کبھی کبھی ہم وقت کی رفتار کو سمجھ ہی نہیں پاتے وقت کب اور کس وقت بدل جائے اس کا ہمیں پتا نہیں ہوتا جو وقت کی قدر کرتا ہے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وقت اس کو بتا دیتا ہے کہ وقت کی قدر کرنے والوں کو کیا کیا ملتا ہے یہ چند دن پہلے کی بات ہے جب مجھے ایک کمپنی سے فارغ کر دیا گیا تھا اور میں بے حد پریشان تھا کسی جگہ کام کی تلاش میں رہتا مگر مجھے کام نہیں مل رہا تھا صبع سے لے کر شام تک ایک سے دوسری کمپنی میں کام کی تلاش میں چکر لگا لگا کر میں تھک گیا تھا اوپر سے گھر کے حالات میرے سامنے تھے میں اپنی زندگی سے بھی اکتا گیا تھا میری سوچوں میں بس ایک ہی سوال بار بار آ رہا تھا کہ ایسی زندگی سے موت ہی بہتر ہے مگر پھر بچوں کی یاد آ جاتی کہ میری موت کے بعد ان کا کیا ہو گا وہ کیا کرے گے انہی سوچوں میں وقت گزرتا رہا اور مجھے کام سے فارغ ہوئے بھی ایک سال سے اوپر ہو گیا نجانے اللہ تعالٰی نے میری قسمت میں کیا لکھا تھا ایسے ہی ایک دن می کام کی تلاش میں جب گھر سے نکلا تو چلتے چلتے تھکن کی وجہ سے میں لاہور کی ایک روڈ پر درخت کے نیچے کچھ دیر کے لیے آرام کرنے لگا ابھی مجھے آرام کرتے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ میرے سامنے ایک کار کا ایکسیڈنٹ ہوا مجھے گاڑیوں کے بارے زیادہ معلومات تو نہیں تھی خیر میں جلدی سے ایکسیڈنٹ والی کار کے پاس پہنچا تو کار میں سوار ایک لڑکی تھی جس کی عمر 25 سے 30 سال ہو گی۔
میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ میں نے 1122 کا نام سنا ہوا تھا کہ 1122 کی سروسز بہت اچھی ہے وقت پر پہنچ جاتے ہیں میں نے جلدی سے اپنی جیب سے موبائل فون نکال کر 1122 کو کال کی چند ہی منٹ میں 1122 کی گاڑی ایکسیڈنٹ کی جگہ پہنچ گئی اور میں نے اہلکار کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور 1122 کے اہلکاروں نے ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہونے والی لڑکی اور مجھے ساتھ لیا اور لاہور کے ایک بڑے ہسپتال منتقل کر دیا ایمرجنسی میں لڑکی کو داخل کر لیا گیا اور کچھ ضروری کارروائی کے لیے میرا موبائل نمبر اور میرا آئی ڈی کارڈ اپنے پاس جمع کر لیا گیا اور میں ایمرجنسی گیٹ کے باہر آ کر ایک جگہ بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا جب ڈاکٹروں نے لڑکی کے پرس چیک کیا تو اس کے اندر سے موبائل فون ملا چیک کیا تو اس پر لاک لگا ہوا تھا جو کافی کوششوں سے بھی اوپن نہیں ہوا کچھ دیر کے بعد لڑکی کے موبائل فون پر کال رسیو ہوئی جو ایک لیڈی ڈاکٹر نے یس کی آواز کی تبدیلی کی وجہ سے کال کرنے والے نے پوچھا کہ یہ تو مناہل کا نمبر ہے اور آپ کون ہے اور مناہل کہاں ہے لیڈی ڈاکٹر نے پوچھا کہ آپ کون ہے میں جان سکتی ہوں تو کال کرنے والے نے کہا کہ میں مناہل کا بڑا بھائی ہوں سلمان نام ہے میرا تو لیڈی ڈاکٹر نے ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو زخمی ہونے والی لڑکی کے گھر والے جن میں زخمی ہونے والی لڑکی کے بہن بھائی اور اس کی ماں کچھ ہی دیر میں ہسپتال پہنچ گئے۔
ہسپتال پہنچ کر انھوں نے ایمرجنسی میں زیر علاج لڑکی سے رابطہ کیا صورتحال دیکھنے کے بعد لڑکی کے بھائی سلمان نے اپنے والد کو کال کی کہ ابو جان جلدی سے ہسپتال پہنچ جائیں مناہل کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ ایمرجنسی ہسپتال میں زیر علاج ہیں کچھ ہی وقت گزرا ہو گا کہ مناہل کے ابو بھی ہسپتال پہنچ گئے ڈاکٹروں سے ملاقات کے بعد انھوں نے پوچھا کہ آخر ایکسیڈنٹ ہوا کیسے تھا تو ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ باہر ایک بندہ ہے جو آپ کی بیٹی کو ہسپتال لے کر آیا ہے اگر وہ بندہ کچھ دیر لیٹ کر دیتا تو آپ کی بیٹی کا بچنا بہت مشکل تھا مناہل کے ابو جلدی سے باہر آئے تو ہر طرف دیکھنے لگے جب میری ان پر نظر پڑی تو میں خود ان کے پاس چلا گیا ایک تو وہ پہلے ہی بہت پریشان تھے اوپر سے مجھے دیکھتے ہی غصے میں بولے تم یہاں کیا کر رہے ہو دفعہ ہو جاؤ میری نظروں سے میں آپ کو بتاتا چلوں یہ کوئی اور نہیں تھے یہ صاحب وہی ہیں جنھوں نے مجھے اپنی کمپنی سے بے قصور فارغ کیا تھا۔
