ہالینڈ (جیوڈیسک) ایران سے اپنے سفارت کاروں کی ملک بدری کے بعد ہالینڈ نے تہران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ ڈچ سفارتی عملے کو ان الزامات کے بعد ملک بدر کیا گیا تھا کہ سیاسی بنیادوں پر قتل کے واقعات میں مبینہ طور پر ایران ملوث تھا۔
دی ہیگ سے پیر چار مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں ملکی وزیر خارجہ اسٹیف بلاک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ڈچ حکومت نے تہران میں تعینات اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے واپس بلایا ہے۔ آج پیر کے روز ہالینڈ کے سفیر کے واپس بلائے جانے کی وجہ ایرانی حکومت کا وہ اقدام بنی، جس کے تحت تہران میں دی ہیگ کے دو سفارت کاروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر ایران سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا تھا۔
ڈچ وزیر خارجہ اسٹیف بلاک نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’حکومت نے تہران میں ڈچ سفیر کو مشاورت کے لیے واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی وجہ ایرانی وزارت خارجہ کا وہ حالیہ اعلان بنی، جس میں تہران میں دو ڈچ سفارت کاروں کو ناپسندیدہ افراد قرار دے کر ملک چھوڑنے کے لیے کہہ دیا گیا تھا۔‘‘
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ تہران کی طرف سے ڈچ سفارتی عملے کے ان دو ارکان کو گزشتہ ماہ فروری میں ملک سے نکال دیا گیا تھا۔ اس کا سبب قریب دو ماہ قبل ایران پر لگائے جانے والے یہ الزامات بنے تھے کہ بیرون ملک سیاسی بنیادوں پر قتل کے واقعات میں ایران کا ہاتھ تھا۔ ان واقعات میں پہلے 2015ء اور پھر 2017ء میں دو ایسے ایرانی نژاد باشندوں کو قتل کر دیا گیا تھا، جر اہم سیاسی منحرفین میں شمار ہوتے تھے۔
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
اس سے قبل ہالینڈ کی حکومت نے بھی اپنے ملک میں تعینات دو ایرانی سفارت کاروں کو گزشتہ برس جون میں ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر ملک بدر کر دیا تھا۔ تب ہالینڈ کی وزات خارجہ نے کہا تھا، ’’ان دونوں ایرانی سفارت کاروں کو ڈچ انٹیلی جنس کی طرف سے ملنے والے ان واضح اشاروں کے بعد ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ یہ دونوں ہالینڈ کی سرزمین پر دو ایسے افراد کے قتل میں ملوث تھے، جو ایرانی نژاد ڈچ شہری تھے۔‘‘
گزشتہ ماہ یورپی یونین نے دو اسے ایرانی شہریوں پر بھی پابندیاں لگا دی تھیں، جو یورپی حکام کے مطابق مبینہ طور پر فرانس اور ڈنمارک میں قتل کی دو ایسی کوششوں میں ملوث تھے، جنہیں ناکام بنا دیا گیا تھا۔ ان ایرانی باشندوں میں سے ایک کا نام اسداللہ اسدی تھا اور دوسرے کا سعید ہاشمی مقدم۔ اسدی ویانا میں ایرانی سفارت خانے کے ایک سفارتی اہلکار کے طور پر رجسٹرڈ تھے، جنہیں گزشتہ برس گرفتاری کے بعد ملک بدر کر کے بیلجیم کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ سعید ہاشمی مقدم ایران کی سکیورٹی اور انٹیلیجنس کی ملکی وزارت کے نائب سربراہ ہیں۔
اپنے ان دو شہریوں کے خلاف یورپی یونین کی طرف سے پابندیاں عائد کیے جانے سے پہلے اور بعد میں بھی ایران نے زور دے کر دعویٰ کیا تھا کہ اس کا یورپ میں ایرانی سیاسی منحرفین کے قتل کے واقعات یا ایسی کسی بھی کوشش سے کبھی کوئی تعلق تھا اور نہ ہے۔