تحریر : محمد عتیق الرحمٰن قوموں کی زندگی میں ایسے نازک موڑ آتے ہیں جو قوموں کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیتے ہیں ایسا ہی ایک موڑ 28 مئی 1998ء کو پاکستانی قوم کی تاریخ میں آیا جس نے پاکستانی قوم کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی۔یہ وہ دن تھا جس نے دنیا کو ایک مرتبہ پھر سے پاکستانی جنون سے روشناس کروای۔پاکستان کو اپنی باجگزار ریاست بنا کر رکھنے کی خواہش ہمارے دشمن کے دل میں ہی رہ گئی۔
پاکستان کے ایٹمی دھماکے ایک مرتبہ پھر سے نظریہ پاکستان کی صداقت کا باعث بنے۔یہ ایٹمی دھماکے بھارتی دھماکوں کے جواب میں ایک دندان شکن جواب تھے۔یہ دھماکے پاکستان نے اس وقت کئے جب بھارتی رہنما اٹل بہاری واجپائی نے اپنی انتخابی مہم میں اکھنڈ بھارت بنانے کے لئے ہرحربہ استعمال کرنے اور اپنے ’’شریرپڑوسی‘‘پرایٹم بم گرانے تک کااظہار کیا۔یہ ایک انتخابی مہم کا بیان ہی رہتا تو ٹھیک تھا لیکن برسراقتدار آتے ہی جارحانہ عزائم ، 11مئی 1998ء کو تین اور 13مئی 1998ء کو مزید دو دھماکے کرکے پاکستان کے خلاف اپنے دہشت گردانہ عزائم کا اظہار کیا ۔اس کے بعد بھارت کا رویہ اور اس کے کام کھلے عام پاکستان کے خلاف جنگ کی طرف بڑھنے کی طرح کے تھے ایک طرح سے وہ لوگ تیار تھے کہ ہم پاکستان پر حملہ کرکے اس کواکھنڈبھارت میں شامل کرلیں گے۔
ان واقعات نے پاکستان کومجبور کردیا کہ وہ بھارت کو دندان شکن جواب دے تاکہ اس کادماغ صحیح ہوسکے ۔یہ جواب اتنا آسان نہیں تھا جتنا آج ہم سمجھتے ہیں پوری دنیا اُس وقت پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے سے روک رہی تھی اور ساتھ میں دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔اس وقت نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ کے مطابق ’’الکفرملتہ واحد‘‘کی عملی تصویر دیکھنے کو ملی بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر کوئی سخت ردعمل توکجا کوئی ردعمل ہی نہیں اور پاکستان کے جوابی حملے پر پورا عالم کفر پاکستان پردباؤ اوردھمکیاں دیتا ہے اور جب پاکستان ایٹمی دھماکے کرتا ہے تو اس کے ایٹمی بم کو اسلامی بم کا نام دیا جاتا ہے ۔مگر اس وقت کے سیاست دانوں چاہے وہ کسی بھی جماعت سے ہوں ،ڈاکٹرعبدالقدیر خان اور دیگرسائنس دانوں کی دن رات کی محنت ،ہمارے میڈیا کے بزرگ صحافی جناب مجید نظامی صاحب ودیگر اور پوری پاکستانی قوم نے ایک عظیم ملی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر سے نظریہ پاکستان کی بنیاد پر ہندو بنیئے کو دندان شکن جواب دیا اور پاکستانی قوم نے ’’واعدوالھم مااستطعتم من قوۃ‘‘کی عملی تصویر پیش کی ان دھماکوں کے بعد پورے عالم اسلام میں ایک خوشی کی لہر دوڑگئی ۔فلسطین کے مسلمانوں نے خوشیاں منائی اور اسلام وپاکستان دشمنوں کو تو جیسے سانپ ہی سونگھ گیا۔اس کے جواب میں پاکستان پر سخت ترین اقتصادی پابندیاں لگادی گئیں ۔ آزمائش کی اس گھڑی میں سعودی عرب ودیگر دوست ممالک نے پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھاملاکر ساتھ دیا۔ ہم یوم تکبیر کے اس موقع پر اپنے بھائیوں اور دوست ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہماراساتھ دیا۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان سمیت دیگر سائنسدانوں اور ان کی ٹیم کا بھی تہہ دل سے شکریہ اداکرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر ہمیں دنیاکا پہلااسلامی ایٹمی ملک بنایا۔
Pakistan Nuclear Missle-launch
پاکستانی صحافت میں ایک بزرگ رہنما کی حیثیت رکھنے والے مجید نظامی کا ایٹمی دھماکے میں کارنامہ سونے کے لفظوں سے لکھنے کے قابل ہے جو انہوں نے اس وقت کے اور موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف کوکہے تھے ’’کہ میاں صاحب دھماکے کردیں نہیں تو قوم آپ کا دھماکہ کردے گی‘‘یہ الفاظ ہیں تو سیدھے سادے لیکن ان الفاظ کے پیچھے چھپے جذبے اور پاکستان سے محبت کواگر آج کے صحافی اور ہمارا میڈیا سمجھ لے تو کچھ بعید نہیں کہ ہم پوری دنیا کے میڈیا کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرسکیں۔
