تحریر: پروفیسر رفعت مظہر آج بلدیاتی انتخابات کا تیسرا اور آخری معرکہ جاری ہے۔ اِس کالم کی اشاعت تک فیصلہ ہو چکا ہوگا کہ کراچی کا حکمران کون ہو گا اور راولپنڈی میں جیت کِس کی۔یہ فیصلہ ہوناا بھی باقی ہے کہ اِس آخری معرکے کے بعد تحریکِ انصاف دھاندلی کا الزام لگانے کے لیے کونسا نیا طریقہ اختیار کرتی ہے۔ سچ یہی کہ سونامیوں کے پاس دھاندلیوں کا الزام لگانے کی ایسی” انسائیکلو پیڈیا” ہے جس میں سے وہ الزام تراشیوں کے نِت نئے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ اسلام آباد میں تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات میں کونسلرز کی واضح اکثریت تحریکِ انصاف کے پاس لیکن چیئرمین اور وائس چیئرمین نوازلیگ کے زیادہ۔
اسی لیے ہمارے کپتان صاحب نے کہا”مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اسلام آبادمیں کونسلر ہمارے زیادہ جیتے لیکن چیئرمین پھربھی نون لیگ کے زیادہ جیت گئے ۔ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ کونسلر کا ووٹ تواپنی جماعت کودیں اور چیئرمین کاووٹ نون لیگ کادے دیں ۔یہ لوگ ہربار دھاندلی کا ایک نیاطریقہ ڈھونڈ لیتے ہیں”۔ہمارے ارسطوانہ ذہن میںیہ کیڑے کلبلارہے ہیںکہ ہوسکتاہے کہ جس طرح تحریکِ انصاف نے الزام تراشیوںمیں ”پی ایچ ڈی” کررکھی ہے اسی طرح نوازلیگ نے دھاندلیوں کے نِت نئے طریقوں میں ”ماسٹرز”کر رکھا ہو۔ بیچارے کپتان صاحب دھاندلی کے ایک طریقے کا حل تلاش کرتے ہیں تو نوازلیگ ”پٹاک” سے دوسراطریقہ سامنے لے آتی ہے ۔ہمارے سونامیے تواِن دھاندلیوں کا علاج سوچتے سوچتے تھک بلکہ ”ہَپھ” چکے ہیں۔ اُدھ رالیکشن کمیشن تحریکِ انصاف کا ساتھ دیتا ہے نہ سپریم کورٹ ۔ 126 روزہ دھرنے کے بعد بڑی مشکل سے تحقیقاتی کمیشن بنالیکن اُس نے بھی نوازلیگ کے حق میں ہی ڈنڈی ماردی۔
Sheikh Rashid Ahmad
اب ہم تو خاں صاحب کو یہی مشورہ دیں گے کہ وہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے ایک” ریسرچ کونسل” قائم کریں جس کی سربراہی چودھری سرور کے پاس ہو اور معاونِ خصوصی شیخ رشید۔ یہ کونسل نوازلیگ کے ”طریقہ ہائے دھاندلی” پر ریسرچ کرکے اِس کا مناسب حل تلاش کرے تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے ۔ویسے شاید 2018ء کے انتخابات کی نوبت ہی نہ آئے کیونکہ ہمارے لال حویلی شیخ رشیداحمد نے 50 ویں پیشین گوئی کرتے ہوئے کل ہی فرمایا کہ 2018ء تک نوازلیگ کی حکومت کے قائم رہنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا ،اِس سے پہلے ہی ”دھڑن تختہ” ہوجائے گا۔جب اینکرنے پوچھاکہ پہلی پیشین گوئیوں کا کیا ہوا تو شیخ صاحب کا جواب تھاکہ یہ آخری پیشین گوئی ہے جو سچ ثابت ”ہووے ای ہووے” کیونکہ نوازلیگ اپنی ”جائے” سے باہر نکل چکی جس کا ثبوت یہ کہ اُن کے اپنے وارڈ میں صرف چار گھرانوں کے اندر الیکشن کمیشن نے نوازلیگ کی ملّی بھگت سے 380 نئے( بوگس) ووٹوں کا اندراج کر دیا ہے۔
