توانائی بحران، نجات دہندہ منصوبہ

Energy

Energy

تحریر : عمران خان
توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک اپنے ہر قسم کے وسائل کو بروئے کار لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ایک طرف جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لا رہے ہیں تو دوسری طرف کمزور اور پسماندہ ممالک پر جبری قبضہ کر کے ان کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ جیسا کہ عراق پر امریکی قبضہ کے بعد اس کے تیل کے کنوئوں سے وسیع پیمانے پر اسرائیل اور برطانیہ کو نوازا جا رہا ہے۔ عراقی تیل کے کنوئوں کے تمام ٹھیکہ جات برطانوی کمپنیوں کو دیئے گئے ہیں۔جبکہ ترقی پذیر ممالک یا تو اپنے معدنی ذخائر پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں یا دیگر ممالک سے معاہدات کے ذریعے تیل، گیس حاصل کر رہے ہیں۔

پاکستان بھی ان ترقی پذیر ممالک کی صف میں کھڑا ہے جو اپنی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریا ت کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ممالک پہ انحصار کرنے پر مجبور ہے۔حالانکہ پاکستان کو اللہ رب العزت نے ہر طرح کے بیش بہا وسائل سے نوازا ہے لیکن حکومتوں نے کبھی بھی ان وسائل سے مستفید ہونے کے لیے منصوبہ بندی نہیں کی بلکہ ہمیشہ ہی یہ وسائل بیرونی کمپنیوں کے تصرف میں دیکر فی الوقتی فوائد حاصل کرنے کا آسان راستہ اختیا ر کیا ۔ایسی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں موجود تیل ، سونا، تانبا اور کوئلہ کے قیمتی ذخائر سے تاحال فائدہ نہیں اٹھایا جاسکااور نہ ہی توانائی کے بحران کا مسئلہ حل ہوا۔ بیرونی کمپنیوں پر ضرورت سے زیادہ انحصار اور غیرملکی ڈکٹیشن کی وجہ سے وطن عزیز کے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے چلے گئے اور آج حالت یہ ہے کہ پاکستان کے جن علاقوں میں بجلی نہیں پہنچی وھاں موبائل کے نیٹ ورک کام کرتے ہیں ،پینے کا صاف پانی تو میسر نہیں لیکن کوک اور پیپسی وھاں بھی ملتی ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی بہتات ہے لیکن گیس و پٹرول کی شدید قلت ہے۔ ہرگھر میں الیکڑانکس مصنوعات کثیر تعداد میں موجود ہیں لیکن ان کے استعمال کے لیے بجلی میسر نہیں ۔ توانائی کے شدیدبحران کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ نگار اور بیوروکریسی 2012سے خطرناک نتائج کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔دوسری طرف جب بھی کسی عوام دوست حکومت نے توانائی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے منصوبہ بندی کی تو ان پر عملدرآمد روکنے کے لیے بڑی طاقتوں نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیا۔

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ اکثر منصوبہ جات کی ابتدائی تجاویزپاکستانی تھنک ٹینکس کے بجائے طالب علموںیا متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے پیش کی گئیں۔ پن بجلی پیدا کرنے کامنصوبہ ، کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کی تجویز انجنیئرنگ کے طالب علموں نے پیش کیں ۔گیس پائپ لائن کی تجویز بھی ایک نوجوان سول انجنیئر ملک آفتاب خان نے پیش کی ۔ملک آفتاب خان کی تجویزکی روشنی میں پاکستان اور ایران کی حکومتوں کے درمیان “پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ”تیا ر پایا۔اپنی اہمیت و افادیت کے اعتبار سے یہ منصوبہ اتنا اہم ہے کہ اسے امن پائپ لائن پراجیکٹ کا نام دیا گیا ۔ عوامی فلاح اور توانائی کی کمی پوری کرنے میں سنگ میل کی حیثیت رکھنے والا یہ منصوبہ نصف سے زائد مکمل ہوچکا ہے۔ پاکستان کو اس وقت چار ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے یہ منصوبہ اس کمی کو بطریق احسن پوری کرسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی دور حکومت میں پاکستان کے دبائو پر ایران نے اپنے حصے کی تعمیر ریکارڈ مدت میں مکمل کی، موجودہ حکومت بھی عوامی اور جمہوری حکومت ہے، جو کہ عوامی فلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے ریکارڈ مدت میں اپنے حصے کی لائن تعمیر کرسکتی ہے۔ اس پائپ لائن کی تعمیر سے حکمران جماعت ان الزامات کو بھی رد کرسکتی ہے کہ حکمران جماعت پر مسلکی رنگ غالب ہے ، یا کسی عرب ملک کے زیر دبائو ہے، یا امریکی ڈکٹیشن پر کاربند ہے، یا پاکستان سے زیادہ بھارتی تحفظات کو پیش نظر رکھتی ہے۔ پائپ لائن کی تعمیر و دیگر حوالوں سے بلوچستان اور سندھ کے پسماندہ عوام کے لیے اس منصوبہ میں روزگار کے وسیع مواقع بھی موجود ہیں۔

