جذباتیت یا معقولیت؟ لائحہ عمل کیا ہو؟

Hassan Rouhani

Hassan Rouhani

تحریر: راحت ملک
مارچ کے وسط میں میرا مضمون بعنوان ” برق رفتار تبدیلیاں ” ایرانی صدر کا دورہ پاکستان ” شائع ہوا تھا۔ میں نے محتاط انداز میں ایرانی صدر کی پاکستان آمد کے امکانی امور پر تبصرہ کیا تھا اور سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے عسکری اتحاد میں پاکستان کی فعال شرکت کے پس منظر میں ایرانی قیادت کے تحفظات ‘دبائو کا امکان ظاہر کیا تھا ۔ مذکورہ مضمون کی آخری سطور میں درج تھا کہ ” جناب روحانی کی اسلام آباد یاترا کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں ؟ ۔یہ الگ بات ہے تاہم در حقیقت اس دورے کے موقع پرہم (پاکستان) دو دھاری تلوار یا تنے ہوئے رسے پر چلنے جارہے ہیں ” ( انتخاب 11-15 مارچ ) مذکورہ دورے کے دوران ایرانی قیادت کی جانب سے جس ممکنہ دبائو یا ترغیب کا ذکر ہوا تھا ۔ اس کے سدباب وایرانی قیادت کی تسلی وتشفی کیلئے اسلام اباد کی حکمت عملی کا اندازہ٥٢ مارچ سے قبل ہو گیا تھا جب بھارتی خفیہ ایجنسی کے اھم کارندے کل بھوشن یادیوکی ” گرفتاری ” کی خبر منظر عام پر آئی تھی بتایاگیا تھاکہ یادیو کو بلوچستان کے جنوبی علاقے سے گرفتار کیاگیا ہے ۔ میرا فوری رد عمل تھا کہ یادیو بہت پہلے سے پاکستانی دفاعی اداروں کے ہاتھ آچکا تھا لیکن’ بندر کے تماشے’ کیلئے بہترین وقت کا انتخاب کیاگیا ہے ۔ ( بعد ازاں معلوم ہوا کہ یادیو کا خفیہ کوڈ بندر تھا ) تاہم میں یہاں بہترین وقت کے انتخاب بارے اپنے نقطہ نظر کی مزید وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

یادیو کی گرفتاری کو جنوبی بلوچستان کے حوالے سے بیان کرنے کا واضح مطلب تھا کہ ایرانی صدر کو قبل ازیں کہ وہ اسلام آباد کو دبائو میں لائیں ۔ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی اخلاقی بحران میں مبتلا کردیاجائے اور جناب روحانی کو جارحانہ پن اپنانے کی بجائے دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور کردیا جائے ۔ اس طرح ایک طرف بھارت ایران تعلق کو پاکستان میں جاری دہشت گردی کے ساتھ پیش کرکے دہلی اور تہران کے باہمی تعلقات کے بیچ دراڑ لائی جائے ۔ نیز عرب ممالک وعسکری اتحاد کے رہنمائوں کو بھی مطمئن کردینے والی مسرت عطا کی جائے ۔ چنانچہ درپیش صورتحال کے تدارک سے نبرد آزمائی کیلئے یادیو کو منظر عام پر لانے کا وہ بہترین موقع تھااور اسلام آباد نے خوبصورتی سے فائدہ اٹھایا ۔ تاہم اب سوال یہ ہے کہ جو کچھ بعد ازاں ذرائع ابلاغ اور عوامی رائے عامہ میں رونما ہورہا ہے اس کے پس منظر میں بہترین وقت کے انتخاب والا مفروضہ درست رہ گیا ہے؟

