تحریر : محمد ریاض پرنس جیسے ہی اپریل کا مہینہ شروع ہوا سورج نے اپنا آپ دیکھا یا حکمرانوں کی پالیسیاں اور ان کے چھوٹے وعدے انکی کارکردگی کا پول کھل کر عوام کے سامنے آگیا حکمرانوں کے تمام منصوبے نظر آنا شروع ہو گے ہیں۔کہ یہ کیا کچھ کر رہے ہیں۔ حکمران اپنی تقریوں میں خوب عوام کی داد وصول کر رہے ہیں ۔اور خوب دوسری سیاسی پارٹیوں پر کیچڑ اچھال رہے ہیں کہ ہم نے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ لگتا ہے بجلی صرف حکمرانوں کی تقریروں میں ہی مل رہی ہے ۔ عوام تو دن رات چیخ چیخ کر اور سسک سسک کر مر رہی ہے۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اپریل کے مہینے میں اس قدر اضافہ کر دیا گیا کہ جیسے ملک میں بجلی موجودہ ہی نہیں ۔عوام کو مرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس عوام کا قصور کیا ہے ۔ جو اس کو اتنی گڑی سزا مل رہی ہے۔ بڑے بڑے محلوں میں بسنے والے حکمرانوںباہر آ کر دیکھو عوام کس طرح مر رہی ہے ۔ایک رات ان کے ساتھ مچھر اورگرمی میں گزار کر دیکھو آپ کو پتہ چلے کہ عوام کے ساتھ ہم کس حد تک ظلم کر رہے ہیں ۔ یہ عوام آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ جیسا سلوک عوام کے ساتھ کر رہے ہیں اسی طرح کا سلوک آپ کے ساتھ بہت جلد ہونے والا ہے۔
حکمران اس وقت تک اچھے ثابت نہیں ہو سکتے جب تک وہ عوام کو ان کی ضروریات زندگی کی وہ تمام سہولیات جو ان کے بہتر مستقبل کے لئے ہوں وہ ان کو نہ دے سکیں ۔ اور جب تک وہ عوام کو تمام تر سہولیات میسر نہیں کرتے وہ عوام میں اپنا مقام پیدا نہیں کر سکے ۔ ہمارے ملک کی سب سے بڑی خراب یہی ہے کہ ہمارے حکمران عوام کے ساتھ جو وعدہ کرتے ہیں وہ بروقت پور ے نہیں ہوتے اور اگر ان کی کوئی پیشرفت ہوتی بھی ہے تو اس پر بھی سالوں لگتے ہیں۔جب بھی الیکشن آتے ہیں ہمارے سیاستدان عوام کو خوب بیوقوف بناتے ہیں اور وہ وہ وعدے کرتے ہیں جو انہیں رات کو خوابوں میں آتے ہیں ۔اور صبح ہوتے ہی عوام میں پانی کی طرح بہا دیتے ہیں ۔ اور ہماری عوام اس قدر پاگل بن جاتی ہے ۔ اور پھر پانچ سال تک ان کا رونا روتے رہتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں حکمران اچھے نہیں ۔بھائی ہم کیوں ان کی باتوں میں آتے ہیں اور بعدمیں پشتاتے ہیں۔
ہمارے ملک کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے بہت سے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے ۔ اور بہت سے منصوبے اپنے آخری مراحل میں ہیں ۔ سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے جو منصوبے مکمل ہو چکے ہیں ان کی پیدا کردہ بجلی کہاں جا رہی ہے۔ جو حکمرانوں کو اپنی تقریروں کو کامیاب کرنے میں مدد تو دے رہی مگر عوام کو اس کا فائدہ کیوں نہیں مل رہا ہے۔
عوام کو بھول کر اپنے بنک بیلنس میں اضافہ کرنے کی بجائے عوام کا سوچو۔ اس ملک کے بارے میں سوچو جس کو آپ کوکھلا کیے جا رہے ہو۔ ملک کے نوجوان نسل کے بارے میں سوچو، جو اپنا پیپر بھی اچھی طرح نہیں دے پا رہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی پڑھائی کا بہت ضیاع ہو رہا ہے۔ سڑکیں اور ییلو ٹرین،میڑوبس جسے منصوبوں سے ملک چل تو سکتا ہے مگر ترقی نہیں کرسکتا ۔ ملک اسوقت ہی ترقی کرتا جب عوام خوش حال ہو ،ان کو کوئی پریشانی نہ ہو ۔ وہ آزاد ہوں اور ان کوکوئی دہشت گردی کا خوب نہ ہو ۔ اگر آپ ملک کی ترقی دیکھنا چاہتے ہیں تو ملک کے اندر توانائی کو پورا کرنے کے مزید منصوبے لگا ئیں جس ملک روشن ہو سکے ۔ ملک کی عوام روشن ہو سکے یہ نہیں کہ وہ ساری بلک بلک کر گزاریں اور آپ محلوں میں سکون کے ساتھ رات گزاریں ۔
ملک کے اندر عوا م گرمی کی شدت کو برداشت نہیں کر پا رہے ۔ کیوں کہ بجلی کا نہ ہونا ایسے ہی ہے جسے کسی نے کھانا نہ کھایا ہو ۔ بجلی کا دارومدار ملک کی 70%ترقی پر ہے ۔ اگر بجلی نہ ہو گی تو ملک کیسے چلے گا ۔ کاروبار مکمل طور تباہ ہو چکے ہیں بجلی اور گیس نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ملک سے بہت سے سرمایہ کار دوسرے ملکوں میں چلے گے ہیں ہمارے ملک میں کوئی بھی سرمایہ آنے کو تیار نہیں ۔کیا ہم اس میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں نہیں بلکہ اس میں ہمارے بہت بڑی ناکامی ہے ۔ اور ہر روز ہمارے حکمران ناکام سے ناکام ہوتے جا رہیں ۔ اگر موجودہ حکومت توانائی کے منصوبوں کو کامیاب نہ کر سکی تو ا س کا حال آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی سے بھی بد تر ہو گا۔
نہ تو یہ حکمران بجلی پوری کر رہے ہیں اور نہ ہی گیس پوری ہو رہی ہے۔ سارے کے سارے مسائل صرف عوام کے لئے ہی کیوں ہیں ۔ 18گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ،ساری رات گیس کا نہ ہونا ۔ کیا ثابت کر رہاہے ۔بے روزگاری میں دن بندن اضافہ ،دہشت گردی کا بڑھتا ہوا رجحان ،یہ سارے کے سارے مسائل کب کم ہو ں گے جب اس ملک میں کچھ نہ رہا ۔عوام تو سسک سسک کر مر رہی ہے۔ اور کب تک ان کا نشانہ بنتی رہے گی ۔ عوام کب تک بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کرتی رہے گی۔