رمضان المبارک قریب آتے ہی گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ لوڈشیڈنگ کا دورانہ پانچ گھنٹوں سے بڑا کر دس سے پندرہ گھنٹے تک کردیا گیا ہے، غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اس کے علاوہ ہے۔ ملک کے بیشتر علاقے ان دنو ں شدید گرمی کے لپیٹ میں ہیں۔ نواب شاہ میں گزشتہ روز گرمی کا پارہ 52سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا ، جو ایک عالمی ریکارڈہے ، جبکہ کراچی میں بھی گرمی کی شدت میں اضافے کے بعد لو لگنے سے دو افراد کے ہلاکت کی اطلاع ہیں۔
ایک طرف گرمی کی شدت میں اضافہ اور دوسری طرف بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ نے شہریوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ آج سے دو سال قبل جب کراچی میں اچانک گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا تو کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کراچی الیکٹرک کا بوسیدہ سسٹم زمین بوس ہوگیا تھا ۔ جس کے نتیجے میں دو ہزار سے زائدشہری گرمی لگنے کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے تھے، وہ مہینہ بھی رمضان المبارک کا ہی تھا ۔ اس سال رمضان کے قریب آتے ہی گرمی میں اضافہ اپر سے بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے کراچی کی عوام کو خوف میں مبتلا کردیا ہیں۔
حکومت وقت گزشتہ پانچ سالوں سے مسلسل لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے ، ہر سال کہتی ہے کہ اس سال لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائیگی ، جبکہ بعض حکومتی وزرانے تو حد ہی کردی ، کہتے ہیں کہ ملک ضرورت سے زائد بجلی پیداہورہی ہیں۔ حکمران جماعت نے گزشتہ الیکشن میں اس ہی منشور پر حصہ لیا کہ اقتدار میں اکر چھ ماہ میں ہی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دینگے۔ الیکشن جیتنے کے بعد ان کے وزرا بشمول چھوٹے میاں تواتر یہیں بڑھکیں مارہے ہیں کہ ہم آئندہ چھ ماہ میں ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردینگے ، چھ ماہ پورے ہوتے ہی پر نئی ڈیڈلائن مل جاتی ہے، جبکہ گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں حکومت وقت کے کچھ وزرا نے یہ دعویٰ بھی کیا کے چار دسمبر سے ملک بھر میں لوڈشیڈنگ ختم ہوجائیگی، یوں ہی دعوے اور ڈیڈلائنوں میں انہوں نے اپنی حکومت کی مدت پوری کردی ،( بس بیس دن باقی ہے)۔
کراچی جس کو اس وقت 784 میگاواٹ کی کمی کا سامنا ہے ، جس کی وجہ سے کراچی کے باسیوں کے زندگی عذاب بن گئی ہے ۔ جبکہ ملک کے بیشتر علاقوں میں بھی یہیں صورتحال ہے ۔ بجلی کی عدم دستیابی جہاں عام شہری گرمی کی وجہ سے پریشان ہیں وہی صنعتکار ،تاجر براداری اور مزدور طبقہ بھی شدید متاثر ہے ، خاص کر ٹھکیداری نظام سے منسلک افراد۔ایک طرف تاجر برادری کو اربوں روپے کا نقصان برداش کرنا پڑرہاہیں، دوسرے جانب صنعتکاروں کے کارخانے بند ہونے کے قریب ہیں۔
بلاشبہ بجلی موجودہ دور کی سب اہم اور بڑی ضرورت بن چکی ہے ۔ بجلی کے بغیر کسی بھی ملک کی ترقی ممکن ہی نہیں ، بجلی کوئی ایسی شے بھی نہیں کہ جس کی کمی کوراتوں رات پوری کی جائے، اس کے لیے طویل المدتی جامع منصوبے کی ضرورت ہوتی ہے ، جس سے پاکستانی حکمراں طبقہ ناآشنا ہے ، سابق صدر جنرل ( ر) پرویز مشرف کے دور میں بجلی کے بحران نے سر اٹھایا تھا ، اس کے بعد پیپلزپارٹی کے دور میں اس بحران نے شدت اختیار کیا، جس کی وجہ سے دیہاتی علاقوں میں اٹھارہ سے بیس گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ ہونے لگی، جبکہ شہری علاقوں میں دس سے بارہ گھنٹوں تک بجلی آنکھ مچھولی کرتی رہی۔
پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے دور میں بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لیے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی گئی ، لیکن موجودہ حکومت نے کچھ چھوٹے بڑے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائیں ہیں ، مگر اس سے بھی توانائی کا بحران حل نہیں ہوا ، ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کرے گی تب تک بیس کروڑ عوام کو درپیش بجلی کا بحران حل نہیں ہو پائیگا۔ بجلی پیدا کرنے کے کئی ذرائع ہیں ، جس میں تھر مل سب سے مہنگا اور پانی سب سے سستا ذریعہ ہے۔ پن بجلی بنانے کے بے شمار مواقع ہونے کے باوجود تھر مل کی بجلی پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے ۔
سرکاری اعداد شمار اور دیگر ذرائع کے مطابق پاکستان میں سن1988ء تک پانی سے 70فیصد اور تھر مل ( فرنس آئل اور گیس) سے 30فیصد بجلی پیداکی جاتی تھی ، مگر اب صورتحال اس کے برعکس ہے ، اب بجلی 30 فیصد پانی سے اور 70فیصد تھر مل سے حاصل کی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ایک اور اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے کمپنی کراچی الیکٹرک جہاں سے آئل اور گیس خریدتی ہے ، انہیں بروقت ادایگی نہیں کرتی جس کے بعد وہ آئل و گیس کی سپلائی بند کرلے تے ہیں ،جو ایسے بحران پیدا کرنے میں اہم کردار اد ا کرتے ہیں۔ کچھ دنوں قبل وزیر اعظم شاہد حاقان عباسی صاحب نے ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں گو کہ کراچی میں بجلی کی پیداوار کے حوالے مختلف شراکت داروں اور ذمہ داروں کے درمیان مصالحت کرا کے اس بحران کو وقتی طور پر ٹال دیا تھا، مگر یہ اس مسئلے کا مستقل حل نہیں۔بجلی کا بحران چونکہ صرف کراچی تک محدود نہیں، بلکہ بجلی کے بحران نے گزشتہ دو دہائیوں سے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس لیے اس مسئلے کا جو حل وزیر اعظم نے پیش کیا، وہ وقتی تو ہے، مستقل نہیں۔ دوسری بات یہ کہ نہ تو ملک میں موجود پاور پلانٹس میں بجلی پیدا کرنے کی استعداد میں کمی ہے اور نہ وسائل میں۔ اصل معاملہ نا اہلی، غیر ذمہ داری اور موقع پرستی کا ہے، اگر سیاسی عزم و بصیرت کے ساتھ درست انداز میں وسائل کو استعمال کیا جائے، تو اس بحران پر قابو پایا جانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
پاکستان میں بجلی کی کمی کا بحران کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے جس کا حل نہ ہو۔مگر مسئلہ یہی ہے کہ ہم اس مسئلہ کے حل نکالنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔کیونکہ ہائیڈروپاور توانائی دنیا میں سستی توانائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ،مگر اس کی دستیابی کے لیے اورڈیم بنانے کے لئے ہم مصلحتوں اور منافقتوں کاشکار ہیں۔ ہمیں اپنے ملک میں چھوٹے بڑے ڈیموں کا جال بچھانا چاہیے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت قابل قدر حد تک بڑھانی چاہیے جس کی وجہ سے ایک جانب تو ہمیں سستی بجلی حاصل ہوگی اور دوسری جانب پانی کی کمی سے بھی چھٹکارا مل سکے گااور اس کے لئے کالے پیلے نیلے رنگ کے چکروں سے نکل کراپنے ملک کے ذمینی حقائق اوردستیاب وسائل کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ یااللہ تو ہی میرے ملک پر رحم فرما (آمین)