میں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا سر میں آپ سے نوکری لینے لے لیے نہیں آیا میں تو ایک بہن کو لے کر آیا ہوں مگر افسوس کہ میرے صاحب اتنے غصے میں تھے کہ آگے سے کوئی بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور واپس ایمرجنسی میں چلے گئے کچھ ہی لمحوں بعد ایک ڈاکٹر صاحب کے ساتھ باہر آئے اور دیکھنے لگے کہ کون سا بندہ ہے جو مناہل کو لے کر آیا ہے اتنے میں ڈاکٹر کی نظر مجھ پر پڑی اور مجھے آواز دی مجھے دیکھتے ہی میرے کمپنی کے مالک بہت شرمندہ ہو رہے تھے جب میں ان کے پاس آیا تو ڈاکٹر صاحب نے میرا تعارف کرواتے ہوئے میرے مالک کو بتا کہ یہ ہے وہ انسان جس نے آپ کی بیٹی کی جان بچائی ہے اگر یہ آپ کی بیٹی کو وقت پر ہسپتال نہ لے کر آتے تو آپ کی بیٹی ابھی زندہ نہ ہوتی اتنے میں میرے مالک نے ہاتھ جوڑتے ہوئے مجھے سے معافی مانگنے لگے میں نے جلدی سے ان کے ہاتھ پکڑ لیے کہ سر مجھے شرمندہ نہ کریں میں آپ کی کمپنی کا ملازم تھا آپ میرے مالک ہیں جب میں نے اپنے مالک جن کا نام شاھد ہے ان کی آنکھوں میں دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بھرے ہوئے تھے اور ان کی زبان ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔
بس اتنا ہی وہ بول پائے کہ کل مجھے آفس میں آ کر لازمی ملنا اور میں کچھ دیر بعد واپس اپنے گھر آ گیا اور گھر آتے ہی میں نے اپنی بیگم سے ساری صورتحال سے آگاہ کیا جیسے تیسے رات گزری اور اگلے دن میں کمپنی پہنچ گیا اور اپنے مالک شاھد صاحب سے ملا تو انھوں نے مجھے کمپنی سے فارغ ہونے کی ساری گفتگو سنی اور فور مین کو کال کی کہ جلدی سے میرے آفس آئیں جیسے ہی فور میںن نے آفس میں مجھے دیکھا تو اس کے رنگ تبدیل ہونا شروع ہو گئے اتنے میں شاھد صاحب نے گفتگو کرتے ہوئے کہ کہ مجھے ساری گفتگو کا پتا چل گیا ہے کہ آپ نے سجاد علی کو کیوں فارغ کیا تھا آپ کو شرم آنی چاہیے کہ آپ نے ایک بے قصور کو کام سے فارغ کروایا مجھے اپنے آپ میں شرم آ رہی ہے کہ میں نے اس بے قصور کو نوکری سے فارغ کیا وہ بھی آپ کے کہنے پر زیادہ گفتگو سے بہتر ہے کہ اب آپ میری کمپنی سے خود ہی چلے جائیں ورنہ مجھے پھر آپ پر ایکشن لینا پڑے گا یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ میں بول پڑا سر معافی چاہتا ہوں آپ سب سے میں نہیں چاہتا کی میری وجہ سے کوئی اور نوکری سے فارغ ہو اور پھر وہ اور اس کے گھر والے کھانے کو ترسے جس طرح میں نے یہ ایک سال بسر کیاہے مجھے پتا ہے یا میرے خدا کو شاھد صاحب نے نے فور مین سے کہا کہ سن لیں جس کو آپ نے نوکری سے فارغ کروایا ہے وہ کیا بول رہا ہے اگر ان دنوں میں میرا انتقال ہو جاتا تو روزقیامت میں اپنے خدا کو کیا منہ دیکھاتا کہ میری لاپرواہی کی وجہ سے ایک خاندان اس قدر مجبور ہو گیا تھا کہ اسے کھانا بھی میسر نہیں ہو رہا تھا فور مین صاحب بہتر ہے اس بندے سے معافی مانگے اور آگے سے خیال رکھنا کہ کبھی بھی زندگی میں ایسا کام مت کرنا جو تمہاری غلطیوں کی وجہ سے اپنے خدا کے سامنے رو پڑے اور تمھارے لیے اس دنیا اور آخرت میں بہت ہی برا عذاب بنے ہمیشہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے اور دعا کیا کریں اللہ پاک ہم نیکی کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