زندگی مغلوج ہو کر رہ جاتی ہے ۔ اور خصوصاً غیرب مزدور کی زندگی جو کہ کسی مِل یافیکٹری میں مزدوری کرتا ہے ۔ اور جب اُس ے یہ کیا جائے کہ دو تین مہینے گیس کی بندش لیے لہذا تم چھٹی کرو تو سوچیں کہ وہ کیاں سے لا کر اپنے بچوں پیٹ پالے گا ۔ اور جب ملز بند ہو جائیں گی تو ملک معاشی بحران کا شکار ہو گا ۔ جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری عام ہو جائے گی ۔ اور یقینا جرائم مثلاً چوری ، ڈاکہ ذنی اور لٹ مار میں بھی اضافہ ہو گا ۔ پاکستان میں بجلی کا بحران کچھ سالوں سے نہیں آیا بلک یہ مسئلہ کئی سالوں پرانا ہے۔پر دور میں پر حکومت نئے اس پر قابو پانے کے لیے بڑے بڑے دعوے تو کئے مگر عملی طور پر کچھ خاص نہ ہو سکا ۔ جس کی وجہ سے اس مسئلے پر آج تک قابو نہیں پایا گیا ۔ غریب عوام اور مئوسط طبقے لو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ۔ کیونکہ اونچے طبقے کا امیرآدمی اس کا متبادل جیسے جنریٹر ، UPS یا شمسی پینل وغیرہ استعمال میں لاتا ہے ۔ مگر ایک غریب طبقے کام انسان جو کہ اپنی آمدن سے بہ مشکل گھر کا خرچہ چلاتا ہے۔

Electricity

Electricity

وہ یہ سب نہیں لے سکتا ۔ جس کی وجہ سے وہ بہت تکلیف اور مشکلات سے گزرتا ہے ۔ سارے دن کا محنت کش جب رات کو گھر آرام کرنے لیے آتا ہے تو اُس کو اتنی گرمی میں ایک پنکھے کی سہولت بھی موجود میسر نہ آئے تو اس سے بڑی بدنصیب ہمارے ملک کی عام کے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتی کیو نکہ 2015 ئ میں بھی ہم نے اتنی تر قی نہ کی تو کیا فائدہ اس خوشحالیی اور اس تر قی کا جس میں ہمارے ملک کے عوام کو میٹروبس اور لیپ ٹوپ تو مل رہے ہیں مگر ان کو چار جز کرنے کے لیے بجلی نہیں بہت افسوس کے ساتھ لینا پڑتا ہے کہ ہمارا ملک پاکستان شاہد اُٹھار ویں صدی میں واپس جا رہا ہے کیو نکہ ترقی یافتہ ممالک خلاء میں نئے سیارے ڈھونڈھ رہے ہیں ۔ اور ہم پچھلے دور میں واپس جار ہے ہیں کیونکہ اُس وقت کے لوگ ان سب سہولیات سے نا آشنا تھے ۔ مگر ہم تو ان سب سے آشنا ہیں ۔ خدا را ہم پر تو رحیم کیا جائے۔

آج کے دور میں گھر کی صفائی سے لے کر کھانا پکانے تک اور کپڑے دھونے سے لے کر استری کرنے تک پر کام مشینوں کے زریعے ہو تا ہے اور یہ مشینیں بجلی یا گیس سے جلتی ہیں ۔ ان کے بحران سے ہمارے روز مرہ کے کاموں میں مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ اس پر جب چھوٹے چھوٹے بچے جو کہ ہمارے مستقبل کا معمار ہیں ۔ وہ دوپہر کے وقت اسکول سے آتے ہیں تو گر می میں آنے کی وجہ سے مرجھا جاتے ہیں اور جب دوپہر میں سونے کی غرض سے لیتے ہیں تو اس پر مصیبت یہ کہ بجلی ساری دو پہر نہیں آتی جس کی وجہ سے بہت تکلیف ہو تی۔

بجلی اور گیس کے بحران سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ تو بہت زیادہ پیش مگر مستقبل میں اس مسئلے کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے حل کے لیے کالا باغ ڈیم جیسے پروگرامز جلداز جلدیا یہ تکمیل تک پہنچنے چائیے۔ اس کے علاوہ ایران اور چائنہ سے پاکستان کو سستے داموں بجلی لینے معاہدے پر غور کرنا چائیے تا کہ اِس سہولت سے فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ اگر ہم چاہیں تو پن بجلی سے کافی حد تک بجلی کی پیداوار بڑھا سکتے ہیں ۔ جو کہ کافی سستی بھی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ سر کاری اور نجی اداروں پر واضح کردیا جائے کہ جو وقت بجلی استعمال کرنے کے زیادہ خصوصاً رات اور دوپہر کے وقت تمام اداروں میں سختی سے اضافی بجلی کے ضیاع کو روکا جاسکے خصوصاً تجارتی جگہیں جیسے شاپنگ مال یا دکانیں وغیرہ جہاں بجلی کی زیادتی کثرت سے ہوتی ہے ۔ ان کو رات اُٹھ بجے سے پہلے بند کر دیا جائے تاکہ تمام گھروں میں بجلی پہنچ سکے۔ اس کے علاوہ بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف سخت قانون لاگو کیا جائے کیو نکہ کثرت سے بجلی چوری ہو رہی ہے جس کی وجہ سے چوری کی ہوئی بجلی کا حساب بھی عام عوام کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جس سے بجلی تو نہیں پوری آتی مگر بل خاطرہ خواہ اضافے کے ساتھ پر مہینے سر پر آپہنچتا ہے ۔ اس ادارے کو کرپشن فری کیا جائے۔ تاکہ انصاف کے ساتھ بجلی کی فراہمی ممکن ہو سکے ۔ اس کے علاوہ اس ملک کے حکمرانوں سے اپیل ہے کہ خدا را اس ملک کے لیے سو چئے کہ اب شوچنے کا وقت اُگیا ہے اور پانی سر سے اوپر ہو گیا ہے۔

Corruption

Corruption

اب کسی انتظار کی ضرورت نہیں۔ بس ضرورت ہے تو مخلص اور متحد ہو کر کام کرنے کی۔ اگر ہم ساری قوم نسل بندی اور تعصب کی زنجیروں سے نکل کر صرف اس ملک کے بارے میں سو چیں گے تو وہ دن دور نہیں کہ جب ساری دنیا کی قومیں ہماری مثالیں دیں گی۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ دن ضرور آئے گا۔ مگر دیر سے۔

بقول اقبال:
نہیں ہے نا مید اقبال اپنی کشت ِ ویران سے ذرانم ہو تو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی

تحریر : ثناء سیٹھی