ایران (جیوڈیسک) تہران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کی مقررہ حد تجاوز کر جانے کے بعد پیرس حکومت 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے کوشاں ہے۔ ایران کی جانب سے یہ جوہری معاہدے کی پہلی خلاف ورزی ہے۔ فرانسیسی اخبار لے مونڈ کے مطابق اس پیش رفت کی تمام تر ذمے داری ایران پر عائد ہوتی ہے۔ یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیض و غضب کے لیے واضح چیلنج ہے۔ ٹرمپ تہران پر الزام عائد کر چکے ہیں کہ وہ “آگ سے کھیل رہا ہے”۔
یاد رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے پیر کے روز اعلان کیا تھا کہ ایران جوہری معاہدے کے تحت مقرر کردہ افزودہ یورینیم کی حد سے تجاوز کر چکا ہے۔ ایرانی اسٹوڈنٹس کی خبر رساں ایجنسی ISNA کے مطابق ظریف نے کہا کہ میری معلومات کی بنیاد پر ایران کم افزودہ یورینیم کی 300 کلو گرام کی حد پار کر چکا ہے۔
تہران نے یہ دھمکی بھی دے رکھی ہے کہ اگر جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک (جرمنی، چین، فرانس، برطانیہ اور روس) نے امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے ایران کی مدد نہ کی تو ،،، تہران 7 جولائی سے یورینیم کو 3.67% سے زیادہ کی سطح پر افزودہ کرنے کا آغاز کر دے گا۔ یہ جوہری معاہدے میں مقررہ سطح سے اعلی شرح ہے۔ اس کے علاوہ ایران ملک کے وسطی علاقے میں بھاری پانی کے ری ایکٹرز کی تعمیر کے منصوبے کا دوبارہ آغاز کر دے گا۔
معاملے سے قریب ایک فرانسیسی ذریعے نے لے مونڈ اخبار کو بتایا کہ ایرانیوں نے دو سال تک جوہری معاہدے کے تحت رہے اور اس دوران مطلوبہ فوائد حاصل نہ کر سکے۔ امریکا کی نئی پابندیوں کے جواب مین رواں سال مئی میں ایرانیوں نے طاقت کے توازن کے حوالے سے اپنے ردّ عمل کا اظہار کیا۔ ایسا نظر آ رہا ہے کہ تہران کی چال یہ ہے کہ وہ اپنے شراکت داروں بالخصوص یورپی ممالک سے مدد کی اپیل کرنا چاہتا ہے۔ اس بات کو تہران میں فرانس کے سابق سفیر فرانسوا نیکولو نے باور کرایا۔
ایک یورپی سفارت کار کا کہنا ہے کہ “ہم خاص طور پر بحران کا حل چاہتے ہیں”۔
اس سلسلے میں ماسکو اور بیجنگ کے ردود عمل سب سے زیادہ متوازن شمار کیے جا رہے ہیں۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ مئی 2018 میں جوہری معاہدے سے امریکا کی علاحدگی کے باوجود واشنگٹن تہران کے رویے کی مذمت کرنے میں شدید ترین رہا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنا جوہری پروگرام عالمی برادری کو بلیک میل کرنے اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کے واسطے استعمال کر رہا ہے۔
امریکی صدر نے بھی ایرانیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ “وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں”۔
جاپان میں (جی – 20) سربراہ اجلاس کے اختتام کے بعد ایک پریس کانفرنس میں فرانس کے صدر عمانوئل ماکروں کا کہنا تھا کہ وہ فریقین کے بیچ اعتماد اور بھروسے کی بحالی اور ایک دوسرے کے قریب آنے پر حوصلہ افزائی کے لیے ایک راستہ کھولنا چاہتے ہیں۔ سربراہ اجلاس کے بعد فرانس کے صدر نے اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی سے بھی گفتگو کی۔ ماکروں اس معاملے میں تصرف کی زیادہ قدرت رکھتے ہیں بالخصوص جب کہ وہ اس سلسلے میں ٹرمپ سے زیادہ قابل اعتبار ہیں۔ جہاں تک فرانس کی بات ہے تو یہ امر تین دیگر ستونوں کے ساتھ 2025 تک سمجھوتے کی مدت پوری ہونے سے متعلق ہے۔ اس کے تحت ایرانی بیلسٹک میزائل پروگرام پر کنٹرول اور ایران کی علاقائی توسیع کے منصوبے پر روک لگانا اہم ترین ہے۔
معاملے کی بساط پر چال چلنے کے حوالے سے فرانس تنگی محسوس کر رہا ہے۔ اس کے پاس تہران کی جانب پیش قدمی کے واسطے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ امریکی پابندیوں نے ایران کو بین الاقوامی مالیاتی نظام سے بالکل تنہا کر دیا ہے۔ اس کے سبب ایران تقریبا اپنے تمام تیل کے خریداروں سے ہاتھ دھو چکا ہے۔ یورپیوں کے لیے اس حالت کو بہتر بنانا ممکن نہیں۔ فرانسیسی صدر نے (جی – 20) سربراہ اجلاس کے دوران ولادی میر پوتین اور سی جن پنگ کے ساتھ ایرانی جوہری معاہدہ بچانے کے حوالے سے بات چیت کی۔ وہ ممکنہ طور پر تہران جائیں گے اور اس طرح ایرانی انقلاب کے بعد اس طرح کا دورہ کرنے والے کسی بھی عظیم یورپی ریاست کے پہلے سربراہ ہوں گے۔ ابھی تک اس دورے کی تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ پیرس میں الیزیہ پیلس کا کہنا ہے کہ “اگر فرانسیسی صدر تہران سے خالی ہاتھ لوٹے” تو اس طرح کے دورے کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