تحریر : میر افسر امان با اختیار لوگ جس میں سیاست دان، بیروکریٹس اور اسٹبلشمنٹ شامل ہے ان کی کرپشن سے عوام کو کون چھٹکارا دلائے گا۔ سیاست دانوں کا پرانا بیانیہ ہے کہ عوام خود الیکشن میں اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔ عوام بہترین منصب ہیں۔ عوام جن کو ووٹ دیتے ہیں وہ پاک صاف ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔لیکن کیا یہ صحیح بیانیہ ہے؟ نہیں نہیں یہ غلط بیانیہ ہے۔سیاستدان عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ ان سے غلط بیانی کر کے ووٹ لیتے ہیں اور جیتنے کے بعد ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتے۔سیاست کو تجارت بنا لیا ہے۔ ایک قومی اسمبلی کی سیٹ پر کروڑ تک خرچ کرتے ہیں اور الیکش جیت کر اربوں کی کرپشن کر کے اپنے خرچ سے کئی گنا زیادہ وصول کرتے ہیں۔ الیکشن کے وقت اپنے اثاثے چھپاتے ہیں۔الیکشن کے طے شدہ اخراجات سے بڑھ کر الیکشن میں خرچ کرتے ہیں۔
جعلی ڈگریاں پیش کرتے ہیں۔کیا کیا بیان کیا جائے یعنی وہ سب کچھ کرتے ہیں جو الیکشن جیتنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔یہ توہوئی بات سیاست دانوں کی جو ہر جائز ناجائز کام کرے کے اقتدار میں آتے ہیں اور عوام کا پیسا بے دردی سے لوٹتے ہیں۔ بیروکریٹس بڑے بڑے ملکی پروجیٹ بناتے ہیں جن کے مکمل ہونے تک ملک کے اربوں روپے خرچ ہونے ہوتے ہیں لہٰذا وہ ان پروجیکٹس میں کرپشن کے راستے نکال لیتے ہیں۔ سیاست دانوں کو بھی کرپشن کے راستے اور طریقے بتاتے ہیں۔ اس طرح سیاست دانوں کے پارٹنر بن کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کے پاس ملک کے وسائل ہیں لہٰذا وہ بھی جہاں ہاتھ لگتا ہے کچھ کرپٹ آفیسر کرپشن کرتے ہیں۔کیونکہ اسٹبلشمنٹ میں احتساب کا اپنا بہترین نظام ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
اس لیے ان میں جب بھی کرپشن نظر آتی ہے اس کا ایکشن لیا جاتا ہے اور کڑی سزا دی جاتی ہے ۔جیسے حال ہی میں سپہ سالار نے کرپٹ آفیسرز کے خلاف تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ایکشن لے کو قوم کو دکھا دیا ہے۔ فوج میں احتساب کا اتناسخت نظام ہے کہ کرپشن ثابت ہو جانے کے بعد، ساری سہولتیں ،یعنی پنشن بقایاجات اور رینک تک واپس لے لیے جاتے ہیں تاکہ باقی والے عبرت پکڑیں اور ہماری بہادر فوج میں کرپشن پنپ نہ سکے۔ فوج ایک حساس ادارہ ہے اس میں مناصب سہولتوں کے ساتھ ساتھ ہر ایک کی اکائوٹبلٹی (محاسبہ)ہوتا ہے۔ یہ سیاست دانوں کا نیپ جیسا ادارہ نہیں کہ کرپشن ثابت ہونے پر صرف پچیس فی صد لے کر کرپٹ سیاست دانوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور باقی پچھتر فی صد کرپشن وائٹ ہو جاتی ہے۔ اور انہیں جب بھی موقعہ ملتا ہے وہ پھر کرپشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
Pak Army Soldier
اگر فوج کی طرح عبرت ناک سزا دی جائے تو سیاست دان بھی ڈریں اور آیندہ کرپشن نہ کریں۔سیاست اگر کوئی عبادت سمجھ کے کرے تو کبھی بھی عوام کا پیسا خرد برد نہ ہو۔ کرپشن ہمیشہ با اختیار لوگ ہی کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس عوام کے وسائل ہوتے ہیں۔ قرآن شریف کے مطالعہ سے جو بات سامنے آتی ہے وہ ہماری رہبری کے لیے کافی ہے۔ اللہ کے تمام پیغمبروں نے اپنے اپنے وقت پر عوام کے سامنے ہمیشہ سے یہ بیان دیا۔کہ میں اللہ کی طرف سے تمہاری طرف پیغمبر ہوںمیرا کام اللہ کا پیغام تمہارے تک پہنچانا ہے مجھے تم سے کوئی اجر نہیں چاہیے۔ میرا اجر میرے رب کے پاس محفوظ ہے۔ اور ہر پیغمبر یہی کہتا رہا ہے کہ میں امانت دار ہوں۔ لہٰذا خلفاء رشدین نے بھی اسی اللہ کے احکامات پر عمل کر کے حکومت کے دوران اپنے آپ کو امین ثابت کر دیکھایا تھا جو تاریخ کے اندر موجود ہے۔
