شکر ہے کہ اُرود کے نفاذ کے معلق ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ وزیر ہائوس سے، مورخہ تین جون ٠٢٠٢١ء کو ایک آڈر جناب محمد اعظم خان، سیکرٹیری وزیر اعظم نے جاری کیا۔ اس آڈر میںکہا گیا ہے کہ آ یندہ جتنے بھی پروگرام، وزیر اعظم صاحب کے لیے ترتیب دیے جائیں اس کی کاروائی قومی زبان اُردو میں ہوا کرے گی۔ اس آڈر کی نکلیں تمام متعلقہ حضرت کو ارسال کر دی گئیں ہیں۔ جن میں تمام فیڈرل سیکر ٹیرز،ایڈیشنل سیکر ٹریز، تمام چیف سیکر ٹیرز اور ملٹری سیکرٹیری وغیرہ شامل ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتاکہ یہ آڈر بھی انگلش کے بجائے قومی زبان اُردو میں جاری کیا گیا ہوتا!
اگر وزیر اعظم عمران خان صاحب قومی زبان اُردو کے حکومتی اداروں میں نفاذ کی رکاوٹ کو بھی دور کر دیں تو یہ وزیر اعظم کا تاریخی کارنامہ ہو گا۔ وہ رکاوٹ یہ ہے کہ نوکر شاہی کے لیے بھرتی ہوتے وقت انگلش زبان کے میں امتحانات ہیں۔ یہ مقابلے کی امتحا نات جو انگلش زبان میں لیے جاتے ہیں ان کو بھی قومی زبان اُردو میں کر دیا جائے۔ تو حکومتی اداروں میں اُردو کے نفاذ کی رائیں کھل جائیں گے۔ اس طرح کرنے سے تعلیم میں قومی زبان کو عزت ملے گی۔جب عزت ملے گی تو تعلیم بھی قومی زبان اُرود میں دی جانے لگے گی۔ عزت کے حصول کے لیے سارے انگلش دان، اُردو پڑھنا، اُردو لکھنا اور روز مرہ اُردواستعمال کرنا اور برتنا شروع کر دیں گے۔ ملک میںہر طرف اُردو ہی اُردو ہو گی۔ہم جدھر بھی دیکھیں گے اُردو ہی اُردو نظر آئے گی۔ پھر بھارت کی معروف شاعرہ محترمہ لتا حیا جو اُردو کی دیوانی ہے، اس کی محنت کا پھل مل جائے گا۔ محترمہ لتا حیا ہنددووں کی اونچی قوم برہمن ہوتے ہوئے بھی ایک عرصہ سے بھارت کے مشاعروں میں کے اُردو سے محبت کے گیت گاتی رہی ہے۔ ان کا ایک شعر ہے:۔
میں ہندی کی بیٹی ہوں مجھے اُردو نے پالا ہے۔ اگر ہندی کی روٹی ہے تو اُردو کا نوالہ ہے۔
خیر قومی زبان اُردوسے محبت کی وجہ سے میرے یہ جذبات ہیں جو زیر قلم آ گئے۔ اُردو دنیا اور براعظیم میں بولی جانے والی ایک بڑی زبان ہے۔یہ تحریک پاکستان کی زبان ہے۔ اسی لیے بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ڈھاکا مشرقی پاکستان کی تقریر میںفرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہو گی۔ صوبے اپنے اپنے صوبوں میں اپنی مقامی زبانیں رائج کر سکتے ہیں۔ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق ١٩٥٦ء ء کے متفقہ آئین پاکستان میں اُردو کو قومی زبان بنانا تسلیم کیا گیا تھا۔ گو کہ مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ اس کے بعد ٩٧٣اء کے آئین میں بھی قومی زبان کو سرکاری زبان بنانے کے لیے کہا گیا۔ جیسے سیاست دانوں نے ١٩٧٣ء کے اسلامی آئین پربھی آج تک عمل نہیں کیا اسی طرح قومی زبان اُردو کو بھی رائج کرنے میں روڑے اٹگائے گئے۔
