سی پیک کے دشمن

China-Pakistan Economic Corridor

China-Pakistan Economic Corridor

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

1917 کی بات ہے عراق کے پہاڑوں میں برطانوی جنرل سٹائلی ماود ے کا ایک چرواہے سے سامنا ہوا ،جنرل چرواہے کی جانب متوجہ ہوئے اور اپنے مترجم سے کہا اس سے کہو جنرل تمہیں ایک پائونڈ دیں گے بدلے میں تمہیں اپنے کتے کو ذبح کرنا ہوگا کتا چرواہے کے لیئے بہت اہم ہوتا ہے یہ اس کی بکریاں چراتا ہے بکھرے ہوئے ریوڑ کو واپس لاتا ہے درندوں کے حملے سے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے لیکن پائونڈ کی مالیت تو آدھے ریوڑ سے بھی زیادہ بنتی ہے چرواہے نے یہ سوچا تو اس کے چہرے پر ایک لالچی مسکراہٹ پھیل گئی وہ کتا پکڑ لایا اور جنرل کے قدموں میں ذبح کر دیا جنرل نے چرواہے سے کہا اگر تم اس کی کھال اتار دو تو میں تمہیں ایک پائونڈ اور دینے کو تیار ہوں چرواہے نے خوشی خوشی کتے کی کھال بھی اتار دی جنرل نے کہا میں تمہیں مزید ایک پائونڈ اور دونگا اگر تم اس کی بوٹیاں بھی بنا دو چرواہے نے یہ آفر بھی قبول کر لی جنرل چرواہے کو تین پائونڈ دے کر چلتا بنا ابھی جنرل چند قدم آگے گیا تھا کہ اسے چرواہے کی آواز سنائی دی وہ پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔

اور کہہ رہا تھا جنرل اگر میں کتے کا گوشت کھا لوں تو کیا مجھے ایک اور پائونڈ ملے گا ؟

جنرل نے انکار میں سر ہلایا اور کہا میں صرف تمھاری نفسیات اور اوقات دیکھنا چاہتا تھا تم نے صرف تین پائونڈ کے لیے اپنے محافظ اور دوست کو ذبح کر دیا اس کی کھال اتاری اسے ٹکڑے کیا اور چوتھے پائونڈ کے لیے اسے کھانے کو بھی تیار ہو گئے اور یہی چیز مجھے یہاں چاہیے پھر جنرل اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوئے کہ اس قوم کے لوگوں کی سوچیں یہ ہیں تمہیں ان سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔آج یہی حال مسلم ملکوں اور معاشروں کا ہے اپنی چھوٹی سی مصلحت اور ضرورت کے لیے اپنی سب سے قیمتی سب سے اہم چیز کا سودا کر دیتے ہیں اور یہ وہ ہتھیار ہے جسے ہر استعمار پر قابض ہر شاطر دشمن ہمارے خلاف استعمال کرتا رہا ہے اسی کے ذریعے اس نے حکومت کی اور اسی کے ذریعے ملکوں کو لوٹا آج ہمارے درمیان ہمارے ملک میں کتنے ہی ایسے چرواہے ہیں جو نہ صرف کتے کا گوشت کھانے کو تیار ہیں بلکہ اپنے ہی بھائیوں کا گوشت کھا رہے ہیں اور چند ٹکوں کیعوض اپنا وطن بیچ رہے ہیں ذرا پوچھو اس احمد نورانی سے تمہیں اس جھوٹی کہانی میں حصہ دار بن کر کیا ملا کتنا ملا ؟ چلو ایک منٹ کو مان لیتے ہیں یہ سچ ہے لیکن اس سچ سے تم نے اپنے ملک کو کیا فائدہ پہنچایا ؟ کیا دشمن کی زبان بولنے والا دوست ہو سکتا ہے ؟ اب معافی مانگ بھی لو تو کیا عراقی چرواہے والا کام تم کر چکے ہو۔