Pakistan Gas Pipeline

Pakistan Gas Pipeline

پاکستان میں موجود گیس پائپ لائن مین ہوگی اور اس کے بعد اگر کوئی بھی ملک (چین، افغانستان، انڈیا) اس پائپ لائن سے گیس حاصل کرتا ہے تو ٹرانزٹ قوانین کی مد میںپاکستان کووسیع پیمانے آمدن ہوگی ۔ چین کی شمولیت کے بعد پاکستان کو ٹرانزٹ کی مد میں اتنی رقم حاصل ہوگی کہ پاکستان کو حاصل ہونیوالی گیس تقریباً مفت ہوگی۔علاوہ ازیں ایران کی جانب سے بجلی فراہم کرنے کی آفر بھی موجود ہے، ایران پہلے سے ہی بلوچستان کے کئی علاقوں کو بجلی کی مفت سپلائی جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے علاوہ سرحدی علاقوں میں ایران نے نئے پاور پلانٹس اسی مقصد سے ہی لگائے ہیں کہ ان سے حاصل ہونے والی بجلی پاکستان کو فراہم کی جائے، اس حوالے سے متعدد بار پیش کش بھی کرچکا ہے۔ حکومت پاکستان بلوچستان کے ان دورافتادہ علاقوں کی محرومیوں کو بھی پیش نظر رکھے۔ اگر موجودہ حکومت اس پیش کش سے فوری فائدہ اٹھا کر بلوچستان کے ان دور افتادہ علاقوں تک بجلی فراہم کرتی ہے تونہ صرف ان کا احساس محرومی کم کرنے میں مدد ملے گی، بلکہ اس احساس محرومی کے نتیجے میں جنم لینے والی شدت پسندی کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ اپنی حیثیت ،اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے اتنا جامع ہے کہ سٹریجک سٹڈیز کے اداروں نے اس منصوبہ کو ایشین ٹائیگر بننے کی جانب پہلا قدم قرار دیا ہے۔

ایران پائپ لائن کے ذریعے ترکی اور آرمینیا کوبڑی کامیابی سے گیس فراہم کر رہا ہے۔ وطن عزیز کے نام نہاد دوست جو چاہتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ کاسہ لیسی کا شکار رہے ، وہ سب سے زیادہ کوشش کررہے ہیں کہ یہ منصوبہ کسی بھی طور پایہ تکمیل تک نہ پہنچے۔ڈالر و ریال کی محبت میں گرفتار بعض خودغرض اور ناعاقبت اندیش ،مخصوص ذہنیت کے مالک عناصر بھی حیلے بہانوں سے منصوبے کے خاتمے کیلئے سرگرم ہیں،جوکہ پاکستان اور پاک عوام کے خیر خواہ نہیں ہیں۔پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پر بات چیت کا آغاز نوے کی دھائی میں ہوا لیکن اس وقت امریکہ نے اس منصوبہ کے خلاف اتنا زور صرف نہیں کیا ۔ تقریباً 17سال گزرنے کے بعد جب پاکستان میں توانائی کا بحران شدید ہوگیا اورپاکستان کے لیے یہ منصوبہ ناگزیر ہوگیا تو ایسے وقت میں امریکہ و دیگر دور کے دوست نما دشمنوں نے اپنا ردعمل شدید کردیا ہے ۔بنیادی طور پر اس پالیسی کی بھی دو وجوہات ہیں اول یہ کہ نام نہاد خیرخواہ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان کا اس منصوبے پر زیادہ سے زیادہ توانائی اور وقت صرف ہو اور جب اس منصوبے کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے آثار واضح ہوں تو پاکستان کو اس منصوبے سے باز رکھا جائے۔ اسی دبائو کے زیراثر ہی جب پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ساٹھ فیصد مکمل ہوچکا ہے تو ”تاپی” ”کاسا” جیسے منصوبوں سے عوام کو تسلیوں کا لولی پوپ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کیا حکومت اور ماہرین پر یہ حقیقت عیاں نہیں ہے کہ افغان سرزمین خلفشار و انتشار کا شکار ہے اور امن و استحکام سے کوسوں دور ہے۔ امریکہ و بھارت، اسرائیل سمیت دیگر پاکستان دشمنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے، جس ملک کی فضا میں پاکستان کا ہیلی کاپٹر محفوظ نہیں وہاں سے آنے والی پائپ لائن یا ہائی وولٹیج تاریں کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ باالفاظ دیگر جیسے آج پاکستان کے دریائوں کا پانی بھارتی تصرف میں ہے، اسی طرح مستقبل میں توانائی ذخائر کا راستہ بھی ناقابل اعتبار قوتوں کے تصرف میں ہوگا۔آئے روز افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے خلاف الزامات عائد کئے جاتے ہیں،حالانکہ افغانستان میں اشرف غنی کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان میں شادیانے بجائے گئے تھے کہ پاکستان دوست حکومت برسراقتدار آئی ہے، مگر اسی دوست حکومت کے دور میں نہ صرف طورخم بارڈر پر میجرعلی چنگیزی جیسے نڈر افسروں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا ، بلکہ پاکستان میں سرگرم دہشتگردوں کو پہلے سے زیادہ محفوظ اسرائیلی و بھارتی شیلٹر میسر آئے۔

