تحریر : محمد اشفاق راجا دشمن پاکستان کیخلاف افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں انڈین خفیہ ایجنسی ”را” اور افغان ”این ڈی ایس” کے مابین پاکستان مخالف گٹھ جوڑ پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ بیرونی عناصر صورتحال خراب کررہے ہیں اور پاکستان کیخلاف افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے گزشتہ روز دفتر خارجہ میں پریس بریفنگ میں کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام چاہتا ہے اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیگا۔ انہوں نے باور کرایا کہ فاٹا میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں سے متعلق دعوے قطعی غلط ہیں۔
انکے بقول اپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کی بدولت پاکستان میں سکیورٹی اور معیشت کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور پاک افغان سرحد کے قریب بھی امن و امان کی صورتحال بہتر ہوچکی ہے جبکہ افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے کئی دہشت گرد تنظیمیں فروغ پا رہی ہیں اس لئے افغانستان میں امن و امان کی خراب ہوتی صورتحال کا دوسروں پر الزام لگانا درست نہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ”را” اور ”این ڈی ایس” پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں جبکہ داعش’ حقانی نیٹ ورک اور ٹی ٹی پی افغانستان میں ہی ہیں۔ پاکستان نے چونکہ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصانات اٹھائے ہیں جبکہ امریکی نیٹو فورسز کے افغان سرزمین پر دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ شروع کرنے سے پورے خطہ پراسکے اثرات مرتب ہوئے اور اس جنگ کے ردعمل میں ہونیوالی دہشت گردی کی زد میں سب سے زیادہ پاکستان ہی آیا اس لئے پاکستان کو نیٹو فورسز کے افغانستان سے واپس جانے کے بعد بھی افغانستان میں جاری بدامنی اور وہاں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر تشویش ہے کیونکہ ان محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھ کر ہی پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
اگر ان محفوظ ٹھکانوں میں موجود دہشت گردوں کو بھارتی فنڈنگ’ اسلحہ اور سرپرستی حاصل ہے جس کے پاکستان کے پاس ٹھوس ثبوت بھی موجود ہیں تو پاکستان کو بجاطور پر ان ٹھکانوں سے اپنی سلامتی کیلئے خطرات لاحق ہیں کیونکہ بھارت شروع دن سے ہی پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے جو اس پر تین جنگیں مسلط کرنے اور اسے سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرنے کے بعد باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے۔ اگر اس مقصد کیلئے بھارت کو افغانستان سے سہولت مل رہی ہے اور وہ افغان سرزمین پر اپنے دہشت گردوں کو تربیت اور گولہ بارود فراہم کرکے پاک افغان سرحد پر سکیورٹی کے مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث سرحد عبور کراکے آسانی سے پاکستان بھجوا رہا ہے تو افغانستان بھی درحقیقت پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی بھارتی سازش میں حصہ دار ہے جس کا عندیہ کرزئی سے اشرف غنی تک پاکستان کے بارے میں افغان لب و لہجہ اور دھمکی آمیز طرزعمل سے بخوبی مل رہا ہے تو پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارت افغانستان گٹھ جوڑ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔
یقیناً اسی تناظر میں پاکستان کی جانب سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد اسکے اقبالی بیان کی روشنی میں ایک ڈوزیئر تیار کرکے گزشتہ سال یواین سیکرٹری جنرل اور امریکی دفتر خارجہ کی میز پر رکھوایا گیا تھا تاکہ اقوام عالم ہماری سلامتی کیخلاف بھارتی عزائم سے مکمل آگاہ ہوسکیں۔ اب پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی سازشوں کی نشاندہی کرنیوالا ایک اور ڈوزیئر اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل کے حوالے کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر بھارتی سرگرمیوں کا نوٹس لینا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے۔
اس خطے کے برادر مسلم اور پڑوسی ملک ہونے کے ناطے افغانستان کے تو ہمارے ساتھ مثالی تعلقات استوار ہونے چاہئیں تھے اور اگر یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی اقتصادی ترقی و استحکام اور خطے کا امن و امان یقینی بنانے کیلئے باہمی حکمت عملی طے کرتے اور دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے اپنے اپنے وسائل مشترکہ طور پر بروئے کار لاتے تو کسی بیرونی قوت کو دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر افغان سرزمین اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی جرا?ت ہی نہ ہوتی مگر بدقسمتی سے امریکہ نے نائن الیون کے بعد نیٹو فورسز افغانستان بھجوا کر وہاں کٹھ پتلی کرزئی کو اپنی بیساکھیوں کا سہارا فراہم کردیا جبکہ پاکستان کے اس وقت کے کمانڈو جرنیلی آمر مشرف کو بھی دھمکی دیکر اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنالیا جس سے اس خطے کی بدقسمتی کا آغاز ہوا اور ہماری سرزمین امریکی ڈرون حملوں اور انکے ردعمل میں ہونیوالے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں سے انسانی خون سے رنگین ہونے لگی۔
