تحریر : شہزاد حسین بھٹی خلیفہ ہارون رشید کے دو بیٹے تھے امین اور مامون۔ دونوں امام کسائی کے شاگرد تھے۔ایک مرتبہ استاد اپنی مجلس سے اْٹھے تو دونوں بھائی جلدی سے استاد کو جوتے پکڑانے کے لیے لپکے۔دونوں میں تکرار ہو گئی کہ کون استاد کو جوتے پیش کرے۔بالآخر دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کی دونوں ایک ایک جوتا پیش کر دیں۔ جب ہارون رشید کو اس قصے کا پتہ چلا تو اس نے امام کسائی کو بلایا۔جب وہ آئے تو ہارون رشید نے کہا:لوگوں میں سب سے عزت والا کون ہے؟امام کسائی نے کہا: میری رائے میں امیر المومنین سے زیادہ عزت والا کون ہو سکتا ہے!خلیفہ نے کہا:عزت والا تو وہ ہے کہ جب وہ اپنی مجلس سے اٹھے تو خلیفہ کے دونوں صاحب زادوں میں اس بات پر جھگڑا ہو کہ ان میں سے کون استاد کو جوتے پہنائے۔امام کسائی نے سوچا کہ شاہد خلیفہ اس بات پر ناراض ہوا ہے لہذ اپنی صفائی پیش کر نے لگے۔ہارون رشید نے کہا سنیے!اگر آپ نے میرے بیٹوں کو اس ادب واحترام سے روکا تو میں آپ سے سخت ناراض ہو جاؤں گا۔
اس کام سے ان کی عزت ووقار میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے اندر چھپی ہوئی فرست کا اظہار ہوا ہے کہ وہ کتنے عقلمند اور دانا ہیں۔سنیے!!! خواہ کوئی شحص کتنا ہی عمر، علم یا مرتبے میں بڑا کیوں نہ ہو ، تین افرد کے سامنے بڑا نہیں ہوتا۔؛قاضی ، استاد اور اپنے والدین کے سامنے۔۔۔ ہماری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو احترام، اقدار، رسم ورواج، سلیقہ ، تہذیب غرض کچھ بھی تو نہیں سکھا سکے۔ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے زیر اثر ہم نے صرف دو ہی طبقات پیدا کیے ہیں ایک وہ جو حکمرانی کرینگے اوردوسرے غلام۔ اگر ہمیں ماں باپ اور اساتذہ کا رتبہ اور احترام سیکھا یا گیا ہوتا تو آج اساتذہ کی عزت یوں سرعام بے توقیرکرنے کی کسی کو ہمت ہوتی اور نہ کرنے کی اجازت دی جاتی۔دانشور اشفاق احمد کہتے تھے کہ ایک دفعہ ان کا فرانس میں چالان ہوا تو وہ چالان جمع کروانے عدالت گئے۔ جب جج کو یہ معلوم ہوا کہ وہ استاد ہیں تو وہ اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا اورکہا.”Teacher in the court?” نہایت عزت و احترام سے انہیں رخصت کیا ۔انسان کی شخصیت سازی میں تربیت کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے ۔ پہلے تعلیم و تربیت دونوں کسی بھی انسان کی شخصیت کا خاصہ ہوتی تھیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ تربیت کا خانہ خالی ہی رہ گیا اور صرف تعلیم رہ گئی جو معلومات تک رسائی تو ہے لیکن معلومات نہیں ہیں۔
