لاہور (جیوڈیسک) پاکستانی فلم انڈسٹری کے پہلے کامیڈین سپر اسٹار منور ظریف کو مداحوں سے بچھڑے 38 برس بیت گئے لیکن ان کی اداکاری اب بھی دیکھنے والوں کے چہرے پر مسکراہت بکھیر دیتی ہے۔
25 دسمبر 1940 کو گوجرانوالہ میں ایک سرکاری ملازم چوہدری عبدالحق کے ہاں پیدا ہونے والے منور ظریف کا بھائیوں میں دوسرا نمبر تھا، قیام پاکستان کے فوری بعد جب لاہور میں فلمی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو ان کے بڑے بھائی ظریف نے فلموں میں کام شروع کیا تاہم ان کی موت کے بعد منور ظریف نے فلمی صنعت میں قدم رکھا اور اپنے کیریئر کا آغاز 1961 میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ’’ ڈنڈیاں‘‘ سے کیا، 12 برس بعد 1973 میں وہ پہلی بار اردو فلم ’’پردے میں رہنے دو‘‘ میں سامنے آئے اور اسی سال ایک اور فلم ’’رنگیلا اور منوّر ظریف‘‘ کی شاندار کامیابی نے انہیں سپر اسٹار بنا دیا مگر ان کے کریئر کی لازوال فلم ’’بنارسی ٹھگ‘‘ رہی۔
رنگیلا اور منوّر ظریف کی فلمی جوڑی کو فلم کی کامیابی تصور کیا جاتا تھا اورجب منوّر ظریف اسکرین پر جلوہ گر ہوتے تو اپنی بے ساختہ اداکاری اورجملوں سے لوگوں کو نہ صرف ہنسنے بلکہ قہقہے لگانے پر مجبورکردیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ اردو اور پنجابی فلموں کی ضرورت بن گئے، جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے 16 سالہ فلمی کیریئر میں انہوں نے 321 فلموں میں کام کیا یعنی ہر برس ان کی 21 فلمیں ریلیز ہوتی تھیں۔
منورظریف 1976 میں جگر کے عارضے میں مبتلا ہوکر دار فانی سے کوچ کرگئے، گو کہ انہیں دنیا نے گزرے 38 برس کا طویل عرصہ بیت گیا ہے لیکن آج بھی ان کی اداکاری اور جملے مداحوں کے چہروں کو تازگی بخشتے ہیں کیونکہ یہ منور ظریف ہی تھے جنہوں نے پاکستانی فلم نگری میں مزاحیہ فلموں کی ترویج کی، ننھا سے لے کر عمر شریف تک آج بھی کسی نہ کسی شکل میں دور حاضر کے اداکار ان کی نقل کرتے نظر آتے ہیں۔