تحریر : سرور صدیقی دل سے ایک ہوک اٹھتی ہے ایک آرزو مچلتی ہے، دل ہی دل میں ایک دعا ہونٹوں تک آجاتی ہے ۔۔۔ایک حسرت ہے ۔۔۔ایک خواہش ۔۔۔ یہ چلن اب بدلنا چاہیے۔۔۔غریبوںکی قسمت بھی بدلنی چاہیے یہ نظام۔۔۔یہ سسٹم ۔۔یہ ماحول تبدیل ہونا چاہیے۔جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچنے چاہییں معلوم نہیں عوام کی اکثریت اس اندازسے سوچتی بھی ہے یا نہیں جو ہر انتخابات میں ازمائے ہوئے لوگوںکو پھر ووٹ دے دیتے ہیں اس کا نتیجہ وہی نکلنا یقینی ہے جو ہمارے سامنے ہے جس ملک میں سیاسی جماعتیں مسلک بن جائیں وہاں اس سے بھی زیادہ خوفناک صورت ِ حال پیداہو سکتی ہے عوام کا شکوہ،غصہ،ناراضگیاں،شکوے اور شکائتیں کیسی؟یہ اٹل حقیقت ہے انسان جو بوتاہے وہی فصل کاٹنا پڑتی ہے اگر جاہل،مطلب پرست،طوطا چشم اور کرپٹ لیڈر ہی ہمارا انتخاب ہے تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا قدرت ہم پر کیونکررحم کھائے ؟ خوشگوار مستقبل،ترقی و خوشحالی ،امن سکون ۔۔۔شاید جاگتی آنکھیں یہ سپنا دیکھتی ہیں ۔۔زور، زورسے روز، روز آنکھیں ملنے کے باوجود تعبیرنہیں ملتی تو اس میں کسی کا کیا قصور؟ ان حالات۔۔۔ اجتماعی بربادی،مایوسی ،نا امیدی کے ذمہ دار تو ہم خود ہیں ہم اپنے متعلق سوچتے ہی نہیں، رونا ۔۔رونامقدرجان لیاہے رات دن کا بحث ومباحثہ اپنا معمول ہے،دنیا جہاں ہر معاملہ میں دخل اندازی کا ہم نے ٹھیکہ لے رکھاہے، اپنے ملک کے حالات تو بہتر بنا نہیں سکتے دوسروںکو مشورہ دیتے نہیںتھکتے ،یہ طرز ِ عمل،یہ انداز ِ فکر،یہ سٹائل لائف دنیا میں فقط پاکستانی قوم کا ہی خاصا ہے۔ ۔۔۔ ایک سوئس بینک ڈائریکٹر کا کہناہے کہ اس وقت پاکستان کی اشرافیہ کے98 ارب ڈالر سوئس بینکوںمیں پڑے ہوئے ہیں یہ رقم پاکستان میں انوسٹ کردی جائے تو30سال کیلئے پاکستان ٹیکس فری بجٹ پیش کر سکتاہے6کروڑ پاکستانیوںکیلئے روزگار+ملازمتیں دی جا سکتی ہیں۔
500سے زیادہ پاور پراجیکٹ کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بجلی فری دی جا سکتی ہے، کراچی ، پشاور سمیت ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک چاررویہ سڑکوں پر مشتمل نئی ہائی وے بنائی جا سکتی ہے یا ہر پاکستانی کو چار سال تک20000روپے ماہانہ وظیفہ دیا جا سکتاہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی مل سکتی ہے۔۔جو خیالات کااظہار سوئس بینک ڈائریکٹر نے کیا ہے یہ تو ایک خواب ہے جو پوری پاکستانی قوم دیکھ دیکھ کر تھک گئی ہے لیکن اس کی تعبیر آج تلک نہیں دیکھی ۔۔۔۔ملک کے بیشتر سیاستدان نسل درنسل اقتدارکے مزے لوٹ رہے ہیں سیاست بھی ان کے گھر کی لونڈی ہے موجودہ جمہوریت ان کی سب سے بڑی محافظ۔۔ عام آدمی کو دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ان کے بچے پڑھ لکھ بھی جائیں تو نوکری کیلئے خجل خوار ہونا مقدر بن جاتاہے زیادہ تر معاشی غلامی میں ہیں جہاں لوگ اپنی مرضی سے ووٹ دینے پر قادر نہ ہوں تبدیلی کیسے آئے گی ؟ تبدیلی تو اندر سے آتی ہے ۔۔۔ وہ لو گ تبدیلی کے خلاف ہیں جن کو اندر کے خوف نے بے چین کررکھاہے تبدیلی نے تو ان کے خلاف آناہے یہی عناصرشدید مزاحمت کریں گے۔۔جو تمام کے تمام متحدہو تے جارہے ہیں۔
