بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں بھی کرپشن

 Mamnoon Hussain

Mamnoon Hussain

تحریر : سید توقیر زیدی
صدر مملکت ممنون حسین نے ایوانِ صدر میں منعقدہ ایک تقریب میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے وزارتِ پانی و بجلی کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سربراہان تبدیل کرنے کا مشورہ دیا تھا’ لیکن ان کی تجویز پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ عمل درآمد کیوں نہ ہوا۔۔؟ ا س کی وجہ بھی انہوں نے خود ہی بتا دی۔ کہا کہ سرکاری ملازمین کی اکثریت کو کام نہ کرنے اور حرام خوری کی عادت پڑ چکی ہے’ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں کرپٹ لوگوں کا نیٹ ورک ہے۔ سربراہ مملکت کا شکوہ بے جا نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت سے دوسرے شعبوں اور اداروں کی طرح بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں بھی کرپشن راسخ ہو چکی ہے؛ چنانچہ صورتحال یہ ہے کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام کرانے کے لیے بھی اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے’ اور بجلی کی چوری کا یہ عالم ہے کہ خود ان کمپنیوں کے اہلکار اس میں کردار ادا کرتے ہیں’ یعنی اپنے چھوٹے فائدے کے لیے ملک و قوم کو بڑا نقصان پہنچانے سے بھی نہیں چوکتے۔گویا اسی شاخ کو کاٹنے میں مصروف ہیں’ جس پر خود بیٹھے ہیں۔

یہ ایک تشویشناک امر ہے کہ صدرِ مملکت کی تجویز کو در خورِ اعتنا ہی نہیں سمجھا گیا۔ انہوں نے کوئی ایسی تجویز پیش نہیں کی تھی’ جس پر عمل درآمد نہ ہو سکے۔ یہ ایک اچھی تجویز تھی۔ مشاہدے میں آتا ہے کہ چھوٹے موٹے ملازمین کی تبدیلی اور ٹرانسفر میں تو تھوڑی سی بھی دیر نہیں کی جاتی’ لیکن بڑے افسران سالہا سال ایک ہی عہدے سے چمٹے رہتے ہیں اور اپنے ارد گرد ایسے لوگ جمع کر لیتے ہیں’ جو من مانیاں کرنے میں ان کے مددگار ثابت ہوں۔ اس تناظر میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سربراہان کی تبدیلی ایک اچھی پیش رفت اور صورتحال میں مثبت پیش رفت کا باعث بن سکتی تھی’ لیکن وزارتِ بجلی و پانی کے حکام نے اس پر بالکل کوئی توجہ نہیں دی۔ حکومت کو اس معاملے کا گہرائی تک جائزہ لینا چاہیے اور وزارتِ پانی و بجلی سے اس بارے میں باز پْرس ہونا چاہیے کہ صدرِ مملکت کی تجویز پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔۔؟ کم از کم اس تجویز کے قابل عمل ہونے کا ہی جائزہ لے لیا جاتا اور صدرِِ محترم کے علاوہ عوام کو بھی فیصلے سے آگاہ کر دیا جاتا تاکہ انہیں یوں کھلے عام شکوے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ صدرِ مملکت کا گلہ دراصل ایک قومی المیے کا بھی پتا دیتا ہے۔ یہ کہ ملک میں قانون کے پوری طرح نفاذ کو تاحال یقینی نہیں بنایا جا سکا’ اور حفظ مراتب کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔

Corruption

Corruption

بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس معاشرے میں سربراہ مملکت کی ہدایت یا تجویز پر عمل کرنا ضروری تصور نہ کیا جائے’ وہاں عام آدمی کی کتنی شنوائی ہوتی ہو گی۔ بجلی کی تقسیم کے لیے الگ الگ کمپنیاں اس لیے تشکیل دی گئی تھیں کہ توانائی کے اس اہم ترین ذرائع کی ڈسٹری بیوشن کا کام آسان ہو جائے اور صارفین کے بجلی کے حصول’ ٹرانسمشن لائن کی درستی اور بلنگ وغیرہ کے مسائل فوری طور پر حل ہو جایا کریں’ لیکن نتائج اس کے برعکس سامنے آئے۔ نہ صرف لائن لاسز بڑھ گئے بلکہ اوور بلنگ اور لوڈ شیڈنگ میں اضافے جیسے مسائل بھی شدت اختیار کر گئے۔

لوگ اوور بلنگ کے ازالے کے لیے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے دفاتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں’ لیکن ان کی شکایات دور نہیں کی جاتیں۔ سائل کے ایک سے دوسری میز اور ایک سے دوسرے دفتر کے اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ وہ کانوں کو ہاتھ لگا لیتا ہے اور کہیں سے ادھار پیسے پکڑ کر بھی استعمال کی گئی بجلی سے زیادہ بھیجا گیا بل ادا کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ صورتحال اس سے زیادہ گمبھیر اور کیا ہو گی کہ ان کمپنیوں کے اہلکار بعض صارفین سے ملی بھگت کرکے بجلی چوری کراتے ہیں۔

بڑھتے ہوئے لائن لاسز اس کے علاوہ ہیں اور یہ ساری رقوم صارفین سے وصول کی جاتی ہے۔ اوور بلنگ ایسے ہی نہیں ہو جاتی! ضرورت اس امر کی ہے کہ صدر مملکت کی تجاویز کی روشنی میں بجلی کی تقسیم کی ذمہ دار کمپنیوں کے معاملات کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور ان میں اصلاحات لانے کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کرکے’ اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے تاکہ حقیقتاً وہ مقاصد حاصل کیے جا سکیں’ جن کے پیش نظر یہ کمپنیاں بنائی گئیں۔ اگر حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آنی اور صارفین کی شکایات کا ازالہ بھی ممکن نہیں’ تو ظاہر ہے ان کمپنیوں کا بنایا جانا بے فائدہ رہا۔ بہرحال توقع ہے کہ توجہ دی جائے تو حالات بہتر ہو جائیں گے۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی