تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری بجلی کے بحران کو میں نے چھ ماہ میں ختم نہ کر دیا تو میرا نام تبدیل کردینایہ تھیںاقتدار میں آنے سے پہلے خادم اعلیٰ پنجاب کی بڑھکیں مگر چار سال بعد بھی بجلی کے بحران کی لعنت ہمیں بری طرح چمٹی ہوئی عملاً ذلیل و خوار کر رہی ہے اور پھر خادم اعلیٰ نے مینار پاکستان پر اپنا دفتر چلانے کا ڈھونگ رچایا کہ دیکھو ہم بھی بجلی کی لود شیڈنگ کے” انوکھے مزے ” چکھ رہے ہیں اسطرح بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف موثر احتجاج کرتے رہے ہاتھ سے ہوا دینے والے پنکھوں کااستعمال کرتے ہوئے ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا اس طرح یہ ناکام ثبوت پیش کیا گیا کہ دیکھو ہم بجلی کے بحران میں عوام کے ساتھ ہیںاورخود بھی اس کے بند ہو جانے کی تکلیفوں کو برداشت کر رہے ہیں۔
در اصل جھوٹوں کی نانی کرے حکمرانی کی طرح ہمارے سبھی حکمران صرف زبانی دعوے کرنے لوگوں کو ورغلانے اور کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو عوام کا ہمدرد اورخود کو پارسا ثابت کرکے ووٹ اینٹھ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں پھر عوام خوا ہ کتنی ہی چیخ و پکار کرتے رہیں اور واسطے دیتے رہیں ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی آخر دیہاتوں میں سترہ سے انیس گھنٹے اور شہری علاقوں میں نو سے گیارہ گھنٹے بجلی بند رہنے کا کیا جواز ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف تو ہر نئے سال پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی نوید سنا سنا کر جھوٹوں کے چیمپئن قرار پاچکے ہیں اصل راز تو کوئی اگلتا ہی نہیں کہ اس سے اس کی اپنی پیٹھ ننگی ہوتی ہے۔اسٹیٹ بنک ببانگ دہل کہہ رہا ہے کہ بیرون ملک برآمداتی کاروباروں کی کمی اور درآمدات نے خوفناک بحران پیدا کردیا ہے اس طرح کرنٹ اکائونٹ خسارا تقریباً چھ ارب ڈالر تک پہنچنے والا ہے جس سے حکمرانوں کے سروں پر ڈیفالٹ ہو جانے کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آئل کمپنیوں کے قرضوں کا حجم پندرہ سو ارب ہوجانے کے باوجود انھیں روپوں پیسوں کی ادائیگی بالکل نہیں کی جارہی جس سے بجلی کی کمپنیوں نے فرنس آئل کی خریداری بھی انتہائی کم کردی ہے جس سے بجلی کا شارٹ فال دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے اور یہ بیماری شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے فیصل آباد ،گجرانوالہ ،ملتان، لاہورمیں ستر فیصد ملیں بند ہیں خصوصاً ٹیکسٹائلز ملز کا کاروبار تو مکمل ختم ہونے کو ہے بجلی کی شدید کمی کی وجہ سے مزدور طبقہ میں بیروزگاری کی وجہ سے ان میں بے چینگی اور سرا سیمگی بڑھ رہی ہے دہشت گردوں کو ایسے ہی حالات میں” اپنا خصوصی سٹاف ” بھرتی کرنے کے لیے موسم ساز گار مل رہا ہے وہ ہمارے سرکاری ملازمین سے زائد ہی نہیں بلکہ دوگنی تگنی تنخواہیں دے کر بیروزگارمز دوروں خصوصاً نوجوانوں اور بچوں کو ورغلا کر لے جاتے ہیں اور اپنے مذموم دھندا میں استعمال کرتے ہیں وہ ان کے گھروں میں وافر رقوم ایڈوانس بھی دے دیتے ہیں تاکہ ان کے ان “نام نہاد ملازمین ” کو پچھلا فکر لاحق نہ ہواور وہ ہر قسم کی غلیظ وارداتیں کرنے اور لعنتی کام کرنے کے لیے دل جمعی سے تیار ہو جائیں خود کش بمبار تیار کرنے والی ” فیکٹریوں ” کے ظالم مالکان کو بھی نرسری یہیں سے با آسانی دستیاب ہو جاتی ہے بھوکا مرتا کیا نہ کرتا کی طرح اور”ٹڈنہ پیاں روٹیاں تے سبھی گلاں چوٹھیاں” والا محاورہ یہاں انتہائی فٹ بیٹھتا ہے کہ جو بھوکوں مر رہے ہوں اورخود کشیاں کرنے کو تیار ہوںانھیں خواہ کوئی ہی کاروبارمل جائے وہ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیںاس طرح بجلی کے بحران سے پیدا ہونے والی بیروزگاری ہمارے ملک کے لیے آتش فشاں بنی ہوئی ہے دوسری طرف تیل کی قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ میں مزید گر گئی ہیں۔
بھارت نے تیل کی قیمتیں کم کردی ہیں مگر ہمارے”کمائو پتر”اور رات کے اندھیروں کے خفیہ بھارتی یارحکمران بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے محاورہ پر گامزن ہوتے ہوئے عوام کی جیبوں سے آخری پائی بھی نکلوا کر ان کے خون کا آخری قطرہ بھی چوس ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ بیرون ممالک کھربوں روپے ڈمپ کر سکیں اسی لیے تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھائی جارہی ہیں کہ اس سے اربوں روپے کی بچت نما رشوت وصول ہوجانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ادھر پانامہ لیکس اور الیکشنی واویلوں نے نام نہاد سیاستدانوں بشمول حکمرانوں کی صفوں میں کھلبلی مچا رکھی ہے اسی لیے تو تمام مقتدر شخصیات اور مک مکا کرنے والے اپوزیشنی نام نہاد لیڈر بھی پھاوڑوں سے بھی پیسے گھسیٹ رہے ہیں اور لانچوں کے ذریعے پیسہ دھڑا دھڑ باہر جارہا ہے اس طرح ملک سود در سود پر لیے گئے قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے جب بھی کسی سامراجی قوت نے نخرے دکھائے اور قرضہ کا حصول لیٹ ہو گیا تو حکومتی معاشی خود کشی لازم ہو جائے گی اسی لیے تو جہازوں کے ائیر پورٹس تک رہائش گاہوں کے اندر بنائے جاچکے ہیں جہاں سے کسی بھی وقت بوریا بستر سمیٹ کر بھاگ نکلیں گے تاکہ عوا م کے قابو نہ آجائیں اور وہ ان کا بھرکس ہی نہ نکال ڈالیں۔
اللے تللے کاموںاورانوکھی عیاشیانہ سکیموں پرخرچوں کی وجہ سے پاکستان جس معاشی ڈیفالٹ کے دوراہے پر کھڑا ہے اس پرلازمی امر ہے کہ وزارت داخلہ ذمہ داران کے باہر بھاگ جانے کی پابندی لگائے انھیں ای سی ایل میں ڈالے تاکہ خزانہ سمیٹ کر بھاگ نکلناممکن نہ رہے بجلی کے بحران کا حکومتی جھوٹا بیان چار ہزار میگا واٹ کا ہے مگر در اصل 6500میگا واٹ سے زائد کا شارٹ فال ہو چکا ہے سابق وزیر اعظم المعروف راجہ رینٹل صاحب تو مہنگے بجلی گھروں کی تنصیب کے ڈرامہ سے لاکھوں ڈالروصول فرما کر اکڑے پھر رہے ہیں کوئی عدالت کوئی ایجنسی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتی کہ ملک مکائی کی بیماری ہے دونوں طرف لگی ہوئی! تو موجودہ حکمران بھی اس کی طرح خزانہ کو جھٹ پٹ کیوں نہ خالی کر ڈالیں گے کون پکڑ سکے گا آخر وکی لیکس سرے محل پانامہ لیکس بہاماس لیکس میں روپے جمع کرواڈلنے پر کسی پر بھی ہاتھ ڈالا جا سکا ہے؟ نیب تو حکومتی باندی ٹھہری۔و ہ کیوں حکمرانوں اور کرپٹ ذمہ داران کے خلاف ایکشن کا پنگا لے انہوں نے بھی اپنے بال بچو ں کا پیٹ پالنا ہو تا ہے اور نوکری تو سبھی کو عزیز ہوتی ہے نہ! پوری قوم خدا کے حضور دعاگو ہے کہ ایسے حکمرانوں اور نام نہاد مک مکائی اپوزیشنی فراڈیوں سے ان کی جان چھڑوادیں۔ وما علینا الا البلاغ۔