بس افسوس اس بات کا ہے کہ غیروں نے تو یہ اصول اپنا لیا مگر مسلمانوں نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور بے ایمانی شروع کر دی۔ اس سے وہ راتوں رات امیر بننے کی کو شش میں اپنا ایمان بھی ضائع کر دیتے ہیں۔ انہیں اللہ کے رسولۖ کی یہ بات یاد نہیں رہتی کہ انسان دنیا میںمیری میری کہتا پھرتا ہے مگر اس کا صرف وہ ہوتا ہے جو اس نے کھا لیا،جو پہن لیا اور جو آگے اللہ کے پاس بھیج دیا۔ باقی تو سب کچھ یہیں رہ جاتا ہے۔ کیا با اختیار لوگوں تک قرآن کا حکم اور فرمان رسولۖ کا یہ پیغام نہیں پہنچا؟ یقیناً پہنچا ہے قرآن تو ہر مسلمان کے گھر میں موجود ہے اور رسولۖ کا فرمان تو اکثر علماء سناتے رہتے ہیں بس اس پر عمل کرنا باقی ہے جو با اختیار لوگ نہیں کرتے اور کرپشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ہماری حکومت میں کرپشن پکڑنے کے اداروں بنے ہوتے ہیں بلکہ ان اداروں پر بڑا ادار اینٹی کرپشن بھی موجودہے مگر پھر بھی کرپشن قابومیں نہیں آتی۔ صاحبو! سب سے پہلے تو ہر کسی کو اپنے دل میں اللہ کا خوف بیٹھاناچاہیے کہ اس کو مر کر اللہ کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے۔ اس بات کا بھی حساب دینا ہے کہ تمہیں عوام کے خزانوں پر بیٹھایا گیا ہے تم نے ان کے استعمال میں امانت بھرتی یا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا زیادہ احتساب ہو گا جو لوگ کرپشن پکڑنے پر لگائے جاتے ہیں۔ لہذا ہر فرد کو اپنا اپنا حساب دینا ہے اس لیے پہلے تو ہر فرد اس پر عمل کرے۔ملکوں میں ہمیشہ چار ستون مانے گئے ہیں۔
Parliament
پہلا ستون پارلیمنٹ جس کو لوگ اپنی آزاد رائے سے منتخب کر کے آگے بھیجتے ہیں جس کا کام قانون سازی ہوتی ہے۔ دوسرا ستون انتظامیہ ہوتا ہے جس کا کام اس قانون پر عمل درآمند کرنا ہوتا ہے تاکہ ہر شہری سقانون پر عمل کرے اور اپنے حقوق حاصل کرے اور قانون کے مطابق اپنے فرائض بھی ادا کرے۔ تیسرا ستون عدلیہ کا ہوتا ہے کہ وہ دیکھے کہ حکومت اورعوام قانون پر عمل کر رہے ہیں یا قانون شکنی ہو رہی ہے۔عدلیہ کا کام قانون کی تشریع کرنا ہوتا اور عوام کو انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔چوتھا ستون صحافت کا ہوتا ہے کہ وہ عوام کے مسائل اجا گر کرتی رہے کہ فلاںفلاں عوام کے حقوق ادا نہیں کیے جارہے لہٰذا سب ان چار ستونوں کی اصلاح ہونی چاہیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور نظام حکومت صحیح طریقے سے چلے۔جس کسی بھی ملک میں مملکت کے یہ چار ستون صحیح کام کر رہے ہوں وہاں کرپشن نہیں ہوتی ہے جیسے ہم مغربی ملکوں میں دیکھتے ہیں۔اگر کہیں کرپشن کا الزام لگ جائے تو جس پر الزام لگتا ہے وہ اپپنے عہدے سے استفٰا دے دیتا ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔
مگر ہمارے ملک میں جب وزیر اعظم صاحب کے بیٹوں پر آف شور کمپنیوں اور پراپرٹیوں کے الزام لگے اور اپوزیشن نے وزیر اعظم صاحب سے اخلاقی طور پر استفٰا مانگا تو انہوں نے دو مرتبہ قوم سے خطاب کیا اور اپنے اور اپنے خادان کے ساتھ دکھ بھری کہانی سنا دی۔ اور کہنے لگے میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں میں عوام کا نمائندہ ہوں عوام استفٰا مانگنے والوں کو اُٹھا کر پھینک دیں گے اور شہروں شہرجلسے کرنے پر نکل کھڑے ہیں۔ پہلے ریٹائرڈ جج اور بعد میں خود ٹی آر او بنا کر سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا کہ سب کا احتساب کریں بقول شخصے اپوزیشن کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا۔ یہ وہ ہی فارمولہ ہی جو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم والے کہتے ہیں۔
جی ہم نے توجرم کیا ہے مگر ہمیں سزا دینے سے پہلے دوسرے جرم کرنے والوں کو بھی پکڑو اور سزا دو۔ وزیر اعظم صاحب اگریہی کام اپوزیشن کو اعتماد میں لیکر کرتے تو ملک کے حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔اب اپوزیشن نے اپنے ٹی او آر بنائے ہیں ضرورت اس امر کی کی حکومت اور اپوزیشن ملک کر کوئی راستہ نکال لیں تاکہ ملکی حالات صحیح سمت چلنا شروع ہو جائیں۔ چیف جسٹس صاحب کو اس نازک موڑ پر قوم کو انصاف مہیا کرنا چاہیے کرپٹ با اختیار لوگوں کو قانون کے کہٹرے میں لا کر لوٹی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں جمع کروانے کے احکامات صادر کرنے چاہیے اگر ایسا نہ ہوا تو پھربااختیار لوگوں کی کرپشن سے کون چھٹکارا دلائے گا؟۔