وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں موبائل بنانے والی پہلی فیکٹری لاہور میں قائم ہو چکی جسکے بعد پاکستان موبائل بنانے میں بھی خود کفیل ہو جائیگا جبکہ بھنگ کے پودے سے دھاگہ بھی تیار کر لیا گیا جس سے 50 سے 60 ملین ڈالرز کی ایکسپورٹ ہو سکے گی، آئندہ سال5لائسنس جاری کر دیے جائیں گے۔اصل میں بھنگ ہے کیا پہلے اس بارے میں جان لیتے ہیں بھنگ بنیادی طور ایسا پودا ہے جو اپنے جینز کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرتا اور اسکی تقریبا تین قسمیں ہیں انڈیکا،سیٹوا اور روٹ رے ان میں انڈیکا بھارتی بھنگ،سٹیوا افریقہ اور روٹ ریل کا تعلق سویت یونین کی ریاستوں سے ہے جہاں کا موسم انتہائی سرد ہوتا ہے اور خوش قسمتی سے پاکستان میں بھنگ کی دو قسمیں انڈیکا اور سٹیوا پائی جاتی ہیں یہ خود رو پودا ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اکثر علاقوں میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔
انتہائی مفید ہونے کے باجود ہم اس پودے کو صرف نشہ کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں درباروں، مزاروں اور قبرستانوں سمیت پہلوانوں کے اکھاڑوں اور ڈیروں میں اس بھنگ کی رگڑائی کرنے اور پینے والے کثرت سے ملتے ہیں جنہیں ہم اپنی زبان میں ملنگ یا بھنگی بھی کہتے ہیں ملک میں اتنی زیادہ تعداد میں بھنگ کے پودے ہونے کے باجود اس سے آج تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیاسوائے بھنگی پیدا کرنے کے۔ مفت میں پیدا ہونے والے اس پودے کو آسیب اور سانپوں کی آماجگاہ سمجھنے والوں نے اسے ہمیشہ تلف ہی کیا حالانکہ اس پودے کو گھروں کی خوبصورتی، ادویات کی تیاری اور انڈسٹری میٹیریل کے طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
مذہبی کتابوں کے ساتھ ساتھ چائینہ اور بھارتی حکمت کی کتابوں میں بھنگ کا بڑا ذکر ہے سومرس کا ایک اہم جز بھنگ تھاجو روحانی،تخیلاتی اور تصوف کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ایک دور میں اس سے رسہ،کپڑا اور جہازوں کے بادبان بھی تیار کیے جاتے تھے ادویات میں اس پودے کا استعمال لازمی جز ہوتا تھا اور خاص کر زخم کو ٹھیک کرنے میں اسکا کا کوئی ثانی نہیں تھا 1940میں بھنگ کو بین کیا گیا تھااس سے قبل بھنگ کے پودے سے ڈیزل بنایا جاتا تھا سر بریڈ فورڈکی کار کی پوری باڈی بھنگ کے پودے سے تیار کی گئی جسے ضربے لگانے سے ڈنٹ بھی نہیں پڑتے تھے اور وہ گاڑی بھنگ سے تیار کیے گئے ڈیزل سے ہی چلتی تھی بھنگ کا یہ پودہ پانچ ہزار سے زائد ادویات میں استعمال ہوسکتا ہے اور شائد اس سے زیادہ بیماریوں کا علاج بھی اسی میں ہے 1980کے بعد سیمسن نے کینڈا میں بھنگ کے پودے کے حوالہ سے شعور پیدا کیا انکا کہنا تھاکہ اس سے بہتر دوائی کوئی اور نہیں ہوسکتی اور انہوں نے بھارت میں جاکر اپنے کینسر کا علاج بھی اسی پودے سے کیا اور بعد میں جب انہوں نے کینڈا میں اس پودے کی کاشت کی تو ادویات ساز کمپنیوں کی وجہ سے انکے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا کیونکہ فارماسیوٹیکل کمپنیاں مہنگا علاج دریافت کرتی ہیں تاکہ انکی آمدن میں اضافہ ہوتا رہے اب دنیا میں بھنگ کے حوالہ سے ایک تحریک شروع ہوچکی ہے کہ اسے علاج کے لیے استعمال کیا جائے۔
