اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے سی ڈی اے کو ہدایت کی ہے کہ جن سفارت خانوں نے راستوں میں کھڑی رکاوٹیں ہٹانے کیلیے مہلت مانگی ہے ان سے معلوم کیا جائے کہ انھیں کتنا وقت چاہیے۔
وفاقی دارالحکومت میں آنے جانے کے راستوں میں رکاوٹوں اور رہائشی گھر تجارتی مقاصد کےلئے استعمال کرنے کے بارے میں مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، جس ملک کے لوگوں نے یہاں رہنا اور سفارتخانے نے کام کرنا ہے تو پاکستان کے قانون کی پابندی کرنا ہوگی۔
ہم کسی سفارتخانے کو قانون ہاتھ میں لینے کی چھوٹ نہیں دے سکتے، سی ڈی اے ہمیں کہہ دے کہ ہم اب تک غلام ہیں اور اگر ہم آزاد ہیں تو سفارتخانوں کو کہہ دیا جائے کہ رہنا ہے تو قانون ہمارا چلے گا، یہ نہیں ہو سکتا کہ جنیوا کنونشن کے دستخطی ہونے کے باجود کچھ ممالک اس کی پاسداری نہ کریں۔
سی ڈی اے نے بتایا کہ برازیل، جنوبی افریقہ اور نیپال کے سفارتخانوں نے رضا کارانہ طور پر رکاوٹیں ختم کردی ہیں جبکہ سویڈن، یونان، آسٹریا اور ہنگری سمیت6 سفارتخانوں نے وقت مانگا ہے، رہائشی علاقوں میں 13 رکاوٹیں اب بھی قائم ہیں جو کچھ حساس عمارتوں کی وجہ سے سیکیورٹی کیلیے کھڑی کی گئی ہیں۔
ان عمارات میں چرچ، اسکول اور امام بارگاہیں قائم ہیں، جسٹس جواد نے کہا کہ جہاں واقعی سیکیورٹی کا مسئلہ ہے تو حفاظتی اقدامات ضرور کیے جائیں لیکن پرائیویٹ لوگوں کو قانون ہاتھ میں نہ لینے دیا جائے۔
چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں بینچ نے چاروں صوبائی حکومتوں کو اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کیلیے جامع سیکیورٹی پلان ترتیب دینے اور ملک میں مذہبی رواداری کو فروغ دینے کیلیے تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کرنے کی ہدایت کی ہے۔