ہرسال پاکستان سمیت دنیا بھر میں آبادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس سلسلہ محکمہ بہبود آبادی اور دیگر تنظیموں کی طرف سے سیمینارزواکس اور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، تقریبات میں آبادی میں اضافہ سے پیداہونےوالے مسائل اور ان کے حل پر روشنی ڈالی جائیگی۔ پاکستان آبادی کے لحاظ دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن چکا ہے۔اگر ملک کی آبادی میں اسی تناسب سے اضافہ ہوا تو 2050 تک ملک کی کل آبادی 27 کروڑسے بھی تجاوز کر جائے گی۔14 اگست 1947 کو جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان کی آبادی 3 کروڑ سے بھی کم تھی جبکہ 1951 کی پہلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی اور اس وقت برطانیہ کی آبادی 5 کروڑ 30 لاکھ تھی جو آج بھی5 کروڑ 60 لاکھ ہے جس میں تقریبا 50 لاکھ تارکین وطن بھی شامل ہیں۔
اس کے مقابلے میں اس وقت پاکستان کی آبادی 19 کروڑ 2 لاکھ 91 ہزار 129 نفوس پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں آبادی کے اضافے کی سالانہ شرح 1.6 فیصد ہے یعنی مجموعی طور پر ہماری آبادی میں سالانہ 30 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے اور ہمارے یہاں اوسط عمر 63.39 سال ہے۔ ملک میں 80 لاکھ افراد بے روز گار اور 40 لاکھ سے زیادہ معذور ہیں۔اس وقت مردو ں میں خواندگی کی شرح81.3 فیصد اور خواتین میں 63.3 فیصد ہے جبکہ نوجوانوں کی شرح خواندگی 94.5 فیصد ہے۔
11مئی کے حوالے پاکستان کے قومی اخبار(جنگ)میں بھی ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی ،رپورٹ کے مطابق 11مئی پوری دنیا میں ہیپا ٹائٹس جیسے مہلک مرض کے خلاف جنگ اور اس سے بچاو ¿ سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کا عالمی دن منایا جاتاہے جس کا مقصد عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے مرض پر قابو پانے کے ساتھ ماحول کو صاف رکھنے اور شفاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ تاہم نہ تو مرض پر قابو پایا جاسکا اور نہ ہی مبتلا افراد کا مکمل علاج ہوسکا یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کل آبادی کا 6 فیصد اس مرض کا شکار ہے اور سالانہ 10 لاکھ سے زائد افراد مرض کا مقابہ کرتے ہوئے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی مرض تیزی سے بڑھتا جارہا ہے اور ملک کی آبادی کی اکثریت اس مرض کا شکار ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق عالمی سطح پر ہیپاٹائٹس کے مریضوں کا نصف بی وائرس میں مبتلا ہے اور ہر سال تقریباً 6لاکھ افراد بی وائس سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ عالمی سطح پر 60 فیصد افراد بی جبکہ 35فیصد سی وائرس کے باعث ہلاک ہوتے ہیں۔ ملک میں ہیپاٹائٹس کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے جس کی بنیادی وجہ اگر ایک طرف گندگی اور آلودگی ہے تو دوسری جانب ملک میں صحت کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے ملک میں بجٹ کا ایک فیصد بھی صحت پر خرچ نہیں کیا جاتا جس سے نہ صرف مہلک بیماریوں پر قابو پانا مشکل ہوگیا ہے بلکہ اس سے ان بیماریوں سے ہلاک ہونے والی اموات میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ ملک میں گزشتہ 30 برس سے ہیپاٹائٹس کے مرض میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہیپاٹائٹس اب شوگر کے بعد دوسری بڑی بیماری بن چکی ہے۔ مرض میں اضافے کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 10 سال قبل ہر سال 100 مریضوں کا اضافہ ہورہا تھ اجو تعداد اب بڑھ کر 1000 تک تجاوز کرچکی ہے
Hepatitis Diseases
ان تمام صورتحال سے بے خبر سیاستدان اور حکمرانوں نے اپنی اپنی سیاسی دوکانداری چمکانے کیلئے الزامات جنگ شروع کررکھی ہے ۔جس ملک میں 1565920 پرائمری سرکاری سکولز 320611 مڈل سکولز اور 23964 ہائی سکولز کے علاوہ سرکاری شعبے میں سائنس اور آرٹس کے لئے 1202 ڈگری کالجز3125ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹس ہیں اور یونیورسٹیز کی تعداد 137 ہے جو کہ وطن عزیز کی موجودہ آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے۔اسی طرح ملک میں صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والے ادارے 13937اور کل بیڈز 103708میسر ہیں جو موجودہ آبادی کے اعتبار سے عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے کم ہیں۔ پاپولیشن ویلفیرز کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کو اس وقت ملک میں امن وامان کی بحالی خواندگی کی شرح 100 فیصد کرنے کے ساتھ ساتھ 50 فیصد آبادی جو خط غربت سے نیچے ہے کو غربت سے نکالنے اور آبادی میں اضافہ کی وجہ سےپیدا ہونےوالے مسائل کے حل کےلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کی بنیادی وجہ آبادی میں اضافہ ہے۔اگر آبادی میں اضافہ کو کنٹرول نہ کیا گیا تو آنے والے سالوں میں اس میں خطرناک حد تک اضافہ ہو جائے گا جس سے ملکی مسائل میں بھی اضافہ ہو گا۔
گزشتہ سالوں کی طرح اب بھی صرف اس موقع پر 11 جولائی کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد ہو گا۔کوئی پلان نہیں تیار کیا گیا۔جب کوئی پلان ہی نہیں کہ ملکی مسائل کسے حل ہونے ہیں۔ توپھر تقریبات کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