Energy Crisis

Energy Crisis

سوال یہ ہے کہ حالات کے اتار چڑھائو میں توانائی کا یہ روٹ طالبان،داعش،بھارت نواز دہشتگردوں، اسرائیلی پراکسی،امریکی عناصراور خود پاکستان مخالف افغان عناصر سے کس حد تک محفوظ ہوگا۔ لہذا ترکمانستان افغانستان پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن منصوبے اور کرغزستان، پاکستان، قازقستان،افغانستان بجلی منصوبے سکیورٹی خدشات کا شکار رہیں گے۔ خدانخواستہ کسی ایمرجنسی ،خاص طور پر جب حالت جنگ میں ہوں تو دشمنوں کیلئے پاکستان کی توانائی کی سپلائی لائن کاٹنا آسان ترین ہوگا۔ چنانچہ ان امور کے پیش نظر موجودہ حکومت کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرکے عوام اور پاکستان دوستی کا ثبوت دینا چاہیئے۔ کوئی بھی جب حالت جنگ میں ہو تو تیل و دیگر توانائی ذرائع کی بلا تعطل فراہمی اس کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، جوکہ صرف ایران کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔

پاک ایران گیس منصوبہ پر گزشتہ 17سال سے کام جاری ہے اور تمام تر معاملات طے پا چکے ہیں جبکہ ترکمانستان سے ہونیوالے معاہدہ کو ابھی عملی شکل میں لانے کے لیے بھی وسیع عرصہ درکار ہوگا ۔ ترکمانستان سے آنیوالی گیس پائپ لائن سے 42فیصد پاکستان ، 42فیصد انڈیا اور 16فیصد افغانستان کو حاصل ہوگی ۔ ترکمانستان گیس فیلڈ میں گیس کے ذخائر بھی کم ہیں جبکہ ایران کے سائو تھ پارس گیس فیلڈ میں گیس کے ذخائر بہت زیادہ ہیںجن میں آئندہ 100سال میں بھی گیس کی کمی کا کوئی اندیشہ نہیں۔ عوام اور صنعت کاروں میںبھی غم وغصہ کی شدید لہر پائی جارہی ہے کہ بنیادی اہمیت کے حامل اہم ترین منصوبے کو مکمل کئے بغیر ناقابل عمل منصوبوں کی تسلیاں کیوں جاری ہیں۔ایران کے ساتھ گیس و بجلی کے ان کامیاب معاہدات کے بعد پاک ایران ترکی ٹرین سروس پر بات چیت بھی جاری ہونے لگی ہے، جو کہ خطے میںعوامی روابط اور دوستی میںسنگ میل ثابت ہوگی۔حکومت کو چاہیے کہ اللہ اور پاکستانی عوام کی مرضی و منشاء پر اور پاکستان کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔اگر توانائی کے معاہدے عوامی ضروریا ت کے تحت کئے جا رہے ہیں تو ان معاہدات میں عوامی ترجیحات کو فوقیت دینی چاہیے۔

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : عمران خان
E-mail:.imranviews@gmail.com