انجام

بجلی کی کڑک کب تیرے جانے سے رکی تھی
طوفانِ بلا کب تیرے آنے سے تھما ہے

ہر وقت کی سختی اِنہیں باغی نہ بنا دے
گستاخ جواں سامنے تیرے جو تنا ہے

نرمی سے بزرگی کی عقیدت کا سبق دے
سمجھا اِسے بربادی ہی انجامِ انا ہے

پھلدار درختوں کی روش کیا نہیں دیکھی
اکڑے ہوں شجر تو کبھی سایہ نہ گھنا ہے

ممّتاز میرے سامنے جو ٹوٹ کے بکھرا
آئینے کے ٹکڑوں پہ میرا عکس جما ہے

Anjam

Anjam

تحریر :ممتاز ملک