Raw

Raw

بلا شبہ ”را” اور اسکے کئی کارندے پاکستان بھر میں بڑی تعداد میں سرگرم ہیں۔ ایک ”را ” پہ ہی کیا موقوف یہاں تو دنیا بھر کی تقریباً تمام اہم خفیہ ایجنسیاں سرگرم ہیں کیونکہ یہ خطہ بالخصوص پاکستان وافغانستان 1979ء سے ان ایجنسیوں کی پراکسی وار کا میدان کار زار بنا ہوا ہے جس کا دائرہ عمل رفتہ رفتہ آس پاس کے دیگر ممالک میں بھی پھیل چکا ہے یا پھیل رہا ہے ۔ اور اسکی مختلف کیفیتیں یا نوعیت ہے ۔ بھارت اس پراکسی جنگ کا اہم کھلاڑی ہے شاطرانہ جو مہارت کے ساتھ افغانستان اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات اور باہمی مفاد وتعاون کے ذریعے ان دونوں ممالک کی سر زمین ( وسائل ) بروئے کار لاکر پاکستان میں اپنے مخصوص عزائم واہداف کیلئے سر گرم عمل ہے ۔ گویا خطے میں جاری دہشت گردی کے فروغ سرپرستی ومعاونت میں نئی دہلی کا حصہ بقدر حبثہ مسلمہ بات ہے یادیو کی گرفتاری تو محض اس کا ایک عملی ثبوت یا مظہر ہے ورنہ مداخلت کے دیگر شواہد بھی موجود رہے ہیں۔

اس تناظر میں میں سوچتا ہوں کہ جو حکمت عملی اپنائی گئی تھی وہ ایک طرف اگر وقتی بحران ” بہ الفاظ دیگر پیش پا افتاد ” کو حل کرتی تھی تو یہ جذباتیت انگیزی کو فروغ دینے کے ساتھ سفارتکاری کے ارفع رویوں کے بھی برعکس تھی کیونکہ اس اقدام کا ایک لازمی اور منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اب ایران اس اخلاقی بحران سے نکل گیا ہے جس میں قبل ازیں خوفزدگی کے ساتھ مبتلا تھا کہ کہیں ” را ” کے ساتھ اس کے تعاون کا راز افشاء نہ ہوجائے !!!( حالانکہ دہلی اور تہران خطے میں تزویراتی اتحادی ہیں ) دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اسلام آباد کی خارجہ حکمت عملی کا ہدف کیا تھا؟ کیا وہ تہران اور نئی دہلی میں فاصلہ پیدا کرنا چاہتا ہے ؟ یا اس کوشش میں ہے کہ نئی دہلی تہران سے اپنے تعلق میں سرد مہری لائے ؟ یا تہران دہلی نئی دہلی سے دوری اپنائے ؟
یہ سوال بنیادی نوعیت کے ہیں اور انہی کے تناظر میں اسلام آباد کی حکمت عملی مرتب ہونی چاہئے تھی ۔ تاہم جذباتیت کے سہارے وقتی فوائد کیلئے کئے گئے اقدام نے دونوں ممالک ایران وبھارت کو پاکستان میں پراکسی عمل میں ایک صفحے پر اکٹھا کردیا ہے جس کے منفی اثرات کو سمجھنا ناممکن نہیں۔

مذکورہ بالا مضمون میں بھی انہی خدشات کی طرف توجہ دلائی گئی تھی ۔اگر ایرانی صدر کی آمد کے بعد ان کے سامنے کل بھوشن یادیو کے ایرانی سر زمین کی وساطت سے را ”کے اعمال اور عزائم اٹھائے جاتے تو ایرانی صدر پر اس کا اثر بھی ویسا ہی ہوتا جسکی اسلام آباد خواہش رکھتا تھا نیز شائستگی اور سفارتی آداب ملحوظ رکھے جانے کی بناء پر شاید ایران ‘ندامت کے گہرے احساس کے ساتھ اپنی سرزمین میں موجود ” را ” کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کیلئے زیادہ موثر اقدامات کرتا ۔ جبکہ سردست ایرانی طرز عمل کا اندازہ دو حوالوں سے لگایا جاسکتا ہے ۔ پہلارد عمل ایرانی صدر کاتھا جس کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں ہی ایک تقریب سے خطاب میںکیا تھا کہ ” جب بھی ایران پاکستان کے قریب آنے لگتا ہے افواہیں پھیلنے لگتی ہیں ”۔