بھنگ کے پودے میں تمام منرل،پروٹین اور اومیگا ز شامل ہیں اس کا تیل کوکنگ آئل کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے دنیا میں اب بھنگ کے پودے سے اینٹیں بن رہی ہیں جس سے گھر تیار ہورہے ہیں جو گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم ہونے کے ساتھ ساتھ فضا سے کاربن کے زرات کو بھی جذب کررہے ہیں بعض ممالک جہاں ریڈیئشن کے مسائل تھے وہاں پر بھنگ کے پودے پر تجربات کیے اور اس پودے میں ان مقناطیسی لہروں کو جذب کرنے کا مادہ موجود تھا اور جن علاقوں کے بارے میں سوچا جارہا تھا کہ وہ سالوں لیں گے مگر ان پودوں کی وجہ سے وہ بہت جلد صاف ستھرے ہوگئے بھنگ کے پودے سے فیٹس،دودھ اور کریم بھی بنتی ہے جس میں تمام منرلز موجود ہوتے ہیں ہم آجکل جو کپڑے پہنتے ہیں وہ کیمیکل سے تیار کیے جاتے ہیں جو ہماری جلد پر اپنے اثرات بھی چھوڑتے ہیں جبکہ بھنگ کے پودے سے تیار کیا جانے والا کپڑا موسم کی مناسبت سے بہت اچھا ہے بلکہ جلد کے لیے بھی فائدہ مند ہوتا ہے حکومت نے بھنگ کی کاشت کے لیے پشاور جہلم اور چکوال کے علاقوں کا انتخاب کیا ہے جہاں پر سرکاری سرپرستی میں بھنگ کی کاشت کی جائیگی اور پھر اسکو ادویات میں استعمال کیا جائیگا اور اب اس سے کپڑا تیار کرنے کے حوالہ سے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے کام شروع کردیا ہے اور اس وقت بھنگ کی کاشت سے دنیا بھر میں 25ارب روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔
اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک میں بھنگ کا طبی لحاظ سے استعمال ممنوع نہیں ہے جن ممالک میں بھنگ کی کاشت قانونی طور پر جائز ہے ان میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ اسٹریلیا،برازیل،کینڈا،فن لینڈ،اٹلی،جرمنی،نیدر لینڈ،نیوزی لینڈ،ہالینڈ، پرتگال، تھائی لینڈ اورسری لنکاسمیت بہت سے ممالک شامل ہیں مگر امریکہ میں ابھی بھی یہ منشیات کی فہرست میں شامل ہے۔ملک میں لوگ بھنگ کو کچھ بھی سمجھیں مگر پاکستان کے علاقے وادی تیراہ میں 6سے 7فٹ لمبے اس پودے کو ایک مقدس بوٹی،حکمت کی بوٹی اور زندگی کا درخت بھی کہتے ہیں اس علاقے میں صدیوں سے اسکی کاشت کی جاتی ہے۔
بھنگ بارانی فصل ہے عام طور پر برفانی اور پہاڑی علاقوں میں پیدا ہوتی ہے مادہ پودے کی پھول دار شاخوں کی رطوبت سے چرس بنتی ہے اور پھر یہی چرس پورے ملک میں سپلائی کی جاتی ہماری پولیس اور سیاستدان چرس کی سپلائی میں براہ راست نہیں تو اپنے کارندوں کے زریعے ضرور ملوث ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے گلی محلوں، تعلیمی اداروں میں سرے عام چرس پی جارہی اور تو اور ہماری جیلوں میں بھی چرس فروخت ہوتی ہے حکومت نے بھنگ کی کاشت کو قانونی حیثیت دیکر ایک تاریخی کا م کیا جس سے نہ صرف اسکی کاشت سے اربوں روپے کمایا جاسکتا ہے بلکہ اسکے دھاگہ سے اب کپڑے بھی تیار ہوا کرینگے اور بھنگی کپڑے سے ہم بجلی اور گیس کی بچت بھی کریں گے کیونکہ یہ کپڑا گرمیوں میں ٹھنڈا او رسردیوں میں گرم ہوتا ہے جسکی وجہ سے ہم گرمیوں میں ائر کنڈیشنڈ اورسردیوں میں ہیٹر کا استعمال بھی کردینگے اور اس تمام بچت کا سہرا فواد چوہدری کے سر ہوگا کیونکہ انہوں نے ہی وزارت سائنس کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی ہے جسکے بعد ملک میں انڈسٹری کا سیلاب آنے کو ہے۔