یہ سب لکھنے کا محرک گذشتہ دن کوٹ مومن میں ہونے والا وہ واقعہ ہے جس پر میں سمجھتا ہوں اگر میں نے قلم نہ اُٹھایا تو شاید میرا ضمیر مجھے معاف نہیں کرے گا۔ یوں تو اس واقعے پر سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے لیکن ایک استاد کی بے توقیری مجھے کسی صورت گوارا نہیں ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ کوٹ مومن میں ایک انا کی ماری اسسٹنٹ کمشنر نے اپنی انا کی تسکین کی خاطرامتحانی سینٹرکو چیک کرنے کے بہانے گورنمنٹ ڈگری کالج کوٹ مومن کا اچانک دورہ کیا اور امتحانی سینڑ میں گھسنے کی کوشش کی تو اس پرسینٹر کے سپرٹینڈنٹ نے اسے روکا کہ آپ امتحانی سینٹر میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ محترمہ پرنسپل آفس گئیں اور عزت ماب پرنسپل کی کرسی پر براجمان ہو گئیں کیونکہ وہ خود کو تحصیل کی مالکن سمجھتی ہیں۔
ان کی نظر میں ایک استاد کی کیا اہمیت ۔اس پر ڈگری کالج کو ٹ مومن کے پرنسپل صاحب نے کہا کہ آپ کو جو ریکارڈ اور معلومات چاہیے دینے کو تیار ہوں لیکن یہ کرسی میری ہے اس پر مجھے بیٹھنے دیجئے تاکہ میں آپ کو بہتر انداز میں چیزیں پیش کر سکوں۔یہ کرسی آپ کی نہیں برائے مہربانی ساتھ والی کرسی پر تشریف رکھیے، اختیارات کے خچر پر سوار خود کو نعوذ باللہ کن اور فیکون کی مالک سمجھنے والی اے سی کوٹ مومن عفت النساء کی جھوٹی انا نے اس کے دماغ کو دبوچ لیا اور یہ جانے بغیر کہ وہ اس وقت جس سے مخاطب ہے وہ اس کی باپ کی عمر کا شخص ہے استاد ہے قوم کا محسن ہے، کسی پرائمری سکول کا نہیں کالج کا پرنسپل ہے (عزت پرائمری ٹیچر کی بھی کالج کے پروفیسر جتنی ہوتی ہے) اپنے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو حکم دیا کہ گرفتار کر لو احکامات اور دولت کی غلام پولیس کے اہلکاروں نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا کہ جس کی ساری عمر درس و تدریس میں گزری۔ پرنسپل صاحب کو 2 گھنٹے تک حبس بے جا میں رکھا گیا اور پھر ان کو تھانے کے حوالات سے نکالا گیا۔اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی کالج کے اساتذہ اور طلبا میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے اے سی کی سرکاری رہائش گاہ اور روڑ بلاک کی اور اے سی سے معافی کا مطالبہ کیا۔ جبکہ دوسری طر ف جو سرکاری رپورٹ ڈی سی اور کمشنر سرگودھا کو بھجوائی گئی اس میں محترمہ کو معصوم اور دودھ کی دھلی اور پینتیس سالہ تجربے کے حامل پروفسیر کو قصور وار ٹھہرا دیا گیا۔
جب طاقت کانشہ سر پر سوار ہو تو پھر لحاظ، عزت، تعلیم، آداب سب خودکشی کر لیتے ہیں ۔ پرنسپل کے ساتھ بدتمیزی اور بے شرمی کی انتہا کرنے پر کیا ایسی جاہل، چھچھوری اور بدتمیز خاتون کو فوراً معطل نہ کر دینا چاہیے۔ اسے کس آئین اورقانون نے یہ اختیار دیا کہ وہ ایک استاد کے ساتھ بدتمیزی کرے ۔ اگر وہ سترہ گریڈ کی آفسر تھی تو کالج پرنسپل بھی انیسویں گریڈ کے سرکاری آفسر تھے۔کیا اب ان عوامی ملازمین کا یہ فرض رہ گیا ہے کہ وہ مجرمان کو پکڑنے کے بجائے اساتذہ کی تذلیل شروع کر دیں۔سچ کہا کسی نے کہ طاقت ور کے لیے قانون اور ہے اور کمزور کے لیے اور۔اختیارات کی غیرمنصفانہ تقسیم نے اس ملک کے اداروں کی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔کہاں ہیں وہ میرٹ کی بانسری بجانے والے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ۔ کیا وہ اس بدتمیز اورغنڈہ صفت فرعونہ کے خلاف کاروائی کرینگے؟ اس محترمہ کو یہ بتائیں کہ شرمند ہ کسے ہونا ہے۔