اللہ بھلا کرے طالبان کا جنہوں نے پلک جھپکتے پورے افغانستان پر قبضہ کرکے ہتھیلی پر سرسوں جما دی اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاپر بیٹھے بزرجمہروں نے طالبان کی فتح پر تجزیوں اور تبصروں کی بھرمار کر دی۔ ایک طرف لبرل اور سیکولر تلواریں سونت کر میدان میں نکل آئے تو دوسری طرف ٹخنوں سے اونچی شلواروں والے مارے خوشی کے کلکاریاں مارنے لگے۔ دین داروں کو طالبان کی فتح میں کشمیر اور فلسطین کی آزادی نظر آنے لگی اور سیکولر اِس فتح میں بھی کسی امریکی چال کے متلاشی ہوئے۔ طالبان کا معاملہ ابھی درمیان ہی میں تھا کہ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر 37 اعتراضات اُٹھا کر دھماکہ کر دیا جس سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی توپوں کا رُخ اُس طرف ہوگیا۔ جب اِس قسم کی چسکے دار خبریں سامنے ہوں تو پھر کس کافر کا جی چاہے گا کہ وہ اِس موضوع پر قلم توڑ کالم نہ لکھے۔ اِسی لیے ہم بھی قلم کی تلوار اور الیکشن کمیشن کی ڈھال اُٹھا کر میدان میں کود پڑے۔
الیکشن کمیشن کے اعتراضات کا جواب دینے کی بجائے حکومتی حلقے اپنے ہی نامزد کردہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف آگ اُگلنے لگے اورہر زبان پر یہی کہ 2023ء کے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ہی ہوںگے ، گویا ”کر لو جو کرنا”۔ پارلیمانی امور کے مشیر بابر اعوان نے کہا ”کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ آئی ووٹنگ اور ای وی ایم ( الیکٹرانک ووٹنگ مشین) سے حکومت پیچھے ہٹے گی۔ اِس سے نہ عمران ہٹے گا اور نہ ہی اُس کی حکومت ہٹے گی۔ قانون بنانا الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں”۔ ایسے ہی بیانات وزیرِاطلاعات فوادچودھری اور سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر شبلی فراز کی طرف سے بھی متواتر آ رہے ہیں لیکن وزیرِریلوے اعظم سواتی نے تو انتہا کر دی۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میںآئندہ عام انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال، سمندر پار پاکستانیوںکو آئی ووٹنگ کا حق دینے، الیکشن کمیشن کی بجائے انتخابی فہرستیں نادرا سے بنوانے اورسینٹ کے الیکشن اوپن رائے شماری سے کرانے جیسی حکومتی ترامیم مسترد کر دی گئیں۔ 60 روز کے اندر حلف نہ اُٹھانے والے رکن کی نشست ختم کرنے سے متعلق ترمیم مسترد تو نہیں کی گئی لیکن اِس ترمیم کا اطلاق آئندہ الیکشن کے بعد کر دیا گیا۔ حکومت اِس ترمیم کے ذریعے سینٹ میں اسحاق ڈار کی نشست ختم کرکے اپنے وزیرِخزانہ شوکت ترین کو منتخب کروانا چاہتی تھی جس میں وہ ناکام ہو گئی۔ اب ظاہر ہے کہ اِن حکومتی ترامیم کے مسترد ہونے پر اعظم سواتی کا پارہ ہائی تو ہونا ہی تھا۔ نزلہ بَر عضوِ ضعیف می ریزد کے مصداق اعظم سواتی الیکشن کمیشن کے خلاف آگ اُگلنے لگا۔ اُس نے الیکشن کمیشن پر براہِ راست کرپشن کاالزام لگاتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پیسے پکڑے ہوئے ہیں، وہ ملک کی جمہوریت کو تباہ کرنے کا باعث ہے، ایسے اداروں کو آگ لگا دیں، وہ جہنم میں جائیں۔ اِن الزامات کے بعد الیکشن کمیشن کے حکام کمیٹی کے اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن کے سپیشل سیکرٹری نے قائمہ کمیٹی میں پیش آنے والے واقعے سے چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ کو آگاہ کیاجس پر اُنہوںنے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے 13 ستمبر کواجلاس طلب کر لیا۔ تحریکِ انصاف کی اس کھلی دھمکی کے بعد تمام اپوزیشن کی طرف سے شدید مذمت کی جارہی ہے۔ میاں شہبازشریف نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا آئیڈیا مسترد ہونے پر حکومت الیکشن کمیشن کو دھمکانے پر اُتر آئی ہے۔ ثابت ہو گیا کہ حکومت کے پاس مشین پر اُٹھنے والے فنّی اور تکنیکی سوالات کا کوئی جواب نہیں۔ مریم نواز نے کہا کہ حکومت پورے ادارے کو آگ لگانے کی دھمکی دے رہی ہے لیکن اُسے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ شیری رحمٰن نے کہا کہ حکومت الیکشن کمیشن کے 37 اعتراضات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن اُن کی مرضی کے مطابق انتخابات کروائے۔ اگر وہ نہیں جیت سکتے تو کوئی اور بھی نہ کھیلے۔
