برلن (جیوڈیسک) ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے گزشتہ روز امریکا کے ساتھ مزید مذاکرات پر پابندی عائد کر دی ہے۔
گزشتہ روز انقلابی گارڈز کے بحری کمانڈروں سے اپنے خطاب میں آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکا کے ساتھ بات چیت سے ایران کو صرف اور صرف نقصان ہی ہو رہا ہے۔ امریکا مذاکرات کے ذریعے ایران میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے مگر ایران میں کچھ بے خبر ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ امریکا کے ساتھ مذاکرات سے ایران میں امریکا کے اقتصادی، ثقافتی، سیاسی اور سیکیورٹی اثر و رسوخ میں اضافے کے دروازے کھل جاتے ہیں، جوہری مذاکرات کے دوران بھی انھوں نے ہمارے قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔
اپنے خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ ہم ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں کہ جب ایران کے دشمن ہمارے حکومتی عہدیداروں اور عوام کے ذہن میں انقلاب کے حوالے سے نظریات تبدیل کرنے میں مصروف ہیں اور ہمارے قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایرانی سپریم لیڈر ’’دشمنان ایران‘‘ کے الفاظ امریکا، مغربی ممالک اور اسرائیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ خامنہ ای الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ ممالک ایران کے ’’اسلامی جمہوری‘‘ تشخص کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
خامنہ ای کے اس بیان سے ایران کے قدامت پسند حلقوں کو شہ ملے گی، جو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا مواخذہ چاہتے ہیں کیونکہ ظریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حاشیے پر امریکی صدر باراک اوباما سے مصافحہ کر لیا تھا۔ منگل کے روز جواد ظریف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ رسمی اور غیر رسمی طور پر بتا چکے ہے کہ ایسا ’’حادثاتی‘‘ طور پر ہوا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا ’’میرے ملک میں مجھے اس کی قیمت ادا کرنا پڑی ہے مگر میں کچھ بھی کر لوں، میرے ملک میں مجھے اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے‘‘۔ دوسری طرف جرمن میڈیا کے مطابق رواں برس ایران کی عالمی طاقتوں کیساتھ جوہری ڈیل کے بعد سے اسے شامی تنازع کے حل کیلیے اہم خیال کیا جانے لگا ہے۔ شام کا مسلح تنازع اس وقت عسکری دلدل میں دھنسا ہوا لگتا ہے۔ داعش کے شامی ٹھکانوں کو امریکا اور اْس کے اتحادی فضائی حملوں میں نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ اسی دوران شام کے حلیف ملک روس نے داعش کے علاوہ شامی صدر بشار الاسد کے تمام مخالف باغیوں کو بھی مبینہ طور پر ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔
اِس صورت حال میں سفارت کاری کے عمل میں ایرانی کردار پر عالمی طاقتیں فوکس کرنے لگی ہیں۔ ایران بھی مغربی طاقتوں کی طرح یہ سوچ ضرور رکھتا ہے کہ شامی تنازع کا فوجی حل ممکن نہیں‘ یہی بات حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کہہ چکے ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے شامی تنازع کے حل کیلیے اپنے منصوبہ جات عالمی اور علاقائی قوتوں کے سامنے رکھے ہیں۔ ان میں شام میں نیشنل یونٹی حکومت، جنگ بندی، انسدادِ دہشتگردی اور دستوری اصلاحات شامل ہیں۔ دوسری جانب یورپی سفارتکاروں کے مطابق شامی بحران کے حل میں ایران کا کردار کلیدی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صورت حال اتنی کشیدہ ہے کہ ایران کو کوئی بڑا کردار ادا کرنے میں آسانی نہیں ہو گی۔