دوسروںکیلئے سوچنا شیوۂ پیغمبری ہے درحقیقت یہی ہیرو کہلوانے کے حقدارہوتاریخ بتاتی ہے کسی نظریہ کیلئے قربانیاں دینے والے دنیامیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ناموافق حالات، طاقت کا بے رحم استعمال اورریاستی جبر بھی ان کے ارادے متزلزل نہیں کرسکتا اور مشکلات بھی راستہ نہیں روک سکتیں ۔ غور سے دیکھا جائے تو پاکستان میں صرف دو ہی طبقے ہیں ایک بااختیار ۔۔۔ دوسرا بے اختیار لوگوںکا۔۔۔۔پاکستانی جمہوریت کی اندر کی کہانی یہ ہے کہ جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے سیاست اور جمہوریت کو یرغمال بنا رکھاہے ان کے مزارع اور طفیلی جن کیلئے اپنی مرضی سے ووٹ دینا بھی گناہ سمجھا جاتاہے۔۔۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے تمام حکمران سب کے سب اور موجودہ سیاستدانوں میں بیشتر فوجی اسٹیلشمنٹ کی پیداوارہیں ان کے دل میں جمہوریت کا درد بھی ہے۔۔وہ سدا اقتدارمیں بھی رہنا چاہتے ہیں۔۔وہ یہ بھی چاہتے ہیں ان کے منہ سے نکلے ہر لفظ کو قانون سمجھا جائے۔
Political Parties
ان کی ہاں میں ہاں ملانے والوں کا جھڑمٹ ہو لیکن اختلاف کرنا والا ایک بھی نہ ہو۔۔ان کی دلی خواہش ہے وہ اپنی سیاسی پارٹی کو موروثی لمیٹڈ کمپنی کی طرزپر چلائیں صدر ،وزیر ِ اعظم نسل در نسل ان کے خاندان سے آتے اور جاتے رہیں۔ اور تاقیامت حکمرانی ان کے گھرکی لونڈی بن کررہ جائے ۔۔ ان خواہشات کے مقابل یہ اس سے بھی عجیب تر نہیں پھر دن رات جمہوریت کی شان میں قصیدے پڑھتے رہیں۔۔کسی کواپنی بات سے اختلاف کرنے کا حق بھی نہ دیا جائے۔۔۔۔۔ قائد ِ اعظم نے جب پاکستان بنایا تو انہیں بھرپور عوامی تائیدحاصل تھی کانگریسی و احراری مولویوںکی لاکھ مخالفتوں کے باوجود پاکستان ایک حقیقت بن کر دنیا کے نقشے پرابھر ایہملک اور قوم کی کتنی بدقسمتی ہے کہ جو لوگ قیام ِ پاکستان کے شدید مخالف تھے وہی ملک میں تجارت، صحافت ایجوکیشن اور معیشت پر قابض ہوگئے اور ان کے نظریات دوقومی نظریہ پر حاوی ہوتے چلے گئے۔
اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے حکمران انہی عناصر کے ساتھ سازبازکرلیتے ہیں جنہوں نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ حکمران بتدریج عوامی حمایت اور تائیدسے محروم ہوتے چلے گئے اورعسکری وسول اسٹیبلشمنٹ اور شخصیات مضبوط سے مضبوط۔ادارے کمزور۔۔یہاں عوام کے ساتھ ایک اور” واردات ” بھی کی گئی اشرافیہ پر مشتمل سیاستدانوں،بیوروکریسی، ججز،فوجی افسران،سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے آپس میںرشتہ داریاں کرلیں۔۔ کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو،حکمران کوئی بھی ہو اشرافیہ کو ۔۔کوئی فرق نہیں پڑتا ان کا کوئی نہ کوئی عزیز، رشتہ دار یادوست مسلسل حکومت میں رہتاہے۔۔دعوے اور وعدے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ بات کہ اس وقت ملک میں اشرافیہ کا پاور سٹریکچر اتنا سٹرونگ ہے کہ اس نے آکٹوپس کی طرح ہرچیزکو جکڑرکھاہے انہیں ڈرہے کہ کسی قسم کی کوئی تبدیلی آئی تو ان کی سیاست، اقتدار اور مراعات کو خطرات لاحق ہو جائیں گے یہی بنیادی وجہ ہے کہ حکمران سیاست اور جمہوریت کے ساتھ ایک بار میری حکومت دوسری بار تیری حکومت کا کھیل کھیل رہے ہیں حکمران اب بھی عوام کو ریلیف دینے کیلئے حقیقی اقدامات کریںتو ان کی ساکھ بہترہونے کی امیدکی جا سکتی ہے اپوزیشن کو اس بات کاادراک ہونا چاہیے کہ موجود استحصالی نظام کے خلاف مربوط حکمت ِ عملی اورٹھوس منصوبہ بندی کے بغیربنیادی تبدیلی لائی ہی نہیں جا سکتی اس کیلئے اشرافیہ کا نیٹ ورک توڑنا ہوگا۔