اس وقت پوری دنیا کورونا کا شکار ہے۔ایک سال سے زائد بیت گیا کورونا نے پوری دنیا کے نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔حالیہ ایام میں بھی کورونا سے متاثرہ ممالک میں بھارت سر فہرست ہے۔کورونا کی اس تیسری لہر نے بھارت میں بہت نقصان پہنچایا۔بھارتی حکومت نے بڑے بڑے دعوے کیے۔لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ بھارت کشمیری حریت رہنماؤں کو طبی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہا۔اس نتیجے میں حریت رہنماء سید علی گیلانی کے قریبی ساتھی اشرف خان صحرائی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔جموں کشمیر کی کوٹ بھلوال جیل میں ایک سال سے قید تھے۔
گزشتہ ہفتے کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے تھے جس کے بعد اُنھیں جموں کے میڈیکل کالج ہسپتال پہنچایا گیا جہاں منگل کی دوپہر کو وہ جانبر نہ ہوسکے۔۔محمداشرف صحرائی،سید علی شاہ گیلانی کے بعد تحریک حریت کے سب سے قد آور لیڈر رہے۔انکی زندگی زیادہ تر جیلوں کی نذر ہوگئی۔وہ 1944میں ٹکی پوری لولاب کپوارہ میں شمس الدین خان کے ہاں پیدا ہوئے۔انکے دو بڑے بھائی محمد یوسف خان اور قمر الدین خان بھی تھے جو دونوں بالترتیب 2016اور 2009میں فوت ہوگئے ہیں۔
انہوں نے نے ابتدائی تعلیم ٹکی پورہ اپنے آبائی گاؤں میں ہی حاصل کی اور1959میں سوگام لولاب سے دسویں کا امتحان پاس کیا۔ انہیں اچھے نمبرات لینے کے عوض سکالر شپ بھی ملی تھی۔اسکے بعد انہوں نے آرٹس (اردو میں آنرس) مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے مکمل کیا۔زمانہ طالب علمی سے ہی اشرف صحرائی نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔انہیں شاعری سے بے حد لگاؤ تھا اور انہوں نے بہت ساری نظمیں اور غزلیں لکھیں جو جماعت اسلامی کے روزنامہ’اذان‘ اور ’طلوع‘ میگزین میں شائع ہوتے رہتے تھے۔طلوع میگزین انہوں نے 1969میں سوپور سے نکالنا شروع کیا تھا۔انکے 6بچے ہیں۔ سب سے چھوٹے بیٹے جنید صحرائی نے 2018میں معاشیات کی تعلیم کو خیر آباد کہہ کر والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک آزادی کے رستے کا انتخاب کیا تھا، جو 19مئی 2020کوبھارتی غاصب فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے ایک جھڑپ کے دوران شہید ہوگئے۔
اشرف صحرائی 1959 سے سید علی شاہ گیلانی کے ساتھی بن گئے تھے۔وہ 1960میں جماعت اسلامی کے ’رکن‘ بنے۔ انہیں پہلی بار حکومت مخالف سرگرمیوں کی پاداش میں 22سال کی عمر میں 1965میں وزیر اعلیٰ جی ایم صادق سرکار کی جانب سے گرفتار کیا گیا، جب موئے مقدس مجلس عمل اراکین کو گرفتار کیا گیا تھا۔وہ سرینگر سینٹرل جیل میں 6ماہ تک قید کئے گئے تھے۔اسکے بعد انہوں نے ’طلوع میگزین‘ کی طرف ہی زیادہ دھیان دیااور جماعت اسلامی ورکروں نے انکے خلاف شکایات کیں اور نتیجے کے طور پر انہیں طلوع میگزین 1971میں بند کرنا پڑا۔
جب 2004میں تحریک حریت کی بنیاد ڈالی گئی تو جماعت اسلامی نے سید علی شاہ گیلانی کو جماعت سے برطرف کیا اور مرحوم بھی جماعت سے الگ ہوئے۔ انہیں تحریک حریت کا جنرل سیکریٹری بنایا گیا۔انہیں 19مارچ2018میں تحریک حریت مجلس شوریٰ کا کارگذار چیئر مین منتخب کیا گیا اسکے بعد انہیں تین سال تک چیئرمین منتخب کیا گیا جب گیلانی صاحب نے تحریک حریت سے کنارہ کشی اختیار کی۔انہیں 19اگست 2019کو مرکزی فیصلے کے دوران گیلانی سمیت خانہ نظر بند کیا گیا۔لیکن 12جولائی2020کو انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا، تب سے وہ زیر حراست تھے۔انہوں نے اپنے بیٹے کی شہادت پر کسی قسم کے پروٹوکول لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھاکہ دوسروں کے بھی بچے ہمارے بچے ہیں ان کی دفعہ ہم نے کچھ نہیں لیا تو اپنے بیٹے کی دفعہ کیوں لوں اور بیٹے شہادت پر صبر واستقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے علامہ شبلی نعمانی کے یہ شعر کہے ”
عجم کی مدح کی، عباسیوں کی داستاں لکھی مجھے چندے مقیم آستان غیر ہونا تھا مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتمﷺ خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا“۔
اشرف صحرائی مرحوم کی وفات پر کشمیر رہنماؤں سمیت پاکستان دفتر خارجہ،شیریں مزاری،مشعال ملک،سراج الحق،راجہ فاروق حیدر دیگر نے اظہار افسوس کیا اور جماعت اسلامی کی طرف سے مختلف شہروں میں مرحوم کی نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔2019 میں جب کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کیا گیا اس کے بعد کشمیری حریت قیادت کو حراست میں لے لیا گیا۔اس دوران کشمیری حریت رہنماؤں کو طبی سہولیات سے محروم رکھا گیا۔اس طویل ترین لاک ڈاؤن کے بعد پوری دنیا جب کورونا کی لپیٹ میں آئی تو کشمیری قیادت کے اہلخانہ نے بھارتی حکام سے رہنماؤں کو رہا کرنے کی درخواست بھی کی۔اس کے علاوہ پاکستان کی طرف سے اور سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے بھرپورآواز بلند کی گئی۔
بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ کشمیری ھریت رہنماؤں کی بہتر دیکھ بھال کی جارہی ہے اور ان کے مدافعتی نظام کو بہتر رکھنے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔لیکن اشرف صحرائی مرحوم کی وفات نے بھارتی حکام کا پول کھول دیا ہے۔اگر اشرف صحرائی مرحوم کی وفات کو طبی قتل کہا جائے تو غلط نا ہوگا۔اشرف صحرائی مرحوم کی وفات نے دیگر حریت قیادت کے بارے میں بھی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔چئیرپرسن دختران ملت سیدہ آسیہ اندرابی پہلے سے دمہ کی مریضہ ہیں لیکن انہیں بھی طبی سہولیات سے محروم کررکھا ہے۔پاکستان عالمی سطح پر آواز اٹھایے نہیں تو حریت رہنماؤں کے طبی حوالے سے کوتاہی میں پاکستان کی برابر کا شریک ہوگا۔کشمیر کو پاکستان کے نقشے میں شامل کرنے سے ان کے حقوق ادا نہیں ہوں گے بلکہ ان کے لیے آواز بلند کرنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