صادق آباد سے ایک صاحب نے لکھا ہے یہ جو جنرل عاصم سلیم باجوہ پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے ہیں یہ کہانی سی پیک اور اکانومی کو ڈسٹرب کرنے کے لیے گھڑی گئی ہے جنرل عاصم سلیم باجوہ کی فیملی کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ہمارے علاقے کے ہیں ان کے بھائی تنویر سلیم باجوہ اور ڈاکٹر طالوت باجوہ سے ملاقات ہوتی رہتی ہے یہ فیملی 1970میں بھی اپر کلاس فیملی مانی جاتی تھی سلیم باجوہ خود ایک ڈاکٹر تھے جو کہ قتل ہو گئے تھے پانچ بیٹے تھے دو ڈاکٹر ہیں دو امریکہ میں بزنس کرتے ہیں ایک آرمی میں ہیں ان کے ایک چچا سعید باجوہ
امریکہ میں ایک بڑے نیورو سرجن ہیں جو صدر کلنٹن کے ڈاکٹرز کی کمیٹی کے ممبر بھی رہے ہیں اس سٹوری کا مقصد جاننے کے لیے صرف اتنا چیک کر لیں کہ سٹوری بریک کون کر رہا ہے اور پروموٹ کون کر رہا ہے مقصد صرف چین کے ساتھ معاملات کو خراب کرنا اور سی پیک میں جو دوسرے ممالک آنا چاہتے ہیں ان کو روکنا ہے تاکہ وہ سوچیں اتنے بڑے پراجیکٹ کا انچارج ایک کرپٹ شخص کو لگایا ہوا ہے جنرل صاحب کے دو بھائی 1990میں امریکہ میں پڑھ بھی رہے تھے اور اور کام بھی کر رہے تھے 2001 میں انہوں نے وہاں اپنا بزنس شروع کیا 2008 تک نو امریکی ریاستوں میں ان کی فوڈ چینز تھی اس بزنس سے پہلے دونوں بھائی امریکہ میں پڑھ بھی رہے تھے اور دونوں پارٹ ٹائم کام بھی کرتے تھے ایک فوڈ چین شاپ پر 9سال انہوں نے کام کیا اور ایک بھائی اس فوڈ چین کا کنٹری انچارج کے عہدے تک بھی پہنچ گیا۔

یہ بھی سوچنے کی بات ہے آرمی یا آئی ایس آئی پر ہر الزام جنگ جیو گروپ کے صحافیوں کی طرف سے ہی کیوں لگتا ہے پہلے حامد میر ڈایریکٹ الزام لگاتا تھا اب احمد نورانی نے ایک ایسی ویب سائٹ کی آڑ لی جو دس دن پہلے ہی لانچ کی گئی کیونکہ اپنے ادارے کے تھرو لگاتا تو پھر ثابت بھی کرنا پڑتا یوں معافی مانگ کر لے مٹی گارا نہ ہوتا ۔۔۔۔
27 10 2017 محبوبہ کے بھائیوں سے بری طرح مار کھانے والا دہی بھلے کی ریڑھیوں سے صحافت کے نام پر بھتہ وصول کرنے والا احمد نورانی ایک غیر معروف ویب سائٹ پہ سی پیک کے چیئر مین عاصم سلیم باجوہ کے بارے میں سٹوری شائع کرتا ہے (ویسے یہ بات تو ماننی پڑے گی جن کو کوئی جانتا نہ ہو وہ پاک آرمی کی طرف منہ کر کے بھونک دیں تو راتوں رات شہرت مل جاتی ہے )اس سٹوری میں وہ لیفٹیننٹ جنرل (ر)عاصم سلیم باجوہ کی سینکڑوں کمپنیوں اور اربوں روپے کی جائیدادوں کا دعوی کرتا ہے پھر اس لنک کو ٹویٹ کرتا ہے جس کے بعد بیرونی پیرول پر پلنے والے اسے ری ٹویٹ کرتے ہیں اور ایک پروپیگنڈہ وار شروع ہوتی ہے۔

اب آتے ہیں حقائق کی طرف احمد نورانی نے ایک سٹوری تو بنا لی لیکن تمام کمپنیز اور شاپنگ مالزجن کا ذکر اپنی خیالی سٹوری میں کیا ہے ان کے سرٹیفکیٹ کیوں نہیں لگائے کیا صحافت میں زبانی دعوی ہی سب کچھ ہے ؟ جنرل عاصم باجوہ نے دو ٹوک انداز میں الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک غیر معروف ویب سائت پر میرے اور میرے خاندان کے خلاف عناد پر مبنی ایک انتہائی گمراہ کن کہانی شائع ہوئی ہے جس کی میں پر زور الفاظ میں تردید کرتا ہوں۔

انویسٹی گیشن جرنلزم سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ انویسٹی گیشن کی گاڑی ثبوتوں کے بغیر نہیں چلتی جو بھی اپنے مکروہ ارادوں کے تحت کمنٹ کرنے آئے ساتھ ثبوت لائے یہ ایک مکمل طور پر جھوٹی من گھڑت اور فیک نیوز ہے اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں نمبر ایک پہلی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ سٹوری احمد نورانی کی ہے ہی نہیں پہلی مرتبہ یہ جھوٹ دو مہینے پہلے انڈین میڈیا پر بولا گیا تھا کیونکہ امریکہ اور دبئی میں کام کرنے والی ایک کمپنی جس کا نام باجکو گروپ ہے ۔۔۔۔اس کا مالک ایک پاکستانی عبدلمالک باجوہ ہے اس نام کی مناسبت سے بھارتیوں نے سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین عاصم سلیم باجوہ کے خلاف ایک فیک نیوز بنائی کہ باجکو گروپ عاصم سلیم باجوہ کا ہے اور اس کے بعد بھارتی پروپیگینڈسٹمیجر (ر) گرو آریہ نے ایک یو ٹیوب وڈیو بنائی جس میں کسی بھی قسم کا ثبوت دیے بغیر صرف یہ کہا گیا کہ باجکو گروپ عاصم باجوہ کا ہے جس کی امریکہ میں پاپا جانز پیزا کی تقریبا سو فرنچائز ہیں اور دوبئی میں ان کی پراپرٹیز اور کمرشل پلازے ہیں بھارت کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ دو مہینے سے جاری ہے اور میجر گرو آریہ نے یہ یو ٹیوب وڈیو 25 جولائی کو اپ لوڈ کی تھی اور وہی ساری باتیں احمد نورانی نے فیکٹ فوکس پر لکھ کر یہ دعوی کیا ہے کہ یہ اس کی سٹوری ہے تو ساری بات یہیں سے واضح ہو جاتی ہے یہ سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کے چیئر مین کے خلاف بھارتی پروپیگنڈہ ہے جس کو پاکستان میںبھارتی لابی کے لوگ آگے لا کر مزید پھیلا رہے ہیں۔

احمد نورانی کو بتانا چاہیے کہ اگر یہ اس کی سٹوری ہے تو پھر دو مہینے سے بھارتی میڈیا کیوں چیخ رہا ہے ؟ نمبر دو اگر یہ سٹوری اتنی ہی اہم تھی ایک بڑی خبر تھی تو احمد نورانی نے یہ خبر جنگ اخبار میں کیوں نہیں دی ؟ ایک گمنام ویب سائٹ پر کیوں چھپی ؟کیونہ یہ اگر جنگ میں چھپتی تو اس پر مقدمہ دائر ہو سکتا تھا احمد نورانی پر جھوٹی خبریں دینے پر پہلے بھی سپریم کورٹ میں مقدمہ چلتا رہا ہے اس لیے اس نے گمنام سائٹ فیکٹ فوکس کا سہارا لیا تیسری اہم بات یہ ہے انویسٹی گیشن جرنلزم کا یہ مطلب نہیں ہوتا آپ کوئی بھی کہانی گھڑ کر لکھ دیں تحقیقاتی صحافت یہ ہوتی ہے آپ الزام لگانے سے پہلے ثبوت حاصل کرتے ہیں یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کئی سال پہلے لوگ کہا کرتے تھے ”نیازی بس سروس ” عمران خان کی ہے اسی طرح انہوں نے نام کی مناسبت سے یہ کہانی گھڑ لی کہ عاصم باجوہ ہی ”باجکو گروپ ” کا مالک ہے یاد رہے کہ اس سے قبل بھی جھوٹی خبر پر 2017میں میر شکیل کے اس نوکر احمد نورانی پر کیس ہوا اور وہ ہار گیا تھا اسے پانچ لاکھ جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا تھا میری محب الوطن پاکستانیوں سے درخواست ہے سی پیک کے مخالف اس پروپگنڈے کے موجدوں کی بیخ کنی کی جائے کیونکہ یہ جونکیں ہماری ملکی سلامتی کے خلاف بیرونی طاقتوں کے پیرول پر ہیں۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی