موجودہ ملکی سیاست اور مڈ ٹرم الیکشن کی تیاریاں !

Politics

Politics

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال

پاکستان کی سیاست میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے ہر روز نیا رنگ دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے عوام والناس کے شعور و آگہی میں اضافہ ہو رہا ہے اس میں شوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا کا بھی بہت ہاتھ ہے ۔موجودہ ملکی سیاست پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ایک طر ف تمام سیاسی پارٹیاں جمہوریت کے نام پر اس نظام کو بچانے کے لیے (جو دراصل ان کے مفادات ہیں)متفق ہیں اس کے علاوہ ان کے بیانات میں دو رخی اور تضادات بھی ہیںجو ان کے مستقبل کے بارے میں اشارے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے جو حکمت عمل اپنائی ہے

اس سے فعل حال حکومت کو تحفظ مل گیا ہے اور حکومت نے اپنی مکمل توجہ پانچ سال پورے کرنے پر لگا دی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کے وزرا بیان بازی بھی کر رہے ہیں جن کا نقصان حکومت کو ہی ہو رہا ہے ۔حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے کہ بظاہر حکومت اپنی حکمت عمل میں کامیاب رہی ہے لیکن عوام کے اندرایک لاوا پک رہا ہے ۔حکومت کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا جن پر تکیہ ہے وہی ہوا نہ دینے لگیں۔مثلا پاکستان پیپلزپارٹی ،جماعت اسلامی وغیرہ کیونکہ ان کو اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہے ،اپنی شناخت قائم رکھنا ہیں

پاکستان عوامی تحریک سبز انقلاب کے نعرے کے ساتھ حکومت گرانے اور اقتدارپر قبضہ کر کے اصلاحات لانے کا مقصد لے کر مارچ سے دھرنے اور اب شہر شہر جلسے کرنے تک آ پہنچی ہے اور ووٹ ،نوٹ ،سپورٹ عوام سے مانگ رہی ہے ۔تاکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر اپنے منشور پر عمل کرسکے اس طرح عوام کی قسمت بدل دیں گے کوئی غریب نہیں رہے گا انصاف سب کے لیے ہوگا بیروزگاری ختم ہو جائے گی 10 نکاتی پروگرام بھی ہے عوامی تحریک کے پاس اور آئین کی وہ شقیں جن پر عمل نہیں ہوا اب تک جو عوام کے مفاد میں ہیں

ان کے نفاذ کی خوشخبری بھی ہے اور سب سے بڑی بات احتساب سب کا انصاف سے کرنے کی بھی بات کرتے ہیں ۔اب انقلاب کا صرف نام لیا جا رہا ہے کہ اپنا بھرم قائم رہے ویسے انقلاب والی بات نہیں رہی ،اپنے مقصد اور اس دعوے سے کہ اس سسٹم کو تبدیل کرنا سے مکمل طور پر تبدیل کر چکی ہے۔سبز انقلاب اب ووٹوں سے آئے گا کا نیا نعرہ ہے۔اس سے انکار ممکن نہیں کہ عوامی تحریک کے جلسے بھی بڑے ہو رہے ہیں اور اس کے پاس ایک منشور بھی ہے ،دلائل بھی ہیں۔

جماعت اسلامی کی موجودہ سیاست کی شائد خود جماعت اسلامی کو بھی سمجھ نہ ہو اس نے 70 سال سے رب کی دھرتی رب کا نظام کا نعرہ لگایا مگر اب جمہوریت کواللہ کی نعمت قرار دے رہے ہیں جماعت کا ماضی بھی ایسا رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا جن کے خلاف اس کو جہاد کرنا چاہیے تھا اب بھی اس جماعت کا علم نہیں ہے کہ اس نے کب برائی کے ساتھ سمجھوتا کرنا ہے اور کب اسے برائی قرار دینا ہے ۔ان سب باتوں کے باوجود اس جماعت کے تمام کارکن صالح ہیں کرپشن کے الزمات نہیں ہیں ۔ سب سے نئی بات جو جناب سراج الحق نے کی ہے وہ ہے کہ اب جماعت کی باری بھی آنے والی ہے

Malala Yousafzai

Malala Yousafzai

ملالہ پاکستان کی بیٹی ہے،جمہوریت اللہ کی نعمت ہے، آصف زرداری اور نواز شریف بھائی ہے دیکھا جائے تو جماعت اپنا مقصد ،منشورمکمل طور پر بدل چکی ہے ،۔اب جناب سراج الحق نے اسلامی پاکستان بنانے کا نعرہ لگایا ہے۔جماعت کو واضح طور پر اپنا منشور دینا ہوگا ،اپنی الگ شناخت بنانا ہو گی ۔بڑے جلسے کرنے کی صلاحیت اس جماعت کے پاس ہے ۔ہے نہیں تو واضح پالیسی نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف وہ جماعت ہے جو اس وقت سب سے پاپولر جماعت ہے نیا پاکستان کا نعرہ اور دھاندلی کے خلاف احتساب کرنے نکلی تھی مگر ابھی تک اپنے استعفے منظور نہ کروا سکی بلکہ لگتا ہے کروانا بھی نہیں چاہتی ۔ یہ اس کی سب سے زیادہ بڑی غلطی ہے اگر استعفے منظور ہو جاتے تو جتنے لوگ اب آ رہے ہیں جلسوں میں ان کی تعداد دو گنا ہو جاتی ۔د وسری طرف ضمنی الیکشن میں حصہ لینا یاکسی کی بھی حمایت کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟جلسوں کے ناقص انتظامات، ہر کام میں جلدبازی نہ جانے پیچھے کون لگا ہے۔اگر جلسوں کے انتظامات پر توجہ دی جائے اور اس کے علاوہ عمران خان اپنی تقریر میں جدت لائیں۔

