تحریر : عارف رمضان جتوئی بھارت ہر محاذ پر پاکستان کے خلاف مہم جاری کیے ہوئے ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے تاہم بھارت نے وہاں پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔ پاکستان کے پانیوں پر قبضے کی مودی دھمکیاں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہے۔ میڈیا پر بھی بھارتی صحافیوں نے خوب پروپیگنڈے کیے۔ اپنی صحافتی یلغار کو پاکستان پر اس طرح مسلط کیا کہ ہمارے گھروں تک میں بچے ان کے گن گانے لگے ہیں۔ ان کے ٹی وی چینل ان کی ثقافت اور ان کی پوچا پاٹ پاکستان کے تقریبا ہر گھر میں دیکھے جارہے تھے۔ پاکستان نے ایک بہترین اقدام کیا اور ان تمام بھارتی ٹی وی چینلز کو بند کر دیا گیا۔ پاکستان میں بھارت نواز افراد کو بھی متنبہ کیا گیا کہ اب بھارت کا پاکستان میں کچھ نہیں چلے گا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت سالانہ پاکستان کے سینماﺅں سے اپنی فلموں کے ذریعے اربوں روپے کما رہا ہے۔ پاکستان کے دو بڑے ڈسٹری بیوٹرز اور ایگزی بیوٹرز نے بھارت کی 37 فلموں کو پاکستان کے 16بڑے سینماﺅں میں نشر کر کے خود بھی اربوں کمائے اور بھارت کو بھی اربوں کا مفافع فراہم کیا۔ اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں نمائش پر ایک بھارتی فلم اوسطا 50 کروڑ سے 60 کروڑ روپے منافع حاصل کرلیتی ہے۔ اسی طرح پاکستانی فلم انڈسٹری بھی انہیں وجوہات کی بنیاد پر بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی اداکار جن کو پاکستان میں عزت و مقام دیا جاتا ہے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر بھارتی مہم کا حصہ رہے ہیں۔ انہیں اداکاروں نے پاکستان کے خلاف جنگ مسلط کرنے کے مودی فنڈ مہم میں بھی ٹھیک ٹھاک فنڈ جمع کرایا۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کیا کہتی ہے اس سلسلے میں کراچی کے ڈرامہ اور فلم ڈریکٹر شوکت علی مظفر کا خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اگر میں یہ کہوں کہ بھارتی فلموں کی نمائش پر مکمل پابندی ہونی چاہئے کیونکہ زرِ مبادلہ تو بھارت جاتا ہی ہے ساتھ ہماری نسلوں کی سوچ بھی تبدیل ہوجاتی ہے لیکن اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے توسینما مالکان کی مجبوری ہے کہ وہ بھارتی فلمیں نہ چلائیں تو کیا کریں؟ کیوں ایک تو ہماری حکومت نے آج تک فلمی صنعت کو صنعت سمجھا ہی نہیں ، دوئم جو لوگ اس فیلڈ سے وابستہ ہیں انہوں نے بھی اسے ڈبونے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔شور تو بہت کیا جاتا ہے پاکستانی فلموں کو سپورٹ نہیں کیا جاتا لیکن بھارتی فلموں کا نعم البدل بھی فراہم نہیں کیا جارہا ہے۔ ابھی حالیہ جتنے عرصے میں بھارتی فلموں پر پابندی عائد رہی تو بس دوچار فلمیں ہی ریلیز ہوسکیں جس سے سینما مالکان کو نقصان ہی دیکھنا پڑا۔ لہٰذا پاکستانی فلم انڈسٹری کے کرتا دھرتاﺅں کو اس سلسلے میں مستقل حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے یکسوئی سے ، مثبت کہانیوں پر مبنی فلمیں بنانی ہوں گی، زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا سوشل میڈیا پر رد عمل کنول ریاض: اگر پاکستان میں بھارتی فلمیں چلائی جاتی ہیں تو یقینا یہ ایک غلط فیصلہ ہوگا۔ بھارت سے دوست نبھاتے نبھاتے اپنی نسلوں کو ہندومت کی ترغیب تو نہیں دے سکتے اور ان کے کارٹون بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اس لیے پاکستان میں بھارتی مواد کو بالکل اجازت نہیں دینی چاہیے۔
قدسیہ ملک: میرے خیال سے بھارتی فلموں اور ڈراموں کی تشہیر اور اجازت کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔ میں تو صرف ایک بات جانتی ہوں کہ اگر ہم دوستی کریں اور خطے میں امن کی بات کریں تو دو فریقین کے درمیان برابری کی سطح پر ہی دوستی و امن قائم ہوسکتا اسی طرح ہم اپنا الگ تشخص برقرار رکھ سکیں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنا تشخص تک کھو بیٹھیں۔
نوشین اسد : بھارت کی جانب سے آنے والا مواد خصوصا ہماری نوجوان نسل اور بچوں پر برے اثرات مرتب کررہا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری ماﺅں کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیں اس صورت میں بھارتی کارٹونز ہی ہمارے بچوں کی تربیت کررہے ہیں اور وہ کیسی ہورہی ہے یہ بچوں کے شب و روز دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
منیرہ عادل : پاکستان میں بھارتی فلموں اور ان کے ڈراموں کو چلائے جانے کا فیصلہ درست نہیں ہے۔ ان کے ڈراموں اور فلموں کو دیکھ کر ہماری نوجوان نسل اور بچے اپنی تہذیب و ثقافت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ زبان و انداز میں واضح فرق آتا جارہا ہے۔ لہذاپاکستان میں ان پر پابندی ہی ہونی چاہیے۔
عمارہ کنول : بزنس کے لحاظ سے بھارت کے حق میں بہترہے لیکن پاکستان کی معیشت اور اخلاقی لحاظ سے فیصلہ غلط ہے۔
آسیہ شاہین : فلموں پر پر پابندی تھی تو اچھا تھا۔ ٹی وی چینلز نے تو بچوں کا ستیا ناس کرکے رکھا ہوا تھا۔ اب دوبارہ فلموں کو کھولنا درست اقدام نہیں ہے۔ حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان پر دوبارہ پابندی عائد کی جائے۔
اریشہ فاروق : بہت غلط فیصلہ ہے۔حکومت کو ملکی سلامتی پر اپنا رویہ سخت رکھنا چاہیے۔
حسین احمد محمود : پاکستان میں بھارتی فلموں کو اجازت دینے کا فیصلہ حیران کن ہے۔ حکمران بھارت سے دوستی نہیں ملک سے محبت کا ثبوت دیں۔
نعمان حیدر : حکومت کا یہ فیصلہ انتہائی غیردانشمندانہ ہے اس پر بھرپوراحتجاج ہونا چاہیے۔میاں صاحب اپنے آقاﺅں کے بجائے پاکستان کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ شوکت عزیز کی طرح پاکستان میں وزارت عظمیٰ کے بعد رہنابھی نصیب نہ ہو۔
سائرہ حسین : بھارتی فلموں کو دوبارہ پاکستان میں اجازت نامہ دینے کے فیصلہ غلط ہے۔ بھار ت کی جانب سے آنے والے مواد پر پاکستان میں پابندی رہنی چاہیے اور اسے ختم نہیں کرنا چاہیے۔
عامر خان : اچھا اقدام تو نہیں ہے لیکن اگر بند ہوں بھی سہی تو ہم عوام کونسا ان سے پرہز برت رہے ہیں؟ انٹرنیٹ سب سے ب ±ری بیماری ہے آج کی۔ بے چارے سینمامالکان کے بزنس تباہ ہو رہے تھے۔ اگر پابندی برقرار رہتی تو بہتر تھا
Ban on Indian Movies in Pakistan
عدیلہ سلیم : میرے خیال سے انڈین چینلز کو دوبارہ کھولنا بالکل درست نہیں اور جہاں تک پاکستانی عوام میں سے 50 فیصد لوگ انڈین چینلز دیکھنے کی عادت میں مبتلا ہے وہ تو آج بھی دیکھتے ہیں ۔ حکومت نے صرف چینلز پر پابندی لگائی اور انٹرنیٹ پر موجود انڈین چینلز ویب سائٹس پر پابندی کا رتی برابر سوچا نہیں گیا۔ لوگ تو انٹرنیٹ پر آج بھی انڈین ڈرامے تک دیکھتے ہیں ، البتہ پابندی ہی رہنی چاہیے تاکہ پاکستان کے بچے ایک بہتر تہذیب و تمدن کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزارے۔ انڈین چینلز پر سے پابندی ختم کرنا انڈیا کے حق میں بزنس کے لحاظ سے مثبت پوائنٹ ہو گا
آر ایس مصطفیٰ : فلموں اور ڈراموں پر پاکستان میں پابندی رہنی چاہیے۔ ان کی فلموں کی وجہ سے پاکستانی فلم انڈسٹری بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
ریما نور رضوان : بھارتی چینل بند رہنا چاہیے۔کھلے بھی تو میں نہیں دیکھتی بند ہی رہنا چاہیے پاکستان کے ڈرامے پوری دنیا میں دیکھے جاتے ہیں۔ کوءشک نہیں کہ ہمارے یہاں بہت ہی عمدہ ڈرامے نگار موجود ہیں۔اور اب جو فیلمز بن رہی ہیں۔ پہلے کی۔بنسبت بہت ہی بہتر ہیں۔ان فیوچرز مزید ہمیں اچھی فلمیں دیکھنے کو ملیں گی۔ہمارے ملک میں ٹیلنڈ کی کمی نہیں ہے۔بس سپورٹ کرنے والوں کی کمی ہے۔ہمیں اپنے ملک کی فلاح و بقا کے لیے اک ہونا چاہیے۔ دشمنوں سے تعلقات قائم نہیں رکھنے چاہیے۔
اریشہ سہیل : فلموں پر پابندی سے فیصلہ ختم کرنا بہت غلط ہے۔ اس سے تو یہیں ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے اندر سے غیرت ختم ہوچکی ہے۔ کیا اب ہم صرف اور صرف پیسوں کے لیے اپنا دین ، ایمان اور اپنی ثقافت کو قربان کر دیں گے۔
ثناء واجد : بھارتی مواد کو پاکستان میں دوبارہ اجازت دینے کے حکومتی فیصلے سے میں متفق نہیں ہوں اور اگر دیکھا جائے تو ایک اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے انڈین ٹی وی چینلز اور فلمز پر پابندی بہت اچھا قدم تھا کیونکہ ملتی جلتی زبان کے سبب ہمارے بچوں پر بہت برا اثر پڑرہا تھا اور سچ پوچھیں تو انڈین ٹی وی چینلز اور فلمز پر سے دوبارہ پابندی اٹھا کر اخلاقی لحاظ سے یہ فیصلہ گھاٹے کا کیا گیا ہے۔
قدسیہ مدثر : بھارت کے ڈرامے اور فلمیں پاکستانیوں کو نظریاتی طور پر کھوکھلا کررہے ہیں۔ایک طرف ان کی سرحد پر جارحیت جاری ہے دوسری طرف ہم سے ثقافتی جنگ۔
نمرہ فرقان : بھارتی فلموں کو پاکستان میں اجازت دینے کے فیصلے سے دکھ ہورہا ہے۔ بھارت کی پے در پے درندگی اور اس کے بعد ہمارا یہ نرم برتاو ¿ سراسر بے وقوفی ہے۔ ان چینلز کو بند ہی رہنا چاہیے۔ یہ بھی ایک جنگ ہی ہے اگر ہمارے حکام سمجھیں تو۔
نعمان احمد : ہماری روایات، رسم و رواج کا بیڑا غرق کیا جارہا ہےاور ان سب کے پیچھے بھارت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ہمارے بچے جو قرآن کریم پڑھنے والے تھے تو وہی بچے آج کل ہندوانہ رسم و رواج کو اپنانے لگے ہیں۔ ہم انڈیا کے چینلز کو لے کر اپنی نسلوں کو خراب کر چکے ہیں۔ہمارے بیٹے ،بیٹیاں جو کہ اردو ادب پڑھ کر بہت اچھا مقام حاصل کر سکتے تھے۔ اس ساری ہندی نے اردو ادب کا بیڑا غرق کر دیا ۔ ان پر پابندی لگنی چاہیے ورنہ عوام کو یہ فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینا پڑے گا۔
ایڈوکیٹ سعدیہ ہما شیخ : حکومت کی جانب سے بھارت کی واحیات فلموں پر پابندی ہٹانے کا فیصلہ بھی واحیات ہی ہے۔
نعیمہ غزل : دوبارہ بھارتی فلموں کو پاکستان میں اجازت نامہ جاری کرنا بالکل غلط فیصلہ ہے۔اب جب کہ تمام لوگ پابندی کو قبول بھی کر چکے ہیں۔دوسرے یہ خود اپنی معیشت کو نقصان پہنچانے والی بات ہے۔لوگ پاکستانی ڈرامہ، فلم انڈسٹری سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں جبکہ پابندی لگنے کی وجہ سے سب کا رجحان اس طرف بڑھ رہا ہے۔
علی رضا : بالکل افسوس ناک امر ہے۔ اب پاکستان جیسے اسلامی ملک میں دشمن ملک کا مواد چلایا جائے گا یہ تو سیدھا سیدھا ہماری روایات پر وار کے مترادف ہے۔
سارہ فردوس : بہت افسوس کی بات ہے کہ ہماری فوج تو بارڈر پر لڑ تی ہے اور عوام اسی ملک کے ڈرامے اور فلمیں دیکھتی ہے۔ ان کے ایکٹرز کوعوام اپنا ہیرو مانتی ہے۔جبکہ ہمارے ہیرو عزیز بھٹی، راشد منہاس ہیں۔ یہ سب پیسہ کشمیر اور ہمارے خلاف ہی استعمال ہوتا ہے۔ وطن کی حفاظت فوج کا نہیں عوام کا بھی فرض ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں اس بات کا شعور دیا جائے نہ کہ بھارتی فلمیں دیکھائی جائیں۔
فری ناز خان : بھارتی چینلز اور فلموں پر پاکستان میں مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ انہیں یہاں پر اجازت دینا درست فیصلہ نہیں ہے۔ حکومت کو نظر ثانی کرنی چاہیے یا پھر اس کے خلاف عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔
سعدیہ عابد : نہایت غلط فیصلہ ہے۔ کسی بھی قوم کی خودداری اس کی انا بہت معنی رکھتی ہے اور اپنی عزت نفس کی خود حفاظت کرنی ہوتی ہے۔ انڈین چینلز کو کھولنا ایسا ہی ہے جیسے تھوک کر چاٹنا۔ اپنی عزت نفس کو دوسروں کی غلامی میں دینا۔ اللہ ہمارے حکمرانوں اور عوام کو ہوش کے ناخن دے اور اقبال کا فلسفہ خودی ذہنوں میں تازہ کرکے عمل کی توفیق دے آمین
علی رضا منگی : حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔ اپنے ملک کے خلاف ہی فیصلے کیے جارہے ہیں۔ اپنے دشمن کو اپنے ہی ملک میں لاکر ان کی بولی اپنی عوام کو سنانا کون سی عقل مندی کی بات ہے۔
اقصیٰ مبین : بھارتی فلموں اور ڈراموں کو پاکستان میں بند رہنا چاہیے۔ کچھ روز بند رہنے سے بہت ٹائم بچا ہے۔ حکومت کو بھی فیصلہ عوام سے پوچھ کرکرنا چاہیے۔ حکومت کو عوام کی رائے سے گویا کوئی سروکار ہی نہیں رہا۔ جہاں تک عوام کی ذاتی زندگی ہے تو عوام کو اپنے ایمان پر قائم رہے۔ عوام فیصلہ کرے کے اس اب یہ سب نہیں دیکھنا اور وہ اس پر ڈٹ جائیں۔
ارم فاطمہ : حکومتی فیصلے حکومت کے اپنے ہوتے ہیں، جس حد تک عوام کی زندگی متاثر ہونی تھی وہ ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ انہیں اپنے موقف پہ قائم رہنا چاہیے اور جارحیت کو روکنا اور احتجاج اور اپنے دفاع کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے ۔
تانیہ مہر : بھارتی چینلزاور ان کی فلمیں پاکستان میں ہرگز نہیں چلنی چاہئیں۔ان فلموں ، کارٹونز اور ڈراموں کی وجہ سے ہماری نسل پر بہت بڑے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔یہاں تک کہ ثقافت کے ساتھ ساتھ زبان تک خراب ہوئی ہے۔