Indian Intelligence Agency RAW
اس صورتحال سے ہمارے ازلی دشمن بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا جس نے افغانستان کے غیرمعروف شہروں میں بھی اپنے قونصل خانے قائم کرکے انکے ذریعے وہاں ”را” کے ایجنٹ اپنے دہشت گردوں کو تربیت دینا شروع کردی جنہیں بعدازاں اسلحہ سے لیس کرکے پاک افغان سرحد کے راستے پاکستان بھجوایا جاتا اور یہ دہشت گرد یہاں پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے بھارتی مقاصد کی تکمیل کیلئے دہشت و وحشت کا بازار گرم کئے رکھتے۔ یقینی بات ہے کہ بھارت کو یہ سہولت کابل انتظامیہ کی معاونت سے ہی ملتی رہی جس کیلئے پہلے امریکی کٹھ پتلی کرزئی نے پاکستان کے ساتھ خداواسطے کا بیر نبھایا جبکہ اب انکے جانشین اشرف غنی بھی نہ صرف پاکستان کیخلاف امریکہ’ بھارت اور کرزئی والا لب و لہجہ اپنائے ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی بھارتی سازشوں کو پروان چڑھانے کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی بھی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو نے پاکستان کیخلاف افغانستان اور بھارت کی ایجنسیوں کے اس گٹھ جوڑ کا ہی بھانڈہ پھوڑا ہے کیونکہ ان سازشوں کو پروان چڑھانے کی اسی کی ذمہ داری تھی جبکہ اسکی نشاندہی پر ہی اسکے ساتھی افغان جاسوس بھی کوئٹہ سے گرفتار ہوئے۔ بھارت افغان گٹھ جوڑ پر مبنی یہ نیٹ ورک گوادر پورٹ اور پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاڑ کرنے کے گھنائونے منصوبے پر کام کررہا تھا اور یہ طرفہ تماشا ہے کہ اسلام آباد میں موجود بھارتی ہائی کمیشن آفس بھی ان سازشوں میں شریک تھا جس کے آٹھ اہلکار سفارتکاروں کے روپ میں پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کے کلبھوشن نیٹ ورک کے ساتھ کام کررہے تھے۔
اسکے برعکس پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو اپنی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیحات کا حصہ بنایا جس کیلئے اس نے ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں بھی فعال کردار ادا کیا اور دوسرے ذرائع سے بھی افغانستان میں مستقل قیام امن کی کوششیں بروئے کار لاتا رہا مگر افغانستان کی طرف سے ہماری ان مخلصانہ کوششوں کا جواب ہمیشہ سرحدی کشیدگی کی فضا پیدا کرکے دیا گیا۔ پاکستان نے افغان سرحد پر دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حمل روکنے کیلئے اپنی حدود میں سکیورٹی گیٹ لگانے کا فیصلہ کیا تو افغانستان نے ہماری چیک پوسٹوں پر حملے کرتے ہوئے عملاً سرحدوں پر جنگ کی کیفیت پیدا کردی جس کا پاکستان نے مواثر جواب دیا مگر افغانستان بھارت ہی کی طرح آج بھی ہماری سلامتی کے درپے نظر آتا ہے۔ اگر آج بھارتی نئے آرمی چیف بپین راوت بھی اپنے پیشرو کی طرح پاکستان کو سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دے رہے ہیں تو افغان سرحد اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی ہمارے خلاف باسی کڑھی کی طرح ابال کھاتے نظر آتے ہیں جبکہ ہمارے ساتھ امریکی منافقت بھی انتہاء درجے کی ہے جو ہم سے ڈومور کے تقاضے کرتے ہوئے بالخصوص حقانی نیٹ ورک کیخلاف اپریشن کا متقاضی ہوتا ہے مگر کابل انتظامیہ کو کوئی ڈکٹیشن دیتا ہے نہ وہاں دہشت گردوں کیخلاف اپریشن کرتا ہے حالانکہ داعش’ حقانی نیٹ ورک اور پاکستان میں دہشت گردی میں مصروف ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے بھی افغانستان ہی میں موجود ہیں۔ اگر امریکہ فی الواقع اس خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا چاہتا ہے تو افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی متذکرہ تنظیموں کے ٹھکانوں پر اپریشن اسکی اولین ترجیح ہونی چاہئے مگر اسے اور بھارت کو تو دہشت گردوں کے ان ٹھکانوں کی وجہ سے ہی پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کی سہولت ملتی ہے۔
اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بھارت اور امریکہ کو اس خطہ میں دہشت گردی کا مستقل خاتمہ ہرگز مقصود نہیں بلکہ وہ صرف پاکستان کو ”ڈومور” کے تقاضوں کے تحت دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان تو بلاشبہ دہشت گردی کی جنگ میں دل و جان سے شریک ہے کیونکہ دہشت گردی کا خاتمہ ہماری اپنی ضرورت ہے اس لئے اچھے برئے کی تمیز کئے بغیر دہشت گردوں کیخلاف ہماری سکیورٹی فورسز کا اپریشن ضرب عضب جاری ہے۔ اسکے باوجود امریکہ’ بھارت اور افغانستان کی جانب سے ہم پر انگلی اٹھائی جاتی ہے اور ہماری سلامتی کمزور کرنے کی مشترکہ سازشیں طے کی جاتی ہیں تو ہمارے پاس ان سازشوں کا توڑ کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ کسی کو ہماری دفاعی استعداد و صلاحیت کے حوالے سے کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ عالمی قیادتوں اور اقوام متحدہ کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی مقصود ہے تو وہ بھارت کے جنونی ہاتھ روکنے کیلئے کردار ادا کریں ورنہ اسکے ہاتھوں عالمی تباہی کیلئے تیار رہیں۔ ہمارے پاس اپنی سلامتی کے تحفظ کا ایٹمی ٹیکنالوجی ہی آخری چارہ کار ہے۔