تحریک انصاف کو چاہیے تھا کہ پہلے کے پی کے میں ایک ماڈل حکومت قائم کرتے وہاںدن رات کام کرتے ،غربت دور کرتے ،اور یہ سب میڈیا پر دیکھایا جاتا صحافیوں کو بتاتے وہاں لے جاتے ۔اس کی مناسب پبلسٹی کرتے اپنا کام سب سے منواتے تو آج دھرنوں کی کامیابی یقینی تھی اب تک مقاصد حاصل ہو چکے ہوتے ۔ان خامیوں کے باوجود تحریک انصاف نے پاکستانی سیاست میں ایک ہلچل مچا دی ہے ۔قوم کو شعور دیا ہے ،اب پاکستانی قوم جاگ رہی ہے ڈر اس بات کا ہے کہ جگایاعوام کو عمران نے اور اس جاگی ہوئی قوم کو اس سے بڑے کھلاڑی جو سب پر بھاری بھی ہیں اپنے حق میں استعمال نہ کر لیں سمجھنے والے سمجھ گے ہوں گے کیوں نام لیا جائے ۔تحریک انصاف کو ایک بار ذرا رک کر دیکھنا چاہیے اس نے کیا کھویا کیا پایا ہے ،پھر نئے سرے سے جہدوجہد کرنی چاہیے۔

پی پی پی کی سندھ میں حکومت ہے لیکن اس نے اپنے صوبے میں کوئی خاص کام نہیں کیا اب تک عوام کا وہی حال ہے جو پہلے تھا پاکستان پیپلزپارٹی کو اور نا جانے کتنا عرصہ چاہیے عوام کی فلاح کے کام کرنے کے لیے پچھلی حکومت بھی پیپلز پارٹی کی تھی ۔ اس نے گزشتہ الیکشن میں اپنی ناکامی سے کچھ نہیں سیکھا اب اس کو سندھ کی حکومت جانے کا بھی خدشہ پیدا ہو چکا ہے اس لیے اپنی حکومت میں ہی اپنی پاور شو کروانی پڑی بلاول نے اپنی تقریر میں غریبوں کے حق میں نعرہ لگایا ،خود کو مظلوم بتایا ۔اس میں شک نہیں کہ یہ ایک بہت بڑا جلسہ تھا لیکن اس کے انتظامات بھی بڑے پیمانے پر کیے گے تھے وقت اورپیسے کے ساتھ حکومتی مشینری بھی استعمال کی ۔بلاول زرداری نے بھٹو کا پاکستان بنانے کا اعلان کر دیا ہے ۔وزیراعظم ،وزیراعلی شہباز ،عمران اور قادری کے خلاف خوب گرجے برسے لیکن پارٹی کی سمت کیا ہے ،عوام کے لیے اس میں کیا فائدہ ہے یہ نہ بتا سکے ۔ایم کیو ایم کو للکارنے کا نقصان ہوا ہے ۔

اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنوں کو دو ماہ مکمل ہو گئے اور اب ان میں پہلے جیسی رونق نہیں رہی ، اگر دیکھا جائے کہ ان سے کس کو نقصان ہوا تو حکومت اور دھرنے والوں دونوں کو نقصان ہوا اس کے ساتھ پاکستانی قوم نے بہت کچھ پایا ہے جیسے کہتے ہیں کہ کچھ پانے کے لیے کھونا بھی پڑتا ہے تو کہنے والے جو مرضی کہتے رہیں قوم نے شعور پایا ۔عمران خان اور طاہر القادری نے احتجاجی دھرنے جاری رکھنے کا اعلان تو کر رکھا ہے لیکن ان کی خود ان دھرنوں سے باہر دیگر شہروں میں جلسوں سے خطاب کی حکمت عملی نے بظاہر دھرنوں پر میڈیا اور عوام کی توجہ قدرے کم کر دی ہے، شاید اسی صورتحال کو بھانپتے ہوئے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ پانچ ہزار افراد کے کہنے پر مستعفی نہیں ہوں گے۔

احتجاج کے دوران ملکی سیاست اور اداروں کے نظام میں موجود خرابیاں کھل کر سامنے آئی ہیں ، اب کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ مڈ ٹرم الیکشن ہوں گے ۔لگتا بھی ایسے ہی ہے کیونکہ سب سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔اگر جماعت اسلامی (جو تیل اور اس کی دھار دیکھ رہی ہے )نے بھی اپنا ووٹ بینک جاتے دیکھا پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح تووہ بھی جلسے شروع کر دے گی اور پھر ایم کیو ایم بھی پیچھے نہیں رہے گی اس طرح مڈٹرم الیکشن ناگزیر ہو جائیں گے۔

Akhtar Sardar Chaudhry

Akhtar Sardar Chaudhry

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال