ٹوٹے پتوں کا دکھ ان کے زردرنگ میں عیاں تو ہوتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ پتے اپنی شاخوں سے گرنے کا شوق کب رکھتے تھے۔۔۔۔؟ جو شاخ ساری زندگی ان کو خوراک دیتی ہے کونپل نکلنے سے ایک خوبصورت پتا بننے تک اس کی نشونما جاری رکھتی ہے پھر اچانک کس کی نظر کام کرتی ہے کہ یہ رشتہ سوکھ جاتا ہے۔ میں کوئی زرعی ماہر تو نہیں کہ پتوں اور شاخوں کے رشتوں کے احساسات ماپتا پھروں لیکن تیز ترین معلومات کے دور میں حقیقت کے قریب تر سوچ پال سکتا ہوں۔ ہوتا کچھ یوں ہیکہ شاخ اندرونی انتشار اور بیرونی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مطلوبہ مقدار میں خوراک مہیا نہیں کرپاتی۔ شاخ اور پتے کا تعلق کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ وقت آتا ہے کہ پتا نیچے گر جاتا ہے۔ شاخ افسوس کے آنسو بہاتی رہتی ہے لیکن دنیا میں یہ کم ہی پایا جاتا ہے کہ اگر ہوا پتا پھر سے سر سبز اور خوشحال ہو جائے۔
آج سے 47 سال بیشتر 16 دسمبر کو تاریخ کی گھڑیاں گھماکر دیکھیں تو ڈھاکہ شہر کی خزاں رسیدہ صبح دشمن کی ریشہ دوانیوں کے باعث اپنی شاخ سے کٹنے کا منظر پیش کررہی تھی۔ ہر سال 16 دسمبر آتا ہے اور سقوط ڈھاکہ کی یادیں تازہ ہوتی ہیں۔ قائد کے پاکستان کے ٹوٹنے کی وجوہات زیر غور آتی ہیں اور بالآخر ”رات گئی بات گئی” کی طرف ختم ہوجاتی ہیں لیکن ہم نے کبھی بھی ان وجوہات سے سبق حاصل کرنے اور موجودہ صورتحال میں انہی غلطیوں کو دہرانے سے باز رہنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں اور بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جنہیں بہت کم زیر بحث لایا جاتا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی حقیقی سچائی کو دیکھا جائے تو اس کے پیچھے صرف اور صرف ہندو بنیا اس کا اصل مجرم نظر آتا ہے۔ بزدل ہندو بنیے نے قیام پاکستان سے ہی پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا۔ ہندو نیتا تو کہتے تھے کہ نوزائیدہ پاکستان حالات کا مقابلہ نہیں کرپائے گا اور بہت جلد دم توڑ جائے گا۔
جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ پاکستان کی تخلیق ایک عارضی اقدام ہے اور یہ آخر کار متحدہ ہندوستان پر منتج ہوگی۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی ایک قراردادمیں مولانا ابوالکلام نے کہا تھا کہ تقسیم کے عمل سے صرف ہندوستان کا نقشہ متاثر ہوگا۔ لوگوں کے دل تقسیم نہیں ہوئے اور مجھے یقین ہے کہ یہ تقسیم عارضی ثابت ہوگی۔
ہندو رہنمائوں نے پاکستان کی نوزائدہ ریاست کا گلا گھونٹنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھایاجو ان کے اختیار میں تھا اور بھارتی سرکار شروع دن سے ہی سازشوں میں مصروف رہی ہے۔
انڈیا نے اپنی دشمنی کا پورا پورا حق ادا کرتے ہوئے 1965 ء میں پاکستان پر حملہ کیا مگر ان کو منہ کی کھانا پڑی۔ 1966ء میں اندراگاندھی کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان مخالف سرگرمیوں یں تیزی آگئی اور گاندھی نے1965ء کی جنگ ہزیمت کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان کودولخت کرنے کا خوفناک جال بنا۔ سب سے پہلے اس نے مشرقی پاکستان کے سربراہ شیخ جیب الرحمن سے تعلقات استوار کیے اور اس کے علاوہ ہندو نوجوانوں پر مشتمل پرتشدد جماعت (مکتی، باہنی) تیار کی۔ ان کو عسکری تربیت دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اسلحہ اور مالی معاونت بھی کی گئی۔ مکتی باہنی دراصل بھارتی سپاہیوں کے روپ میں ایک جماعت تھی۔ بعد میں بھارتی عسکری تربیت یافتہ مکتی باہنی کے ان گوریلوں نے مشرقی پاکستان کے ذرائع مواصلات، اہم سرکاری و نجی عمارتوں اور پاک فوج کے خلاف کارروائیوں میں ایک کردار ادا کیا۔
مشرقی پاکستان کے حالات کو خراب کرنے اور باغیوں کو بڑھاوا دینے کے لیے انہی ایام میں آل انڈیا ریڈیو سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا رہا کہ مجیب الرحمن نے اعلان آزادی کردیا اور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آچکا ہے۔
دوسری طرفبھارتی حکومت نے انڈین بارڈر پر معمور فوج کو باغیوں کی مدد کیلئے سپاہی اور اسلحہ بھیجنے کی اجازت کے ساتھ انہیں ہر طرف کی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیار رہنے کی ہدایات جاری کردیں۔ بعد ازاں فوجی کارروائیوں کے دوران بھارتی اسلحہ اور گولہ و بارود کی برآمدگی بھارتی مداخلت کے ناقابل تردید شواہد کے طور پر سامنے آئے اور اسی طرح اس امر کے بھی واضح ثبوت ملے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس بھارتی فوجی بڑی تعداد میں مشرقی پاکستان میں داخل ہوئے۔ مشرقی پاکستان کی تعلیم کے شعبے میں ہندو اساتذہ غالب تھے لہٰذا انہوں نے نوجوان بنگالیوں کے اذہان میں بنگالی قوم پرستی کا زہر بھرنے اور نظریہ پاکستان کے خلاف نفرت ابھارنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ بہت سے تعلیمی اداروں میں قائداعظم کی بجائے موہن داس چند گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی تصاویر آوایزاں کردی گئیں۔ پاکستان مخالف مواد بھارت کی طرف سے تعلیمی اداروں میں تقسیم کیا گیا۔ ہندو دانشور کی لابی بھارت سے بھیجے جانے والے پاکستان مخالف لٹریچر کو بخوشی قبول کرتے اور پھیلاتے تھے۔
دوسری طرف بھارت نے بنگالی مہاجرین کے مسئلے کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تقریباً دو لاکھ ہندو مغربی بنگال اور آسام پہنچے تھے۔ بھارتی فوج نے انہیں نہ صرف سرحد عبور کرنے کی اجازت دی بلکہ مہاجر کیمپ قائم کرکے انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے کیلئے عسکری تربیت بھی دی۔ بھارت نے مہاجروں کے مسئلے کو حملے کے بہانے کے طور پر بھی استعمال کیا۔ اس بات کی تصدیق انڈین انسٹیٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز کے ڈائریکٹر نے بھی کی جس میں وہ کہاتا ہے کہ ”بھارتی حکومت نے ب ڑے غورو فکر کے عبد اپنی سرحد بن کرنے کی بجائے مہاجروں کو اپنے ملکمیں آنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک لحاظ سے یہ فیصلہ بنگلہ دیش کی آزادی کے بارے میں بھارتی ہمدردیوں کا عکاس تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بنگلہ دیش میں مزاحمت کی تحریک کو برقرار رکھنا دشوار تھا۔
بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را” کو دیا جانے والا پہلا ٹاسک ہی مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنا تھا جس کو آپریشن بنگلہ دیش کا نام دیا گیا۔ اس آپریشن کے دوران ‘را ‘نے مشرقی پاکستان میں صحافیوں ، اساتذہ، دانشوروں سمیت ہر طبقہ فکر کو فکری دہشت گردی کے کام پر لگادیا۔ اس مقصد کے لیے بھاری رقوم مختص کی گئیں جبکہ اندرون اور بیرون بھارت بھی پاکستان کے خلاف زبردست میڈیا وار لڑی گئی۔
بھارتی پروپیگنڈہ ، مشنری پاک فوج کے خلاف بار بار ان تین بڑے الزامات کو دہراتی رہی کہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی فوج نے تیس لاکھ بنگالیوں کو بے دردی سے قتل کیا تین لاکھ عورتوں کی آبروریزی کی گئی اور گائوں کے گائوں جلا دئیے گئے۔
بھارتی میڈیا کا یہ جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ بین الاقوامی میڈیا نے بغیر تحقیق و تفتیش کے خوب اچھالا اور پاکستان کے تشخص کو اس بری طرح مجروح کیا گیا کہ پاکستان دنیا میں نفرت کا نشان بن کر تنہا رہ گیا۔ اس طرح بھارت نے نہ صرف بنگلہ دیش کاز کے لیے دنیا بھر کی ہمدردیاں حاصل کیں بلکہ عالمی رائے عامہ کو بے بنیاد خبروں اور خود ساختہ داستانوں کا بھی کامیابی سے یقین دلایا۔
بھارت نے ایک منظم منصوبے کے تحت یہ مبالغہ آمیز خبریں بھی پھیلائیں کہ مشرقی پاکستان سے ہندوئوں کو نکالا جارہا ہے جبکہ پاکستان کے خلاف نفرت اور تعصب کو ہوا دینے کے لیے یہاں تک جھوٹ گڑا گیا کہ بنگالیوں کے منتخب لیڈر مجیب الرحمن کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ دنیا بھر کے دانشوروں، سماجی تنظیموں اور سیاسی لیڈروں کو پاکستان کی مخالفت کا راستہ دکھایا گیا۔ یہ صورتحال بھارت کے تخریبی عزائم اور اس کے مطلوبہ اہداف کیلئے کارآمد ثابت ہوئی۔ اس نے پاکستان کو دولخت کرنے کے لیے تارکین وطن کو جنگ کا بہانہ بناکر 3 دسمبر 1971ء کو پاکستان پر حملہ کردیا جو 16 دسمبر کے سیاہ دن ”بنگلہ دیش” کے قیام کی شکل میں بدل کر سمانے آیا۔
کہتے ہیں کہ دنیا کی طاقتور اور منظم سے منظم فوج بھی عوامی تائید و حمایت کے بغیر بیرونی جارحیت سے مقابلہ نہیں کرسکتی۔ بدقسمتی سے پاک فوج کو بیک وقت اندرونی اوربیرونی دونوں محاذوں پر دشمن کا سامنا تھا لیکن انتہائی نامساعد حالات کے باوجود پاک فوج نے پاکستان کے دشمنوں کا بھرپور مقابلہ کیا۔ ایک بھارتی جنرل کے بقول مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج نے بہادری کے ناقابل یقین کارنامے دکھائے اور پانچ ماہ تک محاصرے کی حالت میں رہ کر اس نے بے پناہ بہادری سے جنگ لڑی جس کی زندہ مثال میجر جنرل تجمل حسین کی قیادت میں لڑا جانے والا ”ہلی” کا وہ معرکہ ہے جو آج دنیابھر کی عسکری تاریخ کا درخشندہ باب بن گیا ہے۔
قارئین محترم! مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں گو کہ ہمارے اپنوں کی کوتاہیاں اور نا اہلیاں بھی تھیں مگر سالوں اسپر محنت کرنے والا ہندو تھا جس نے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کیا تھا اور وہ آغاز سے ہی اس تاک م یں تھا کہ کسی طرح اس نوزائیدہ ملک کو ناکام ریاست بنادیا جائے۔ اس بات کا شدت سے احساس سقط مشرقی پاکستان کے بعد اندراگاندھی کے اس بیان سے بھی ہوتا ہے جو اس نے 1971ء میں بھارتی اسمبلی میں دیا تھا۔
ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ ہندو اب بھی مسلسل پاکستان کی سلامتی کے در پے ہے۔ بلوچستان میں اشتعال انگیزی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بد امنی پھیلانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کبھی بھی پاکستان کاخیر خواہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اس سے دوستی نبھانے ، تجارت اور راہداریوں کے چکروں کی بجائے اس سے اس کا بدلہ لیا جائے اور اس کے لیے پوری قوم کی تیاری ضروری ہے۔