جماعت اسلامی نے آف شور کمپنیوں کے خلاف کاروائی کے لیے سپریم کورٹ میں مقدمہ داہر کیا ہوا ہے۔ اسی طرح اُردو کو قومی زبان بنانے کے لیے بھی سپریم کورٹ میں مقدمہ داہر کیا تھا۔ ایک عرصہ بعد عزت ما آب جناب جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب نے سپریم کورٹ سے اُردو کے نفاذ کے لیے آڈر جاری کیے۔ مگر پھر بھی بیروکریٹس نے اس آڈر پر بھی عمل در آمد نہیں ہونے دیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کے لیے بھی درخواستیں بھی داہر کی گئیں ہیں۔ سارے ملک میں جماعت اسلامی نے تحریک نفاذ اُردو کے لیے تحریکیں بنائی ہوئی ہیں۔ یہ نفاذ اُردو کی تحریکیں دن رات کوششیں کرتی رہتی ہیں۔ کبھی عدالتوں میں درخواستیں ،کبھی سیاست دانوں سے ملاقاتیں، کبھی سیمنار، کبھی مظاہرے، کبھی پرنٹ میدیا میں مضامین اور کبھی تھنک ٹینکس میں ڈسکشنز، غرض طرح طرح اربابِ اقتدار سے مطالبات کرتے رہیں ہیں۔ کہ جب قائد اعظم کا فرمان ہے۔
آئین میں اُرود کے نفاذ کے لیے کہا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہوا ہے۔پھربھی بیروکریٹس عدالتی فیصلہ کے باجود اُردو کو قومی اور تعلیمی زبان بنانے میں رکاوٹ بنے رہے۔اس میں سب سے بڑا سیاست دانوں کا قصور ہے ۔ ان کے ایک اعلان سے اُردو کا نفاذ ہو سکتا تھا جو یہ نہ کر سکے۔ نون لیگ،پیپلز پارٹی اوراب پی ٹی آئی اُردو کے نفاذ کے بارے میں کمیٹی کمیٹی کھیلتیں رہیں۔ اب کیا وزیر اعظم عمران خان کے ایک آڈر سے یہ کام ہونے نہیں جا رہا؟ ہم وزیر اعظم عمران خان سے درخواست کرتے ہیں کہ اس قومی معاملہ میں تاریخی قدم اُٹھائیں۔ قاعد اعظم کے فرمان، آئین کی پاسداری، سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل اور عوام کی خواہشات کو سامنے رکھتے ہوئے کمیٹی کیمیٹی چھوڑ کر اُردو کو قومی زبان بنانے کا ایک اور آڈر جاری کریں۔ ساتھ ساتھ اس آڈر پر عمل درآمد شرو ع کرائیں۔ مہنگاہی کی ماری ہوئی عوام کو اگر یہ تحفہ دے دیں، تو شاید بھوک بھی برداشت کر لے گی۔ اس کے ساتھ اے کاش کی ہماری سپریم کورٹ بھی ایک آڈر جاری کرے کہ آیندہ سپریم کورٹ کے ساری کاروائی اُردو میں ہو گی۔ سپریم کورٹ ٢ اپنے فیصلے اُردو میں لکھے گی۔ وکیل حضرات مقدمے اُردو میں لڑیں گے۔اس طرح ملک میں اُردو کے حق میں ایک مہم چل پڑے گی۔لوگ موبائل، فیس بک، دکانوں کے سائین بورڈ، خط و کتابت یعنی ہر قسم کی کاروائیاں اُردو میں کرنے لگے گے۔ پھر اُردو میڈیم کے کے گلی کوچوں کے تعلیمی ادارے بھی اُردو میں تعلیم دینے کی طرف راغب ہونگے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو آمین۔