عام خیال تو یہی تھا کہ حکومت اعظم سواتی کے اِن غیرپارلیمانی الفاظ کا فوری نوٹس لے گی یا حسبِ عادت کہہ دے گی کہ اُس کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے لیکن یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا نکلا۔ فوادچودھری نے اعظم سواتی اور بابراعوان کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یوں لگتا ہے الیکشن کمیشن اِس وقت اپوزیشن کا ہیڈ کوارٹر بن گیا ہے۔ قانون بنانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے، الیکشن کمیشن کے پاس نہیں۔ چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے ماوتھ پیس کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نوازشریف سے قریبی رابطے میں رہے۔ اِن کی نوازشریف سے ذاتی ہمدردی بھی ہو سکتی ہے۔ فوادچودھری نے سوال کیا ”اگر ہمیں چیف الیکشن کمشنر پر اعتماد نہیں تو وہ الیکشن کیسے کروائیں گے؟۔ وہ چھوٹی چھوٹی جماعتوںکے آلۂ کار نہ بنیں”۔فواد چودھری سے سوال ہے کہ جب ساری اپوزیشن ای وی ایم کے خلاف متحد ہے تو پھر کیا انتخابات کی شفافیت پر انگلیاں نہیں اُٹھیں گی؟۔اب جبکہ یہ عیاں ہو چکاکہ حکومتی حلقوں کا یہی نکتۂ نظر ہے جس کا اظہار پہلے اعظم سواتی اور پھر فوادچودھری نے کیا تو پھر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ملک”اسلامی جمہوریہ” ہے۔
آخر ای سی پی نے ای وی ایم پر 37 اعتراضات اُٹھا کر کیا بُرا کیا؟۔ اپوزیشن کو تو رکھئیے ایک طرف کہ اُس کی کون سنتا ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ شمالی امریکہ اور یورپ ای وی ایم کو ترک کر چکے؟۔ کیا جرمنی، ہالینڈ، اٹلی، آئرلینڈ اور فن لینڈ جیسے ممالک ای وی ایم کا استعمال ترک نہیںکر چکے؟۔ کیا فافن اور پلڈاٹ جیسے معروف ادارے ای وی ایم پر اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کر چکے؟۔ای وی ایم کو مینوفیکچر کرنے والی کمپنی کے رابرٹ ڈوبلز نے سینٹ کی پارلیمانی امور کی کمیٹی کو بتایا کہ 36 ممالک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ 36 نہیں 18 ممالک استعمال کر رہے تھے جن میں سے 9 یہ استعمال ترک کر چکے ہیں۔ شبلی فراز نے چیلنج کر رکھا تھا کہ اپوزیشن ووٹنگ مشین میں کوئی غلطی نکال کر دکھائے۔
اپوزیشن نے تو کوئی جواب نہیں دیا البتہ ای سی پی نے 37 اعتراضات اُٹھا دیئے جس پر شبلی فراز نے کہا کہ 37 میں سے 27 اعتراضات ایسے ہیں جن کا الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے کوئی تعلق نہیں (اُس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ 27 اعتراضات کون سے ہیں جن کا ای وی ایم سے کوئی تعلق نہیں)۔ البتہ 10 اعتراضات کے بارے میں کہا کہ اِنہیں دور کر دیا گیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے اربابِ اختیار کہتے ہیں کہ سارے اعتراضات اپنی جگہ پر موجود ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ایک روز میں ای وی ایم کے ذریعے الیکشن کروانا ممکن نہیں جبکہ حکمران ایک ہی روز میں الیکشن کروانا چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اعتراضات یہ بھی ہیں کہ ای وی ایم پر سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں۔ 4 لاکھ مشینوں پر 150 ارب روپے لاگت آئے گی اِس کے باوجود شفافیت مشکوک رہے گی۔ ووٹر کی شناخت خفیہ نہیں رہے گی۔ ووٹر کی تعلیم اور ٹیکنالوجی اِس عمل میں رکاوٹ بنے گی۔ کسی بھی وجہ سے مشین کی مرمت دھاندلی کا باعث بن سکتی ہے۔ مشین میں چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے اور یہ آسانی سے ہیک ہو سکتی ہے۔ مختلف موسمی حالات میںمشین کی صلاحیت ایک جیسی نہیں رہے گی۔ انتخابی تنازع کی صورت میں کوئی ثبوت نہیں ہوگا۔ ای وی ایم کے نتائج میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ یہ مشین کم شرح ووٹنگ یا خواتین کی کم شرح ووٹنگ کی شرائط پوری نہیں کر سکتی۔ یہ وہ چیدہ چیدہ اعتراضات ہیں جو الیکشن کمیشن نے اُٹھائے جن پر ارسطوانہ ذہن رکھنے والے فواد چودھری نے کہا کہ یہ احمقانہ اعتراضات ہیں۔ قوم ابھی تک بھولی نہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں رات 8 بجے تک انتخابی نتائج کا رجحان کچھ اور تھا پھر آر ٹی ایس سسٹم بیٹھنے کا اعلان کیا گیا، انتخابی نتائج روک دیئے گئے اور اگلی صبح پانسہ پلٹ چکا تھا۔ اب بھلا اپوزیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر کیسے اعتماد کر سکتی ہے۔