توانائی بحران کا حل کیا ہے؟

Energy

Energy

پاکستان میں توانائی کی بحران ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس سے پورا پاکستان متاثر ہے، توانائی کی بحران کی وجہ سے پاکستان میں محکمہ واپڈا کھربوں روپے خسارے میں ہے جبکہ 14 سال سے زائد عرصے سے پاکستانی عوام بجلی کے لئے ترس رہی ہے۔ جدید دور میں تمام مشینریاں بجلی کے زریعے چلتے ہیں تو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اب سینکڑوں فیکٹریاں بند ہو چکی ہے جس سے لاکھوں لوگوں کا زریعہ معاش بند ہو گیا ہے، فیکٹری مالکان کے ساتھ ساتھ حکومتی خزانہ کو بھی ٹیکس کی کم موصولی کی وجہ سے معاشی طور انتہائی دشواری کا سامنا ہے، متعد علاقوں میں زرعات و باغات ٹیوب ویل کے زریعے سے آباد ہوتے تھے بجلی کہ عدم فراہمی کی وجہ سے ٹیوب ویل تباہ ہو کے باغات و زرعات کو بے شمار و ناقابل فراموش نقصان پہنچا رہی ہے۔

گھروں میں بجلی کی عدم دستیابی و لوڈ شیڈنگ نے بھی عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے جبکہ سندھ کے سکھر، شکار پور، جیکب آباد و بلوچستان کے جعفر آباد، صحبت پور، نصیر آباد، ڈیرہ بگٹی جھل مگسی، سبی سمیت کافی اضلاع میں گرمی کی درجہ حرار ت 50 سے 55 تک رہتا ہے جہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے کئی جانیں ضائع ہوتے رہتے ہیں سینکڑوں لوگ گرمی کی وجہ سے بے حوش ہوتے ہیں لاکھوں لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں، تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کو بھی کمپیوٹر و دیگر الیکٹرنک اشیاء کو استعمال کرنے کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بحرحال پاکستان میں توانائی کی بحران کی اؤلین زمہ داری تمام متعلقہ حکومتوں کا رہا ہے ان کی من پسند حضرات کی تعیناتی، لاپروائی اور کرپشن کی وجہ سے پاکستان کو توانائی کی شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

حکومت و محکمہ واپڈا کے اعلیٰ افسران نئی اسامیوں کو پر کرنے کے لئے لوگوں سے عام طور 10،10 لاکھ روپیہ کم از کم ایک ملازمت کے لئے بطور رشوت لیتے ہیں، من پسند حضرات کو پرو موشن اور تعینات کرتے ہیں،تو یہ لوگ کرپشن کے زیعے ہی اپنے لاکھوں روپیہ جو بطور رشوت دیا وہ نکالنے کی کوشش ضرور کریں گے اپنے لاکھوں روپیہ وصول کرنے کے لئے خام خواہ ہی کرپشن شروع کریں گے۔ جبکہ ان کی تنخواہ 15 سے 30 یا 50 تک ہوتا ہے۔ تو یہ لوگ لوگوں سے بغیر میٹر کے بجلی چلانے کی صلاح دیتے ہیں تو عوام کو ویسے میٹر کے بعد ماہانہ 3000 روپیہ بل ادا کرنا ہوگا تو واپڈا کا اہلکار ان سے 1000 یا اس سے کم لے گا ہر گھر سے تو 100 گھروں مشتمل ایک کالونی سے کم از کم 100,000 روپیہ ماہانہ ایک لائن مین یا آفیسر کماتا ہے۔

Wapda

Wapda

اسی طرح محکمہ واپڈا کے خزانے میں ایک کالونی کے 100 گھروں میں سے کم از کم ماہانہ 300,000 روپیہ جمع ہونے کا امکان ہو تو واپڈاکی مہربانی سے ان تمام گھروں سے 100,000 روپیہ وصول ہوا جو واپڈا کے اہلکار اپنے جیب میں ڈالتے ہوں، اسی طرح ملک میں 60% سے زائد بڑے بڑے فیکٹریوں، کارخانوں اور اداروں میں بھی بجلی کی چوری جس میں متعلقہ افسر زمہ دار ہوتا ہے کی وجہ سے ماہانہ اربوں روپے جمع ہونے کی امکانات ختم ہو جاتی ہے اور اربوں روپیہ محکمہ واپڈا کے اہلکاران سمیٹ لیتے ہیں مل جل کر کھانے والی پالیسی اپناتے ہیں تو خزانہ کو اسی طرح کھربوں روپیہ کا نقصان ہوتا رہتا ہے۔ بڑے بڑے سیاسی لوگوں سے بھی بل کی وصولی کے لئے بل تک نہیں بھیجتے ہیں تو واپڈا کے خزانے کے پاس پیسے نہیں ہونگے تو مزید توانائی کو پیدا کرنے کے لئے کھربوں روپیہ کی کھپت کیسے پورا ہو سکتا ہے۔

