بجلی چوری سے اجتناب

Electricity Theft

Electricity Theft

تحریر : اقراء ضیاء
ملک کی ترقی کا انحصار اس سے وابستہ لوگوں سے ہے اور ترقی یافتہ مُلک وہی کہلاتا ہے جہاں جدید سہولیات کے ساتھ ساتھ زندگی کی دیگر معمولی سہولیات بھی موجود ہوں.اگر مُلکِ پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں کے مسائل ختم ہونے کے بجائے آئے روز بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں. اور ہم ترقی کی دوڑ میں آگے جانے کے بجائے پیچھے جا رہے ہیں. موجودہ دور کا سب سے اہم مسعلہ بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہے .جس کی وجہ سے عوام بے جا مسائل سے دوچار ہے. خواہ بچے ہوں یا بڑے تمام لوگ اس مسعلے سے رہائی حاصل کرنا چاہتے ہیں. اور اس مسعلے کے حل کے لئے حکومت کی کوششیں بھی جاری ہیں. مگر میرا ماننا ہے کہ اس مسعلے کو حل کرنے کے لئے حکومت کو عوام کے تعاون کی ضرورت ہے .

تعاون سے مُراد ہے کہ اگر عوام بجلی کی بچت کرے ٫بجلی چوری سے باز آجائے اور بجلی کے بِل کی مکمل ادائیگی کرے تو ممکن ہے کہ عوام کو اس مسئلے سے نجات مل جائے . آپ اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس گھر میں ٣ سے ٤ ائیر کنڈشنر موجود ہو ں ٫اور گھر کی غیر ضروری بتیوں کا استعمال ہر وقت کیا جاتا ہو اور میٹر مکمل طور پر بند ہو توگورنمنٹ ہرایک شہری کے لئے متواتر بجلی کی فراہمی کیسے یقینی بنا سکتی ہے.اور انہی بجلی چوروں کی وجہ سے وہ لوگ بھی بجلی کے حصول سے محروم رہتے ہیں جو بجلی کے بِل کی مُکمل ادائیگی کرتے ہوں اور بجلی کا بے جا استعمال نہ کرتے ہوں. لیکن جب بجلی کے بِل کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو کے ای ایس سی اور واپڈہ حکام کی طرف سے ٢٠ سے ٣٠ ہزار بِل مہانہ بھیجوادیا جاتا ہے اوردن میں صرف ١٢گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہو تو یہ بِل بے قصور عوام کے لئے کسی پہاڑ کے بوجھ سے کم نہیں ہوتا.

ایک طرف عوام ہے کہ جو بجلی کی چوری سے باز نہیں آتی اور پھر حکومتِ پاکستان سے شکوہ شکایت کرتی ہے .تو دوسری طرف واپڈہ اور کے ای ایس سی حکام کرپشن سے باز نہیں آتے. کبھی وہ اپنی ڈیوٹی سے برعکس کام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.تو کبھی یہی ملازمین عوام کے ساتھ بجلی چوری میں برابر کے شریک ہوتے ہیں.چونکہ ملازمین اس بات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ کہاں بجلی چوری کی جارہی ہے اور کہاں اس کے استعمال کی مکمل ادائیگی کی جارہی ہے مگر وہ انہیں روکنے کے بجائے ان کامکمل ساتھ دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں. اس سے یہی مُراد ہے کہ یہ حکام صرف چند روپیوں کی خاطر اپنے ایمان کو بیچ ڈالتے ہیں اور حلال روزی کمانے کے بجائے حرام کمانے کے عادی ہو جاتے ہیں.

آخر ایک انسا ن چوری سے کمائی ہوئی روزی کو کتنے دن تک استعمال کر سکتا ہے؟اور وہ کتنے دن تک اس روپے کو بچائے رکھے گا؟کبھی نہ کبھی اُسے چوری کی قیمت ضرور ادا کرنی پڑے گی اور نہ جانے کیوں چوری کرنے والاانسان لالچ کی آگ میں خود کو دن بدن جلائے جا رہا ہے. دراصل وہ جانتا نہیں کہ آج جس گرمی سے خود کوبچانے کے لیے چوری کی بجلی استعمال کر رہا ہے کل کو اسے جہنم کی گرمی سے کون نجات دلائے گا؟اورآخر کیوں انسان کی زندگی کے مسائل دن بدن ختم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں اُسے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ آخر اُس سے ایسی کون سی غلطی سرزد ہوگئی ہے جس کی بدولت اُس کی مُشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے.شاید یہ سوچنے سے ایک انسان خود کو غلط راستے پر چلنے سے بچا سکتا ہے.

Iqra Zia

Iqra Zia

تحریر : اقراء ضیاء ٫کراچی
[email protected]