یہ دھماکے ہم نے کیوں کئے؟اس کے لئے کوئی لمبی چوڑی تاریخ سے واقفیت کی ضرورت نہیں بلکہ آپ کسی ایسے بزرگ کے پاس بیٹھ جائیں جس کی آنکھوں کے سامنے پاکستان معرض وجودمیں آیاہوتو آپ کو سمجھ میں آجائے گا کہ انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کی گھاس کھانے کی باتیں اور ایٹمی دھماکوں کو لے کر پوری دنیاسے جنگ کی سی کیفیت کیوں پیش آئی۔ویسے بھی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو حکم دیا ہے کہ وہ جہاں تک ہوسکے دشمن کے خلاف اپنی تیاری رکھے ۔
ایٹمی دھماکوں کے بعد ہمارا ملک صرف ایک ملک نہیں رہا بلکہ ایٹمی ممالک کی صف میں کھڑا ہوگیا اور عالم اسلام میں پہلا اسلامی ملک تھا جس کے پاس ایٹمی طاقت تھی۔اس کے بعد پاکستان کی ہرمعاملے میں خواہ وہ معاملہ کسی بھی نوعیت کا ہو شرکت لازمی سمجھی جانے لگی ۔اس کی حمایت اورمخالفت کو پوری دنیا دیکھتی بلکہ ہرملک کی چاہے وہ امریکہ ہو ،روس ہو،برطانیہ ہو یا ہمارا دوست ہمسایہ ملک چین کوشش ہوتی کہ اس کی حمایت حاصل کی جائے ۔اس وقت ہمیں پوری دنیا میں جو اہمیت دی جاتی ہے وہ ہمارے کسی سیاست دان ، گلوکاریاامن کی آشا کے دیپ جلانے والے فنکاروں کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے ایٹمی پاور ہونے کی وجہ سے اور ہمارے دفاعی اداروں کی مضبوط پالیسیوں کی وجہ سے ہے جو ہمارے ان اداروں نے نظریہ پاکستان کو سامنے رکھتے ہوئے بنائی ہیں ۔65ء کی جنگ ہو،71ء کی پاکستان کے خلاف سازشیں ،98ء میں ایٹمی دھماکوں کے کامیاب تجربے یا پھر حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں پاکستان کے دفاعی اداروں کی کاروائیاں، یہ سب اسی نظریہ پاکستان کے گرد گھومتی ہیں ۔پاکستان کی بنیادوں میں کلمہ طیبہ ہے اس کی جڑوں میں لاکھوں شہیدوں کا لہوشامل ہے اور کسی بھی شہید کا لہورائیگاں نہیں جاتا چاہے وہ قیام پاکستان کا شہید ہو یا حالیہ دہشت گردانہ کاروائیوں کا شہید۔
ہم نے ایٹمی طاقت توحاصل کرلی لیکن ہم میں سے کچھ لوگ ا بھی تک ہندو کی مکاری کو نہیں سمجھ سکے ۔اس نے ایٹم بم ہمیں دکھانے کے لئے نہیں بنایا تھا بلکہ وہ ہمارے اس پاکستان کو پہلے دن سے ہی ختم کرنے کوششوں میں ہے۔ حالیہ واقعات کے جن میں ہماری حکومتی مشینری نے پہلی دفعہ کھل کر بھارت دہشت گردی کو بے نقاب کیا اور اس کے جواب میں بھارتی وزیردفاع کا بیان کہ دہشت گرد کو اسی کی زبان میں جواب دینے جیسی بات کھلے عام پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کا ثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری ذمہ داریوں میں اضافہ بھی کرتی ہے کہ ہم روشن خیالی ،امن کی آشا اور دوستی کا ہاتھ بڑھائیں لیکن ہمارادشمن ہمیں پہلے کی طرح بطوردشمن ہی سمجھ کر ہمارے پیٹھ میں چھرا گھونپے ۔ اب یہ ہماری اپنی سوچ ہے کہ ہم پاکستان کو نظریہ پاکستان کے مطابق بناتے ہیں یا پھر پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے ایک سیکولر پاکستان بنا کر اپنے بزرگوں کی قبروں سے ان کے مردے اکھاڑتے ہیں ۔فیصلہ ہمارا ہے !اپنے آج کے کالم کا اختتام قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ پر کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آج کے دن ہم سوچیں گے کہ ہم سب نے اس آیت کے مطابق کتنا عمل کیا ہے ’’اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمیعت کے زور سے)اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لئے مستعد رہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پرجن کو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی ۔اور تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پوراپورادیاجائے گا اور تمہارا ذرا نقصان نہیں کیا جائے گا۔‘‘ سورۃ الانفال آیت نمبر 61۔