ثبوت شیخ صاحب کے پاس بھی چودھری سرور کی طرح کوئی نہیںتھا لیکن ”لمبی لمبی چھوڑنے میںہرج ہی کیاہے”۔ چودھری سرور نے قومی اسمبلی کے حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب کے بعدفرمایا تھاکہ اگروہ دھاندلی ثابت نہ کرسکے توہمیشہ کے لیے سیاست سے کنارہ کَش ہوجائیں گے اورہم نے یقین بھی کرلیا کیونکہ ہماراخیال تھاکہ چالیس سال تک ”انگلیسی سیاست” میںفعال رہنے والے چودھری صاحب کم ازکم اپنے عہدکی پاسداری توضرور کریںگے ۔ لیکن ثابت ہواکہ مغرب نے اُن کا”کَکھ” نہیں بگاڑا۔ وہ آج بھی پوری شدّومَد سے دھاندلی دھاندلی پکاررہے ہیںلیکن عوام سے کیے گئے وعدے کاذرابھی پاس نہیںشائد زرداری صاحب کی طرح اُن کے خیال میںبھی ”وعدے قُرآن وحدیث نہیں ہوتے”۔
Imran Khan
یوں تو ہمارے کپتان صاحب کو حیرت ہے کہ اسلام آباد میں ان کے کونسلر اور نوازلیگ کے چیئرمین زیادہ کیسے ہوگئے لیکن حیرت ہمیں بھی ہے کہ کراچی کے مختلف وارڈز میں کہیں تحریکِ انصاف اور جمعیت علمائے اسلام اور کہیں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کا الحاق کیسے ہوگیا ۔کراچی میںج ابجا مولانافضل الرحمٰن اور کپتان صاحب کی کندھے سے کندھا ملائے تصاویر آویزاں ہیں اور یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے کراچی کی حدتک تحریکِ انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کاعالم یہ کہ”میںتے ماہی اِنج مِل گئے جِنویں ٹِچ بٹناں دی جوڑی”۔ ہماری سمجھ میںتو ”کَکھ” نہیںآیا کہ یہ دھاندلی کی کونسی قسم ہے۔ حقیقت یہ کہ بلدیاتی انتخابات عام انتخابات سے یکسرمختلف ہوتے ہیں۔
عام انتخابات میں تو عموماََ لوگ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کو ہی ووٹ دیتے ہیںلیکن بلدیاتی انتخابات میںزیادہ ترووٹ شخصیات کودیئے جاتے ہیںاور برادری ازم بھی بھرپور اثرانداز ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دونوں مرحلوں میں آزاد جیتنے والوں کی بھرپور نمائندگی نظر آتی ہے اور تحریکِ انصاف اُن کے قریب بھی نہیں پھٹکی ۔ویسے کپتان صاحب کو یہ توپتہ ہی ہو گا کہ اسلام آباد میں جھونپڑیوں کے باسیوں نے انہیں یکسر مسترد کر دیا اور کسی ایک جگہ سے بھی کامیابی نے اُن کے قدم نہیں چومے ۔سوال یہ ہے کہ کیا”نیا پاکستان” اور ” تبدیلی ” پوشش ایریاز اور ”برگر فیملی” کے لیے ہے ،راندہ درگاہوں کے لیے نہیں؟۔۔۔ ۔ کراچی میں تو خاں صاحب نے ”نظریۂ ضرورت” کے تحت جماعت اسلامی سے الحاق کر لیا لیکن یہاں بھی کئی جگہوں پر تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی کے امیدوار آمنے سامنے ہیں۔
یہ سب کچھ ایم کیوایم کو”نکرے” لگانے کے لیے کیا گیا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی پھربھی ایم کیوایم کی جھولی میںہی گِرے گاکیونکہ کسی بھی ووٹرکو ووٹ سے زیادہ اپنی جان پیاری ہوتی ہے اور عالمِ خوف میں نکلے ہوئے ووٹرز تاحال خوف کی فضاء سے باہر نہیں نکلے ۔یہ بجاکہ رینجرز اور پولیس بہت سی قربانیاں دینے کے بعد کراچی کو اس مقام پرلے آئے کہ لوگوںنے گھروںسے باہرنکلنا شروع کردیا لیکن اگر کوئی سمجھتاہے کہ ایم کیوایم کاخوف دلوں سے بھی نکل گیاتو یہ اُس کی بھول ہے ۔ کراچی اس وقت تک ایم کیوایم کے قبضۂ استبدادسے نہیں نکل سکتاجب تک ایم کیوایم باہر بیٹھے ”بھائی” کے قبضۂ قدرت میں ہے۔