Bhushan Yadav

Bhushan Yadav

دوسرا رد عمل اسلام آباد سے ایرانی سفارتخانہ کا جاری کردہ اخباری بیان ہے جو یکم اپریل کے اخبارات میں نمایاں طور پر چھپا ہے جس میں بھلا جھجک کہا گیا ہے کہ ‘
” بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کے حوالے سے غیر مہذب اور توہین آمیز باتیں پھیلانے سے پاک ایران تعلقات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے ۔ دونوں ملکوں کے فروغ پذیر باہمی تعلقات کو کمزور کرنے کیلئے بعض عناصر سر گرم عمل ہیں ۔ میڈیا میں بھارتی جاسوس کی گرفتاری اور اس سے متعلق ایسی باتیں پھیلائی جارہی ہیں جن کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ ترجمان کے بقول گزشتہ 70 سالہ تاریخ میں پاکستان کی مغربی سرحدوں پر کبھی خطرہ محسوس نہیں کیاگیا ”

بیان کی آخری سطر سفارتی لب ولہجے میں تاریخی حوالے کا اعادہ کرتے ہوئے ” نیم دھمکی آمیز پیرائیہ اظہار کی مظہر ہے ” اور یہ نکتہ تشویشناک ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے اور اسلام آباد کی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کی بھی ترغیب دیتا ہے کہ ملکی قیادت نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار پر امن باہمی تعاون ودوستی کی بجائے کشیدگی اور مداخلت پہ مائل کرنے والیے روئے پروان چڑھائے ہیں ۔جبکہ یادیو جیسے اثاثے کو زیادہ سنجیدگی وتدبر کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہئے تھا ۔
بھارت کے ساتھ کشیدگی اور تنائو بلا سبب نہیں دونوں ملکوں کے بیچ تنائو کی تاریخ موجود ہے ۔ تصادم وتنائو کی وجوہات ختم کرنے کے دوطریقے ممکن ہیں۔
بزور قوت وجنگ آزمائی کے مراحل اور نتائج ہم دیکھ چکے ہیں دوسرا طریقہ پر امن سفارتکاری وبات چیت ہی باقی بچا ہے اس کے بھی دو پہلو ہوسکتے ہیں ایک لچکدار سفارتی گفتگو یا (دوسرا ) سخت گیر رویئے پر مبنی غیر مفاہمانہ اور مشروط طرز عمل والی سفارتکاری۔

کل بھوشن یادیو کے ذریعے ”را ” کے اقدامات جو اسکی خفیہ مداخلت اور تخریب کی عکاسی کرتے ہیں کے خلاف سخت گیر غیر سیاسی ذرائع آزمانے کی دھائی دینے والے کھلی اور جارحانہ مداخلت ( جنگ ) کی راہ ہموار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کررہے جبکہ حب الوطنی کے تقاضے تدبر اور بہترین سفارتکاری کے ذریعے عدم مداخلت پر استوار باہمی دو طرفہ تعلقات کے متمنی ہیں ۔کیونکہ بھارت سمیت ہمسایہ ممالک کو مستقل دشمن بنائے رکھنا ہماری سلامتی کے طویل المعیاد مفاد کے منافی ہے ۔چنانچہ سطور بالا میں یادیو کے منظر عام پر لائے جانے پر جن خدشات کا اظہار کیا گیا وہ معاشرے میں ابھرنے والی عمومی اور عوامی جذباتیت واشتعال انگیزی پر مبنی ہیں ۔اور اگر مصطفی کمال کے الزامات کو بھی بحث میں شامل کرلیں تو صورتحال کی گھمبیرتا نمایاں ہوجاتی ہے اور کئی سوالات ابھرتے ہیں کہ جس مقدر اور سطح پر ” راء ” کی مداخلت وتخریب کا ذکر کیا جارہا ہے اس سے خطے میں دوستی اور خوشگوار ہمسائیگی پر مبنی تعلقات تو در کنار بات چیت کے امکانات بھی معدوم ہورہے ہیں کیا ایسی اشتعال انگیز اور پر جوش رائے عامہ کی موجودگی میں حکومت امن دوستی اور علاقائی وملکی استحکام کے یقینی حصول کی خاطر نئی دہلی کے ساتھ گفت وشنید میں جراتمندانہ پیشقدمی یا پیشرفت کرسکتی ہے؟۔