حکومتوں کی لاپروائی یہ رہا ہے کہ اول تو خود یہ لوگ ایسے کرپشن میں براہ راست ملوث ہوئے ہیں سابق وفاقی وزیر بجلی و پانی راجہ پر ویز اشرف نے کھربوں روپیہ میںکر پشن کر کے یہ ثابت کر دیا کہ جس کیے ہاتھ میں موقع آتا ہے اس کو گوانہ بے وقوفی ہے۔ سردار عبد القیوم جتوئی کی بات کی طرح جو پاکستان میں کر پشن نہیں کرتا ہے وہ اپنا خود نقصان کرتا ہے۔ تو اس راجہ نے اپنی نقصان نہیں کیا تو بعد ازاں اسکو پانی و بجلی
کی وزارت سے فارغ کر کے پاکستان میں کرپشن کرنے کے لئے پاکستان کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اب نواز شریف کی حکومت ہے اس میں بھی بجلی کی بحران کا خاتمہ اس صورت میں ناممکن ہے جس طرح یہ لوگ ہر روز میٹنگ کر کے واپڈا کے لاکھوں روپیہ ریفریشمنٹ پر خرچ کر رہے ہیں باتیں صرف کرنے لئے کرتے ہیں۔ پاکستان میں محکمہ واپڈا کو گوادر پورٹ کی طرح چین کے حوالے کر دینا چاہیے تاکہ چین جدید دور کے میٹرز اور جدید نظام ِ وصولی بل کے زریعے محکمہ واپڈا میں کرپشن کا خاتمہ، بجلی کی پیداوار میں سنجیدگی سے کام کرنے کا جلدی آغاز کرے اور کرپٹ لوگوں کو سیدھا راستہ دکھائے ساتھ ساتھ ایماندار اور میرٹ پر لوگوں کو بھرتی بھی کرے تاکہ محکمہ میں ایماندار اور قابل لوگ آجائیں اور زمہ داریوں کو ایمانداری سے نبھائیں۔

پاکستان کی ماہرین اور پاکستان کے ادارے سے محکمہ واپڈا کی درستگی نا ممکن ہے۔ یہ ماہرین اور ادارے کے بڑے بڑے افسران راجہ پرویز اشرف کے جیالے و صلاح کار بھی ہیں۔ وہی لوگ اب میاں برادران اگر میاں صاحب پاکستان کو روشن کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان میں محکمہ واپڈا کو چین کے حوالے کرنے میں کے صلاح کار بنیں گے تو وہی کا وہی سلسلہ جاری رہئے گا بجلی کو لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہو سکتی۔ میاں برادران اگر مخلصی کرتے ہیں تو محکمہ واپڈا کو چینکے حوالے کرنے میں ایک دن بھی تاخیر نہ کریں۔

ورنہ ان پاکستانی ماہرین اور پاکستانی واپڈا والوں نے گز شتہ ایک دہائی سے مسئلہ حل نہیں کیا ہے تو اب کیا خاک کریں گے؟ چین پر اس لئے زور دے رہا ہوں کہ چینی لوگ اور چینی افسران کرپشن نہیں کرتے ہیں، پاکستانیوں سے کئی گناہ زیادہ محب وطن ہوتے ہیں اور ایماندار بھی ہوتے ہیں۔ درحقیقت توانائی بحران کا حل بھی یہی ہے کہ اب محکمہ کو چین کے حوالے کر کے بجلی کی کھپت کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ اس معاملے میں ٹانگ ضرور اٹھائے گا مگر اس کے منہ پہ تمانچہ مارنا میاں برادران کی زمہ داری ہے۔ ورنہ راجہ رینٹل کی طرح ہر سال کو دسمبر کا مدت دینا بہت آسان ہے حل کرنا نا ممکن ہے۔

Asif Longva

Asif Longva

تحریر : آصف لانگو