زندگی کا پہیہ اب تو بجلی کے کرنٹ سے ہی چلتا ہے بجلی کا کرنٹ بند ہوتے ہی ایسے لگتا ہے بس سانس رک گئی ہے نہ قدم آگے جا سکتے ہیں نہ پیچھے کو مڑ سکتے ہیں۔ بس ادھر بجلی کی تاروں میں کرنٹ دوڑا نہیں تو جسم میں ایسے محسوس ہوتا ہے یہ کرنٹ تاروں کی بجائے خون کی نالیوں میں گردش کررہا ہے، اس کے آتے ہی جان میں جان آجاتی ہے پھر لگتا کہ اب ہم زندہ ہیں۔ لیکن کیا کریں یہ جان اب دن میں کئی مرتبہ نکالی جاتی اور کئی کئی گھنٹے بجلی کی روح جسم سے جدا رہتی ہے۔ حکمرانوں کے وعدے بس فیس بک والی گرل فرینڈ جیسے ہوتے ہیں، جو کبھی سچ نہیں بولتی ، اور حکمران بھی بس امیدوں ، اور تسلیوں پر ٹرغاتے رہتے ہیں۔ ملک میں سخت سردی ہو یا سخت گرمی لوڈشیڈنگ کا کوئی موسم نہیں ، اب کے سال گرمیاں اپنی عروج پر جا چکی ہیں ، گرمی سے ہر شہری کا برا حال ہے وہیں اس بجلی کے بحران کا کوئی مستقل حل نہیں نکالا گیا ، موجودہ حکومت نے آتے ہی بجلی کے بحران کے خاتمے کے اعلان ، وعدے ، قسیمیں ، اور تسلیاں دے کر عوام کو صبر کا روزا رکھوا دیا اب اقتدار کا سورج غروب ہونے والا ہے لیکن بجلی کا روزا طویل ہو چکا ہے جس کے افطار کا وقت دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ، 2018 کو لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا سال کہا گیا تھا لیکن 2018 بھی آگیا نہیں پوری ہوئی تو بجلی۔ پورے ملک میں عوام غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے تنگ ہے شہروں اور دیہاتوں میں بجلی کی طویل بندش نے شہریوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے کراچی میں مزید صورت حال خراب ہو چکی بجلی غائب ہونے سے سورج میاں بھی غصے سے لال پیلے ہو کر مزید آگ برسانے لگے ہیں۔
گزشتہ دونوں کراچی میں کے الیکٹرک کے خلاف شدید احتجاج ہوتا رہا، کراچی میں لوڈشیڈنگ کے ستائے لوگ سٹرکوں پر نکل آئے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کراچی کا دورہ کیا اور بجلی کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی ، وہاں انہوں نے ایک بیان دیا جہاں لوڈشیڈنگ زیادہ ہورہی ہے وہاں بجلی چوری زیادہ ہے، ان کے کہنے کا مقصد ہے جہاں بجلی چوری زیادہ ہوگی وہاں بجلی بھی کم دی جائے گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجلی چوری کو عام آدمی نے تو نہیں روکنا اسے ادارے نے کنٹرول کرنا ہے، اس میں محکمہ کے اہلکاروں کی نااہلی یا ملی بھگت شامل ہو تو قصور وار عوام تو نہیں ، اور یہ کتنی بے بسی والی بات ہے کہ چور پکڑنے کی بجائے بجلی کی فراہمی کو معطل رکھا جائے۔ آپ نے بجلی چوری کرنے پر بھاری جرمانے سخت سزائیں تو بنا دی ، لیکن بجلی چوری کی روک تھام اور چور پکڑنے کے لیے کیا نظام تیار کیا ہے، جب 24 گھنٹے میں سے 10 سے 12 گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے ، اور اس حساب سے مہینے بھر میں 18 دن بجلی بامشکل آتی ہے لیکن دوسری طرف محکمہ تو صارف سے مہینے بھر کے فیکسڈ چارجز وصول کرتا ہے پھر تو عوام بھی کہے دے جتنی بجلی اتنے پیسے ، اب ہر ماہ بجلی پر سرچارج ، فیکسڈ لائین چارجز، پی ٹی وی فیس ، دیگر چارجز سب وصول کیے جاتے ہیں۔ حتی کہ ایک دن لیٹ بل جمع کروایا جائے تو اس پر جرمانہ بھی پورا وصول کیا جاتا ہے ، جب کہ یہی جرمانہ ترقی یافتہ ممالک میں جمع کر کے تمام صارفین کو رعایت دینے کی مد میں ان بلوں میں جمع کر دی جاتی ہے جو تمام صارفین میں برابر تقسیم ککردیا جاتاہے کچھ عرصہ قبل یہ بھی انکشاف ہوا تھا ہر ماہ بلوں کی مجموعی تعداد کا 35 فیصد جرمانے کے ساتھ جمع ہو رہا ہے جس کے لیے اب بل تقسیم ہونے سے پہلے میسج ارسال کر دیا جاتا ہے۔
بجلی چوری کی روک تھام میں نااہلی محکمہ کے ان لوگوں کی ہے جو اصلی بجلی چوروں پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے بچارے عام غریب آدمی پر چوری کی ایف آئی آر درج کرواتے ہیں۔ اب تک بجلی چوری کے مقدمات کا جائزہ لیں اور دوسری چوری ہونے والی اور ضائع ہونے والی بجلی کا جائزہ لیں تو صورت حال ویسی کی ویسی ہو گی اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی گی۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اب تک ہونے والی ایف آئی آر خانہ پوری کے لیے ہے جو آفسران دیکھاوے کے لیے کر رہے ہیں۔ جس کا نشانہ عام آدمی اور ایک غریب شہری بنتا ہے بڑے بڑے بااثر لوگ ، سیاست دان ، بیورکریٹس ان سب کے ڈائرکٹ کنکشن چل رہے ہوتے ہیں مجال ہے جو ان طاقت وار لوگوں پر ایف آئی آر ہوئی ہو۔
واپڈ کے گریڈ اسٹیشن سے نکلنے والی لائین کے ساتھ سمارٹ میٹر نصب ہوتا ہے جس میں سے گزارنے والی بجلی کی ریڈنگ ہوتی ہے اور اسی بنیاد محکمہ کو حساب دینا ہوتا ہے لائین لاسسز کی مد میں بھی مخصوص ماہانہ کوٹہ مختص ہوتا ہے، شیڈول سے ہٹ کر لوڈشیڈنگ میں محکمہ کے اہلکاروں نے اپنے یونٹ پورے کرنے کے لیے خود ساختہ بحران پیدا کرتے ہیں ہر گریڈ سے باہر جاتی لائین پر کچھ فاصلے پر جا کر ایک بریکر لگا دیا جاتا اور یہ لوگ اسی جگہ سے سپلائی معطل کر دیتے ہیں اور اسی طرح گریڈ میں لگے سمارٹ میٹرکو پتہ نہیں چلتا آگے بجلی بند ہے یا چل رہی ہے اور ایسا کرنے والے اہلکار سمارٹ میٹر سے زیادہ سمارٹ ہیں۔ یہ اہلکار اپنے یونٹ بچانے کے لیے عوام کو لوڈشیدنگ کے عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔
اب یہ ایسا کیوں کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ چوری ہے آج کل سختی زیادہ ہو جانے کی وجہ سے عام آدمی بجلی چوری نہیں کر سکتا ، بجلی چوری ہمیشہ بااثر افراد کرتے ہیں یا پھر محکمہ کی کالی بھیڑیں چوری جیسے جرم میں حصہ ہوتی ہیں ، محکمہ کے ایسے کرپٹ لوگ باقاعدہ بجلی چوروں سے منتھلیاں وصول کرتے ہیں پہلے یہ لوگ میڑ ریڈنگ میں کرپشن کر کے عام آدمی پر چوری شدہ یونیٹوں کا عذاب ڈالتے تھے پر جب سے تصویر والی ریڈنگ شروع ہوئی ہوئی ہے تو ان کی حرام کی کمائی بند ہوئی گئی ہے لیکن اب یہ لوگ فیک میٹرز لگا کر چوری کروانے لگے۔ اب مال پانی بنانے کے یہ کرپٹ عناصر غریب اور عام آدمی پر ایف آئی آر درج کروا ریے ہیں یہ ایف آئی آر کسی جگہ بقیہ جات کی وصولی میں تو کسی جگہ کار سرکار میں مداخلت ، یہ لوگوں کو ڈرانے جی غرض سے جھوٹی ایف آئی آر دوج کرواتے ہیں اور ان سے اچھا خاصہ مال بٹورتے ہیں۔ کچھ دن قبل ملتان کے ایک لائین سپریڈنٹ کے بارے خبر شائع ہوئی کہ وہ کروڑوں کی جائیداد کا مالک ہے جس نے یہ جائیداد کرپشن کر کے بنائی ہے ، یہ تو صرف ملتان کے ایک اہلکار کی خبر ہے جنوبی پنجاب میں تقریباً اکثریت ہی اس جیسے کروڑوں کی جائیداد رکھنے والے بجلی محکمہ کے اہلکار موجود ہیں ، جنوبی پنجاب کے تقریباً تمام اضلاع میں عرصہ دارز سے تعینات اہلکار بحلی چوری کروا کر کرڑوں کما رہے ہیں، جبکہ انہیں اہلکاروں نے غیر قانونی کمرشل کنکشن لگا کر مختلف جگہوں پر فیکٹریاں، آئس فیکٹریاں اور آٹا چکیاں لگائی ہوئی ہیں جن میں سے اکثریت میں ان محکمہ کے اہلکاروں کی حصہ داری ہے یا پھر یہ منتھلی وصول کرتے ہیں۔ ڈیرہ غازی ڈویڑن کے تمام اضلاع میں چلنے والی آٹا چکیوں میں سے 80 فیصد کے مالک یہی واپڈ اہکار ہیں اور کچھ ایسی ہی صورت حال راجن پور میں بھی ہے یہاں بھی ایک ایک اہلکار 5 سے زیادہ آٹا چکیوں کے چھپے ہوئے حصہ دار ہیں جن پر کے آگے فرضی مالکان اور ہیں۔
ملک میں بجلی کے بحران بارے کہا جاتا ہے کہ طلب اور رسد کبھی برابر ہے تو کبھی تھوڑا سا فرق ہے جو چند دن میں پورا ہو جائے گی، ملک میں بجلی پوری ہے اور موجودہ پیداوار کو پورا کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے محکمہ کے اندر موجود کالی بھٹروں کا احتساب کرنا ضروری ہے ، لائین سپریڈینٹ سے لے ایک ڈویڑن میں بیٹھے چیف انجیئنر تک کا احتساب کیا جائے ، ایک ہی جگہ عرصہ دراز سے تعینات اہلکار جو محکمہ کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں دراصل محکمہ کی نیک نامی خراب کرنے والے بھی یہی لوگ ہیں ، چیف جسٹس صاحب سے مودبانہ اپیل ہے کہ بجلی بحران کا نوِس لیں اور محکمہ کے کرپٹ عناصر کا احستاب نیب کے ذریعے کروائیں اور ان سب کے کی جائیدادوں کی چھان بین کروائی جائے تو ان میں اکثریت کروڑ پتی نکلے گے۔ اور ان سے جواب طلب کیاجائے کہ اتنی دولت کیسے کما لی ذرائع آمدن بتائیں۔ یہ لوگ چند سالوں میں اتنے امیر کیسے ہوگئے اور سب سے پہلے احتساب کا عمل جنوبی پنجاب کے اضلاع میں سے راجن پور اور ڈیرہ غازی خان سے شروع کیا جائے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وفاقی وزیر پانی وبجلی کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے اور پتہ چلے کہ چراغ تلے کتنا اندھیر ہے۔