Iran and Afghanistan

Iran and Afghanistan

اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم موجودہ صورتحال کو بر قرار رکھنے اور طوالت کے متحمل ہوسکتے ہیں ؟۔ جبکہ ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر بھی ” موہوم خطرات ” دکھائی دے رہے ہوں؟؟؟ علاوہ ازیں یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ ”را” سمیت غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی بڑھی ہوئی مداخلت کے تدارک ‘خاتمے اور در اندازی کے امکانات ختم کرنے میں ہماری ایجنسیاں کس حد تک کامیاب رہی ہیں ؟ یادیو کی گرفتاری بلا شبہ اس سمت عمدہ کارکردگی ہے لیکن اسے جذباتیت اور غیر دانشمندی کے ذریعے ضائع کرنے کی بجائے بھارت پر عالمی دبائو بڑھانے کیلئے موثر سفارتکاری کے ہنر کو بروئے کار لایا جانا چاہئے ۔ ایرانی سفارتخانے کے ترجمان کا یہ کہنا کہ ستر سالہ تاریخ میں مغربی سرحدوں پر خطرات محسوس نہیں ہوپائے مکمل سچائی نہیں ۔ انہیں یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ گزشتہ ایک عشرہ سے بلوچستان کے سرحدی علاقے ( ماشکیل بالخصوص ) پر ایرانی راکٹوں کے سینکڑوں حملے ہوچکے ہیں کیا ان حملوں کو برادرانہ رشتوں کے اظہار کی علامت قرار دیا جاسکتا ہے ؟ کیا مذکورہ راکٹ باری پر امن اور خطرات سے محفوظ سرحدوں کی غمازی کرتی ہیں؟

حکومت پاکستان نے ایران سے تحریری مطالبہ کیا ہے کہ چاہ بہار میں سر گرم عمل ”راء ” کے کارندے راکیش عرف رضوان کو پاکستان کے حوالے کیا جائے ۔ دیگر مطالبات تو قابل فہم ہیں تاہم اگر ہمارا یہ کہنا درست ہے کہ کل بھوشن کو چند ماہ قبل گرفتار کیاگیا تھا تو اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی بہت پہلے علم ہوچکا ہوگا کہ اس کا ایران کے ذریعے فعال نیٹ ورک پکڑا جا چکا ہے چنانچہ قابل فہم بات ہے کہ اب تک ”را” نے چاہ بہار اور ایران میں موجود اپنے کارندوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرلیا ہوگا ۔ اس پس منظر میں راکیش کی حوالگی کے مطالبے پر عملدرآمد کے کتنے امکانات باقی بچے ہونگے ؟

Pakistan

Pakistan

کیا ہم ایران کو مزید رگیدنے کی کوشش کررہے ہیں یا یہ کہ یہ اعتراف کیا جارہا ہے کہ پاکستانی ایجنسیاں راکیش تک بھی پہنچ چکی ہیں؟ پاکستان کی سالمیت استحکام اور ترقی وخوشحالی کو مقصد ومحور بنایا جانا ہمارا غیر متزلزل عزم وارادہ ہے اور یہ مقصد ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدگی بڑھانے سے حاصل نہیں ہوسکتا اس کے برعکس پر امن سفارتکاری کے ذریعے کشیدگی وتنائو کے اسباب ختم کرنے کی سعی ہونی چاہئے تاکہ مداخلت اور تخریب کاری ختم ہوسکے۔

تحریر: راحت ملک