وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں خطاب کے لئے اس وقت امریکا میں ہیں۔ وزیراعظم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے حوالے سے تاریخی خطاب کریں گے اور بے حس عالمی برداری کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی جانب مرکوز کرانے کی کوشش کریں گے۔ 14 ستمبرآزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے جلسے میں یہ بھی کہا تھا کہ’ مجھے پتا ہے آپ کنٹرول لائن کی طرف جانا چاہتے ہیں لیکن ابھی اس طرف نہیں جانا،میں آپ کو بتائوں گا کہ کب جانا ہے،پہلے مجھے اقوام متحدہ جانے دیں اور کشمیر کا مقدمہ لڑنے دیں، نیو یارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جا رہا ہوں، جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیریوں کو مایوس نہیں کروں گا، کشمیریوں کے لیے ایسا اسٹینڈ لوں گا جو آج تک کسی نے بھی نہیں لیا۔ 18ستمبر کو طورخم بارڈر کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے دوٹوک کہاکہ” اگر کوئی کشمیرمیں داخل ہوا تو وہ پاکستان اور کشمیریوں کا دشمن ہوگا”۔ اس بیان کو امریکا سمیت بیشتر ممالک نے سراہا ہے کہ وزیر اعظم نے’ جہاد یوں ‘ کی حوصلہ شکنی ہے۔و زیر اعظم کے خطاب کا مرکزی ایجنڈا مقبوضہ کشمیر ہے ۔ لیکن بھارت نے بیان دیا ہے کہ ‘جنرل اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر پر بات(جواب) اس لئے نہیں کریں گے کیونکہ یہ عالمی تنازع نہیں ہے’۔ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر پرکردار سے سب بخوبی آگاہ ہیں کہ70برسوں سے اپنی ہی قرار دادوں پر عمل نہیں کراسکا۔ عالمی ذرایع ابلاغ نے جس طرح مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو بے نقاب کیا ہے ، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ، لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس کے باوجود ‘ انسانی حقوق کے چیمپئز ‘کا مشترکہ بیانیہ ہے کہ دونوں ممالک ‘ صبر و تحمل ‘ سے کام لیں، مسلم امہ کا مسئلہ نہ بنائیں وغیرہ وغیرہ۔
مقبوضہ کشمیر پر بیان بازیاں ہماری سیاست کا اہم حصہ بن چکی ہیں ۔ ماضی میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کے حوالے سے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت تھی ، لیکن بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے مقبوضہ کشمیر کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا ۔ گذشتہ دنوں جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل ( سابق انسانی حقوق کمیشن )کے 42ویں سیشن کے ایجنڈا نمبر تین میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی ریاستی خود مختاری سلب کرنے اور ایک مہینے سے زائد نافذ کرفیو کی صورتحال پر بات کی گئی ۔ انسانی حقوق کونسل کی کمشنر نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بھارت سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کرفیو میں نرمی (خاتمہ نہیں )، بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور مستقبل میں کسی بھی فیصلے میں کشمیریوں کو بھی شامل کرنے پر زور دیا ۔ لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ جنیوا کے اس اجلاس میں پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں قرارداد پیش کرنی چاہیے تھی ، لیکن قرارداد نہیں لائی جاسکی ، اس کی بنیادی وجہ کونسل کے47 اراکان میں 16اراکین کا قراداد پر متفق ہونا ضروری تھا ، لیکن پاکستان کی موثر لابنگ نہ ہونے کے سبب صرف 9ممالک کا تعاون حاصل تھا۔گذشتہ برس انسانی حقوق کونسل میں مقبوضہ کشمیر میںہونے والے مظالم پر کمشنر نے توجہ دلائی تھی ۔ لیکن بھارت نے راویتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت آرٹیکل 370 کا ہی خاتمہ کردیا۔
