پاکستان میں دہشتگردی، مہنگائی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے عوام کا برا حال ہے تو دوسری طرف حکمرانوں نے اقتدار بچائو مہم شروع کر رکھی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے فوری بعد اس حوالے سے دو بنیادی اصولی فیصلے کئے۔ ایک تو یہ کہ اپنے سابقہ انتخابی وعدہ سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے بتا دیا گیا کہ اب لوگ بھول جائیں کہ بجلی کی فراہمی کا مسئلہ اتنی آسانی سے حل ہو جائے گا۔
اس حوالے سے ہم سے کوئی توقع نہ رکھی جائے ۔ خواجہ محمد آصف جو اس وقت صرف اس محکمے کے وزیر اور ترجمان تھے ، یکے بعد دیگرے ٹیلی ویڑن ٹاک شوز میں آ کر یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ وہ لوگوں کو دھوکہ نہیں دینا چاہتے ۔ یہ ایک اہم قومی مسئلہ ہے اور نہیں کہا جا سکتا کہ اس کو حل کرنے میں کتنا وقت صرف ہو گا۔ ان کے اس بیان سے لوگوں نے سمجھ لیا کہ خواجہ آصف دیانتدار آدمی ہیں اور عوام سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جھوٹ بولنے اور غلط وعدے کرنے کی روایت انتخابی مہم کے دوران راسخ ہے ۔ اس لئے سب اس موقع پر الٹے سیدھے وعدے کر لیتے ہیں جو مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں نے بھی کئے تھے۔
گرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کاجن قابو سے باہر ہو گیا ہے۔ اور مشکلیں مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں ، کے مصداق اب اس کرب سے گزرنے والے آہ و زاری کرنے کے قابل بھی نہیں رہے ۔ اس کے باوجود بجلی و پانی کے وزیر مملکت عابد شیر علی دندناتے پھرتے ہیں اور نہ ہی ان کے دعوؤں کی شدت میں کمی آئی ہے۔
اس حوالے سے نئی حکومت نے دوسرا انقلابی اقدام یہ کیا کہ فوری طور پر پاور جنریشن کرنے والے نجی اداروں کو گردشی قرضوں کی مد میں کل رقم 500 ارب روپے ادا کرنے کا اعلان کیا اور یہ وعدہ چند ہفتوں کے اندر پورا بھی کر دیا گیا۔ مقصود یہ تھا کہ یہ رقم ادا کرنے کے بعد یہ نجی ادارے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کر دیں گے۔ اس طرح ملک میں بجلی کی فراہمی میں بہتری آ سکے گی۔ تاہم یہ مقصد تو پورا نہ ہؤا البتہ نجی سرمایہ کاروں کو ایسی خطیر رقم ضرور حاصل ہو گئی جسے وصول کرنے کی امید وہ کھو چکے تھے اور جو شاید ان کا جائز حق بھی نہیں تھا۔ کیونکہ بجلی اور فیول کے نرخوں میں گڑبڑ کے باعث اس رقم کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
Electricity
اب ایک سال کے اندر ہی شنید ہے کہ یہ گردشی قرضے جنہیں ختم کرنے کے لئے قوم کو زیر بار کیا گیا تھا از سر نو 3 سو ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ جبکہ بجلی کی پیداوار میں کمی کا یہ عالم ہے کہ اس وقت شہروں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12 سے 14 گھنٹے ہے۔ دیہات کا تو ذکر ہی بے کار ہے۔اس کے باوجود بجلی کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی لوگ بل ادا کرتے رہیں اور ان میں اضافہ برداشت کرتے رہیں لیکن بجلی کی فراہمی کی امید نہ رکھیں۔ یہ اضافہ بجلی کی پیداوار اور فراہمی کی قیمتوں میں توازن پیدا کرنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے مزید قرض دینے کے لئے ریاست کی آمدنی میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انرجی کا شعبہ بھی ان شعبوں میں شامل ہے جن پر حکومت کبھی بھی محصول اور ٹیکس میں اضافہ کر سکتی ہے۔ اس لئے نجکاری کی حامی مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی اس شعبہ کو سرکاری کنٹرول سے آزاد کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ بلکہ سرکاری حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ نجی شعبہ میں پیدا ہونے والی بجلی سرکاری ادارے کو فروخت کی جائے اور وہ خود اسے لوگوں کو فروخت کر کے اپنی مرضی کے دام وصول کرے۔
اس حوالے سے مسلسل یہ غلط فہمی بھی پیدا کی گئی ہے کہ حکومت مشکل حالات کی وجہ سے بجلی کی فراہمی پر سبسڈی یا سرکاری معاونت فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لیکن یہ سب اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے ۔ حقیقی معنوں میں حکومت نے عرصہ دراز سے اس شعبہ کی معاونت چھوڑ دی ہے ۔ لیکن لوگوں سے بجلی کے زیادہ سے زیادہ دام وصول کرنے کے لئے سبسڈی کم کرنے کا جھانسہ قومی حکمت عملی کا ایک اہم جزو بن چکا ہے اس کے باوجود سرکاری ترجمان اعداد و شمار کے حوالے سے لوگوں سے جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے ۔ حال ہی میں یہ بتایا گیا ہے کہ ملک میں بجلی کا شارٹ فال 3 ہزار میگا واٹ ہے ۔ تاہم اب حقیقی اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ یہ کمی درحقیقت 7 ہزار میگا واٹ ہے ۔ ملک میں بجلی کی ضرورت 17 سے 18 ہزار میگا واٹ ہے جبکہ پیداوار 10 ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ ہے۔
وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے گزشتہ دنوں یہ سیاسی اسٹنٹ بھی شروع کیا تھا کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ سے لے کر قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ تک کی بجلی بند کر دی گئی ہے ۔ خواجہ محمد آصف نے اس پر یہ فقرہ بھی چست کیا تھا کہ اب جو بل دے گا اسی کو بجلی ملے گی۔ جبکہ حقیقی حالت یہ ہے کہ ملک میں بجلی کی فراہمی سے صرف وہ محروم ہیں جو بل ادا کرتے ہیں۔ بجلی چوری کرنے والے یا بل نہ دینے والے اتنے طاقتور ہیں کہ ان کی بجلی منقطع کرنا وزیروں کے بس کی بات نہیں ہے۔اسی تصویر کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ جن ڈیفالٹرز کی فہرستیں فراہم کی جاتی ہیں ، وہ سرکاری محکموں اور صوبائی حکومتوں پر مشتمل ہیں۔
اگر حکومت کے زیر نگران ادارے بل ادا نہیں کرتے تو اس میں کس کا قصور ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت اپنے ہی اداروں کو اتنے وسائل فراہم کرنے میں ناکام ہے کہ وہ بجلی کا بل ادا کر سکیں۔ اس حوالے سے سیاسی نعرے بازی کی بجائے یہ زیادہ ضروری ہو گا کہ ان اداروں کے مالی معاملات کو درست کیا جائے ۔ سرکاری اخراجات پر قابو پایا جائے اور سرکاری اہلکار حالات کی سنگینی کو محسوس کرنا شروع کریں لیکن حکومت کے ایک سال کے ریکارڈ کے پیش نظر یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ عوام کو اب بھی وزیروں کی گرما گرم باتوں پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ ملک میں جوں جوں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گا بجلی کی فراہمی اسی حساب سے کم ہوتی چلی جائے گی تا آنکہ قدرت مہربان ہو۔ بارشیں ہو جائیں اور ڈیمز میں بجلی پیدا کرنے لائق پانی کا ذخیرہ جمع ہو جائے۔