کراچی (جیوڈیسک) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ معیشت میں ساختی کمزوریاں برقرار ہیں جو ملک کی مجموعی معاشی کارکردگی پر اثر انداز ہورہی ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق صنعتوں میں توانائی کی قلت بدستور سنگین مسئلہ ہے، پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ نہیں ہورہا، ٹیکس محاصل کی نمو سست روی کا شکار ہے جبکہ خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے مالیاتی وسائل پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور اداروں کی تشکیل نو اور نج کاری کے پروگرام بھی توقع کے مطابق رفتار نہیں پکڑسکے۔ رواں مالی سال کے بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی کے 4.9 فیصد کے ہدف سے زائد رہنے کی توقع ہے، معاشی ترقی کی شرح نمو گزشتہ سال سے زائد رہے گی۔
رواں مالی سال کنزیومر پرائس انڈیکس کی شرح 8 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں چار سے پانچ فیصد کی حد میں رہے گی۔ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی سے ملک کے درآمدی بل میں اب تک 69 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تک کی بچت ہوچکی ہے۔ مالی سال 2014-15 کی پہلی ششماہی کے لیے معاشی جائزہ رپورٹ میں اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ پاکستان میں صارفین کو منتقل کیا گیا جس سے مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مہنگائی کی رفتار آئندہ بھی پست رہنے کی توقع ہے۔
مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران بیرونی کھاتے میں یکدم بہتری واقع ہوئی عالمی تیل کی قیمتوں میں اچانک کمی کے ساتھ ترسیلات زر کی مستحکم نمو نے مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں جاری کھاتے کے خسارے کو قابو میں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ آئی ایم ایف سے رقوم کی اقساط کی موصولی اور بین الاقوامی منڈی میں صکوک کے کامیاب اجرا نے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو اطمینان بخش سطح تک پہنچادیا۔
جس کے نتیجے میں شرح مبادلہ میں آنے والے استحکام اور حکومت اور حکومت کی جانب سے تیل کی پست عالمی قیمتوں کے فائدے کی صارفین کو منتقلی نے گرانی کی توقعات کم کردی بلکہ کنزیومر پرائس انڈیکس بھی ایک دہائی کی پست ترین سطح تک نیچے آگئی اور اسٹیٹ بینک نے نومبر 2014 کے دوران اپنی زری پالیسی موقف میں جون 2013 کے بعد پہلی مرتبہ نرمی کی۔ مالیاتی اعدادوشمار سے ظاہر ہے کہ مالی سال 2015 کی پہلی ششماہی کے دوران اخراجات کی نمو کی بنا پر حکومت پانے خسارے پر قابو پانے میں کامیاب رہی نیز جب بیرونی رقوم میں اضافے سے بینکاری نظام خصوصاً اسٹیٹ بینک پر بوجھ کم ہوا تو مالیاتی آمیزہ بھی بہتر ہوگیا۔
نتیجے کے طور پر موجودہ آئی ایم ایف پروگرام میں پہلی بار پاکستان نے آخر دسمبر 2014 کے تمام مقداری اہداف پورے کرلیے۔مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں 2.3 فیصد کی متعدل نمو دیکھی گئی جو گزشتہ برس کی اسی مدت کے نصب سے کم ہے۔ توانائی کی مسلسل قلت بالخصوص گیس کی کمی سے ٹیکسٹائل، کاغذ، چمڑے اور شیشے کی صنعتوں میں سرگرمیاں محدود رہیں اور گنے کی کرشنگ میں تاخیر سے سال کی پہلی ششماہی میں چینی کی پیداوار بھی متاثر ہوئی۔ دوسری جانب آٹو انڈسٹری، الیکٹرانکس اور تعمیراتی صنعت سے متعلق اشیا سیمنٹ، فولاد، شیشہ رنگ و روغن اور ربڑ کی مصنوعات کے شعبوں میں نمو دیکھی گئی۔
لوہے ، فولاد اور کوئلے کی عالمی قیمتوں میں کمی سے ان شعبوں کو فائدہ پہنچا۔مالی سال 2014-15 کی پہلی ششماہی کے دوران حکومتی تمسکات میں کمرشل بینکوں کی سرمایہ کاری 667.6 ارب روپے بڑھ کر 4735 ارب روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی۔ اس رجحان کی وجہ سے نجی شعبے کے قرضوں میں کمی واقع ہوئی۔ مالی سال 2014-15 کی پہلی ششماہی میں نجی شعبے کی قرض گیری 222.3 ارب روپے رہی جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 321.3 ارب روپے رہی تھی۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران محاصل کی وصولی بدستور مسئلہ بنی رہی۔ مالی سال کی پہلی ششماہی میں مجموعی محاصل میں صرف 5 فیصد اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ سال ریونیو وصولی 13.9 فیصد زائد رہی تھی۔
اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ مالی سال کی دوسری ششماہی میں سال کے نظرثانی شدہ 2691ارب روپے کے ٹیکس ہدف کو پورا کرنے کے لیے دوسری ششماہی میں ٹیکس وصولیوں میں 24.2 فیصد تک اضافہ کرنا ہوگا جو پریشان کن نظر آرہا ہے۔ ایندھن کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے یہ عمل مزید پیچیدہ ہوجائے گا کیونکہ اس سے پٹرولیم مصنوعات سے متعلق محاصل گھٹ سکتے ہیں۔ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرکے اس کی تلافی کرنے کی کوشش کی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی فروخت بڑھنے سے بھی ٹیکس محاصل کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
مزید یہ کہ حال ہی میں کئی اشیا کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کیے جانے سے بھی محاصل پر کچھ اثر متوقع ہے تاہم یہ اقدامات عارضی ہے ٹیکس اکھٹاکرنے کے نظام میں ساختی مسائل سے نمٹنے کی شدید ضرورت ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2014-15 کی پہلی ششماہی کے اہم مثبت پہلو سال کی دوسری ششماہی میں بھی برقرار رہیں گے خصوصاً بیرونی شعبے میں۔ مالی سال کی دوسری ششماہی میں زرمبادلہ کی کئی رقوم آئی ہیں جن میں اتحادی سپورٹ فنڈ، ایچ بی ایل کے مزید حصص کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی، آئی ایم ایف سے وصولیاں شامل ہیں اور ایشیائی ترقیاتی بینک ، عالمی بینک اور دیگر ذرائع سے مزید رقوم کی توقع ہے۔
سال کے باقی عرصے میں ترسیلات زر کی بھرپور نمو برقرار رہنے کا بھی امکان ہے۔ برآمدی نمو غالباً متعدل رہیگی تاہم تیل کی پست قیمتوں اور کئی اشیا پر ریگولیٹریڈیوٹی کے نفاذ کی وجہ سے ملک کا درآمدی بل تسلی بخش رہے گا۔ توازن ادائیگی میں اس اطمینان سے توقع ہے کہ دوسری ششماہی کے دوران شرح مبادلہ مستحکم رہے گی اور ایندھن کی قیمت کم رہنے سے گرانی کی توقعات بھی سست رہیں گی۔