جنیوا میں سفارتی لابنگ کے لئے پاکستان میں تعینات بھارتی سفیرمسلسل لابنگ کررہے تھے جبکہ پاکستان کی جانب سے سابق سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کو تعینات کیا گیا تھا۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ایک دو برس کی سفارتی کوششوں سے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بڑی پیش رفت ممکن نہیں تھی ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انسانی حقوق کونسل میں امریکا شامل نہیں ہے ۔ امریکا گزشتہ برس کونسل سے یہ کہہ کر علیحدہ ہوگیا تھا کہ ‘ کونسل میں ایسے ممالک بھی شامل ہیں ، جو خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کا ریکارڈ خود درست نہیں ، ان کی موجودگی میں کونسل دوسروں کے حقوق کا تحفظ کیسے کرسکتی ہے؟’۔
کونسل صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیو ں پر صرف توجہ دلا سکتی ہے ۔ کونسل کے پاس ایسے کوئی اختیارات نہیں کہ وہ ایسے ممالک کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی کرسکے ۔ تاہم انسانی حقوق کونسل کی ایک عالمی حیثیت ضرور ہے ۔ قرار داد سے کسی بھی ملک پراخلاقی دبائو ڈالا جاسکتا ہے لیکن پاکستان انسانی حقوق کونسل میں مناسب سفارتی لابنگ میں کمزوری کے سبب قرارداد پیش نہیں کرسکا ۔ اب اقوام متحدہ میں وزیر اعظم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر خطاب کریں گے ۔ لیکن عالمی ادارے سے کسی قسم کی توقع کرلینا قبل ازوقت ہوگا ۔ بلکہ بھارت کے 22ستمبر کو امریکا شہر ہوسٹن ٹیکساس میں ‘ ہائو ڈی مودی ‘ جلسے میں صدر ٹرمپ کی شرکت اس رجحان کی جانب توجہ مبذول کرا رہی ہے کہ جب تک بھارت نہ چاہے ، مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر کسی پیش رفت( ثالثی) کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اقوام متحدہ میں کوئی قرار داد پیش نہیں کی جا رہی کہ اس پر رائے شماری ہو، سلامتی کونسل بھی غیر رسمی اجلاس کے بعد سے ابھی تک خاموش ہے۔50دن ہوچکے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر سے کرفیو تک ختم نہ کرایا جا سکا۔
اقوام متحدہ اس حوالے سے بھارت پر کیا دبائو ڈال سکتا ہے ، یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہمیں اقوام متحدہ سے دنیا بھر میں مسلم کشی کے واقعات پر سنجیدگی اور عملی اقدام کی خبر کبھی نہیں ملی ۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وزیراعظم عمران خان امریکا واپسی کے بعدکیا مشورہ دیں گے کہ کشمیری چاہیں تو لائن آف کنٹرول عبور کرلیں یا پھر طورخم میں دیئے گئے بیان پر قائم رہیں گے کہ ” اگر کوئی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوا تو وہ پاکستان اورکشمیر کا دشمن ہوگا ”۔بھارت کے وزیر خارجہ ، وزیر دفاع سمیت دو وزرا ء بیان دے چکے ہیں کہ پاکستان سے آزاد کشمیر ، گلگت و بلتستان پر ہی بات ہوگی ۔ اب آزاد کشمیر کو بھارت کا حصہ بنایا جائے گا ۔ان حالات میں کہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی عوام میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے اور اس شدید اشتعال و غصے کی حالت میں ایسے معاملات ہونا خارج از امکان نہیں کہ کشمیری عوام کے درمیان سے ایسی تحریک جنم لے ، جو خطے میں کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکے۔
کیا مقبوضہ کشمیر کا سفارتی حل نکالا جاسکتا ہے جیسا کہ حکومت چاہتی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے جس طرح مقبوضہ کشمیر کی بھیانک صورتحال کو نمایاں کیا ہے ۔ اس کی ماضی میں کبھی مثال نہیں ملتی ، لیکن اس سے بھی بھارت کی ہٹ دھرمی پر کوئی فرق نہیں پڑرہا ۔ پاکستان کے موجودہ اقدامات سے کشمیری عوام بھی مطمئن نظر نہیں آتے ۔؟ مقبو ضہ کشمیر پاکستان کا حصہ و شہ رگ ہے ۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کو ختم کرکے اس پر مکمل قبضہ کرچکا ہے۔ آزاد کشمیر پر بھارت کی ناپاک نظریں ہیں توکیا بھارتی جارحیت کا انتظار کیا جائے یا ‘ دشمن حملہ کرے، اس پر پہلے حملہ کردو ‘ کی پالیسی اپنائی جائے؟۔