تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے اسی لیے پانچ وقت وضو کرنے اور نماز کی ہدایت کی گئی ہے مگر بلدیاتی اداروں میں صفائی پر مامور بالخصوص ہندومہاشے اپنا ایک عجیب و غریب مؤقف رکھتے ہیں اول تو بیشتر ایسے ملازم بلدیاتی چئیر مینوں و چیف افسران و دیگر ملازمین کے گھروں میں صفائیاں کرنے پر مامور ہیں دیگر صفائی کرنیوالے شہروں خصوصاً دکانوں /بازاروں کی صفائی تو کرتے ہیں کہ انہیں وہاں سے دوکاندار” روزانہ معاوضہ”(رشوت ) دیتے رہتے ہیں۔
بقیہ رہائشی محلوں اور سڑکوں پر صفائی کرنا شاید انکی ذمہ داری ہی نہ ہے ویسے بھی جب سے سیاست اور بلدیاتی اداروں میں ڈھیروں ناجائز منافع کمانے والے سود خور نو دولتیے سرمایہ دار /صنعتکار گھس آئے ہیں اور بلدیاتی اداروں پر قابض ہو گئے ہیں تو بلدیات کا انتہائی برا حال ہو گیا ہے کہ جسے بیان کرنے سے زبان قاصر ہے۔ایسے مقتدر افراد پورے ماہ میں ایک آدھ دفعہ بلدیات کے دفاتر میں آتے ہیںبقیہ صرف فون پر ہی “دھاڑا ماشا” سے کام چلایا جاتا ہے کہ انہیں اپنی صنعتی ایمپائر کے لین دین اور کمائیوں سے وقت نکلے گا تو اسطرف توجہ دیں گے صفائی کرنے والے ہندو جمعداروں میں سے اکثریت “را” کی پلید ترین پاکستان دشمنانہ سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں اسلئے صفائی کی طرف توجہ دے ہی نہیں سکتے بس دن میں ایک دو گھنٹہ روایتی طور پر جھاڑو وغیرہ مارا اور چلتے بنے ہندو بنیے چونکہ مسلمانوں کی پورے بھارت پر آٹھ سو سالہ حکمرانی کا ہر صورت بدلہ لینا چاہتے ہیں اس لیے پاکستان میں موجود ایسے طبقے سے اسلام کی اقلیتوں کے ساتھ مساویانہ و فراخ دلانہ سلوک کی بنا پر انہوں نے بہت پر پرزے نکال رکھے ہیں ضلع بہاولنگر تو ملک بھر کے غلیظ ترین اضلاع میں اوّل نمبر پر ہے اس لیے یہاں بالخصوص ہارون آباد شہر کا انتہائی برا حا ل ہے۔
ہندوئوں نے شہر کے وسط سے گزرنے والی بھارتی بارڈر کی طرف جانے والی سڑک پر رہائشی تعمیرات بغیر کسی بلدیہ یا ادارہ کے این او سی کے کر رکھی ہیں ہندو بنیوں نے پورے ہمارے مشرقی بارڈر پر آجکل جنگ چھیڑ رکھی ہے اور ایک ماہ کے دوران درجنوں معصوم بچوں اور بارڈر پر رہنے والے پاکستانیوں پر گولہ باری کر کے انہیں شہید کرتے رہتے ہیں گو ہماری جری پاک افواج اس کا جواب بھرپور طریقہ پر دے رہی ہیں مگر اگر بارڈر پر اچانک عملاً جنگ چھڑ گئی تو ہارون آباد کی واحدسیدھی گزر گاہ جو کہ شرقاً غرباً بارڈر کو ملاتی ہے یہاں برلب سڑک ہندو بنیوں کے ذاتی رہائشی مکانات کی موجودگی دفاعی نقطہ نظر سے انتہائی خطر ناک ہے اگر وہ کسی بھی بہانہ سے نام نہاد احتجاج کرکے ایسی سڑک کو جس پر درجنوں گھر زبردستی تعمیر کیے بیٹھے ہیں بند کرکے بلاک کردیں تو دوسری طرف نہر ہونے کی وجہ سے یہ راستہ مکمل طور پر بند ہو کر رہ جائے گا اور افواج کی کمک بارڈر پر پہنچ ہی نہ پائے گی اس لیے ہماری اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس بابا رحمتے ،سیکورٹی اداروں ،افواج پاکستان اور ہمارے حکمران اس کا فوری نوٹس لیں اور ہارون آباد سمیت پورے ملک میں دفاعی نقطہ نظر سے انتہائی اہم سڑکوں پر ہندو بنیوں کے مکانات کو فوراً خالی کروا کر انہیں دور دراز دیہاتوں سے متصلہ ٹبوں پر مستقل رہائشیں دی جائیں تاکہ جنگی نقطہ نظر سے یہ قطعاً ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں ان کی نوجوان پودتو روایتی طورپر صفائی وغیرہ کا کام کرتی ہے مگر ہمہ وقت موٹرسائیکلوں پرگھومتے نظر آتے ہیں۔
صفائی کرنے کی تنخواہ وغیرہ سے تو مہنگے مکانوں کی تعمیر موٹر سائیکل اور ان میں قیمتی پٹرول نہیں ڈالا جاسکتابس یاد رکھو دال میں کالا ہی نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے انہی میں سے بھارتی راء کے ساتھ براہ راست تعلقات رکھنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے بلدیاتی چئیر مینوں کو انتخابات میں چونکہ ان کے ایک آدھ اقلیتی ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ان کی مشکوک ملک دشمنانہ سرگرمیوں کو وہ نظر انداز کرتے رہتے ہیں دوسری طرف بھارتیوں کے دریائوں کا پانی بند کرکے پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کر ڈالنے کے منصوبہ پر بھی عرصہ سے عملدرآمد ہو رہا ہے نیز صفائیاں کرنے والے بلدیاتی ہندو ملازم /جمعدار وغیرہ بچوں کے سکولوں اور سیر کے لیے موجود پلاٹوں کے ارد گرد کوڑا کرکٹ جمع کرتے رہتے ہیںتاکہ معصوم ننھے مسلمان بچے بچیاں سانس کی اور دیگر خطرناک بیماریوں کا شکار ہو کر ذہنی طور پر ایسی گندگیوں کی موجودگی کی وجہ سے کند ذہن بن جائیں اور عملاً کمزور و نحیف رہ کر صحت مند نہ رہیں ہارون آباد میں شہر کے وسط سے گرزنے والی نہر کنارے صرف 1800فٹ میں موجود سات انگلش میڈیم سکولوں کے اردگرد گندگی کے انبار اس خفیہ مشن کی تکمیل کرتے نظر آتے ہیں پھر یہیں زچہ بچہ کا ہسپتال اور متصلہ ہی صبح کی سیر کے لیے واحد گرائونڈاور نو تعمیر ہونے والا جمنیزیم بھی موجود ہے جس کے ارد گرد کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کی وجہ سے یہ بھی ناکام ہو چکے ہیں اور عوام کا کروڑوں روپیہ محض ضائع ہورہا ہے کہ صبح کی سیر کے لیے تو تازہ ہوا کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہاں تو پرا گندہ اور بدبودار ہوا کے بھبوکے اٹھتے رہنے سے آدمی کا گزرنا بھی محال ہے سیر لوگ کیا خاک کریں گے؟ بھارت اب ہر صورت پاکستان سے “اٹ کھڑکا “کرنے پر تلا بیٹھا ہے اس لیے ہندو رہائشیوں کو دفاعی نقطہ نظر سے اہم سڑکوں سے فوراً ہٹا یا جائے اور” بھارتی را”کی پلید پلاننگ کہ مسلمان بچوں کے تعلیمی اداروں درسگاہوں کے اردگرد کوڑاکرکٹ و بھینسوں کے فضلے کے ڈھیر لگائے جائیں اور متعلقہ صفائی کرنے والے جمعدار ہندو ادھر کا رخ بھی قطعاً نہ کریں اسے ناکام بنانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے بابا رحمتے صاحب بھی اس کا فوراً ازخود نوٹس لیںکہ یہ بھی انتہائی اہم قومی اور دفاع پاکستان کا مسئلہ ہے۔