کئی ماہ بیشتر دھرنوں کے دوران جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے انقلابی دھرے میں پرجوش اندازمیں ”گو نواز گو”کا نعرہ لگایا تھا شایدوہ اس وقت خود نہیں جانتے تھے یہ نعرہ ایک تحریک بن جائے گا اور اپنے پرائے سب احتجاج کے دوران حلق پھاڑکر ”گونوازگو”کا نعرہ لگاتے پھریں گے۔۔۔اور تو اور بچوںکے ہاتھ بھی ایک شغل سا آگیا ہے وہ بچے جو مطلب بھی نہیں جانتے وہ بھی ہاتھ اٹھا اٹھاکر ”گو نواز گو”کہتے نظرآتے آئے شاید یہ نعرہ لوگوںکے حواس پر چھا گیاہے پیر صابر شاہ کے بعدسردار ایاز صادق کی الیکشن کمیشن پیشی کے دوران ن لیگ کی ایک کارکن کی مت ماری گئی وہ بھی ”گو نواز گو”کا نعرہ لگانے کے بعد گھیسانی سے ہوکر کھسک گئی۔
دھرنوں کے زمانے میں وفاقی و صوبائی وزراء عوامی تقریبات میں جانے سے گریزاں نظر آتے تھے وزیراعظم ،وزیر اعلیٰ اور ان کے رفقاء جہاں بھی جاتے ”گو نواز گو”کا نعرہ بدنصیبی کی طرح ان کا پیچھا کرتارہاہ وزیرآباد میں سیلاب زدگان کی امدادی تقریب میں بھی یہ نعرہ لگا تو مقامی ایم پی اے توفیق بٹ آپے سے باہر ہوگئے انہوںنے احتجاج کرنے والوںکو گھونسوں اور مکوںپر رکھ لیا متعددکو مار مارکران کا بھرتہ بن ڈالا۔۔۔حکمرانوںکے ایک لاڈلے فرزندنے دھمکی دی ہے کہ اب ”گونوازگو”کا نعرہ لگانے والوںسے یہی سلوک کیا جائے گا مریم نوازکے خیالاتِ عالیہ بھی اس سے ملتے جلتے ہیںلیکن عمران خان کا کیا کریں جن کا کہناہے
گو نواز گو”کا نعرہ جمہوریت کے عین مطابق ہے خادم ِ اعلیٰ بھی تولاہورمیں ”گوزرداری گو ریلی” نکال چکے ہیں جس میں انہوںنے زربابا کو بھاٹی چوک میں الٹا لٹکانے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔۔۔ویسے اس قوم کا عجیب حال ہے PIA کی فلائٹ لیٹ ہو یا ٹرین تاخیر کا شکار، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو یا پھر CNG نہ ملے یا بجلی کے بل زیادہ آئیں لوگ ”گو نواز گو”کا نعرہ لگاکر اپنے غیض و غضب کا اظہار کررہے ہیں انہی دنوں ڈاکٹر طاہرالقادری کے انقلابی دھرے میں نواز نامی ایک شخص نے فریادکی کہ میںنے دو شادیاں کی ہوئی ہیں کاروباری مصروفیات کے باعث میں جب بھی گھرلیٹ جاتاہوں دونوں بیویاں جو آپس میں ایک دوسرے کی سوکنیں ہیں مل کر گونوازگو”کا نعرہ لگاتی ہیں میں کیا کروں؟۔۔۔
نہ جانے ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسے کیا مشورہ دیا لیکن درحقیقت یہ نعرہ حکمرانوںکے ضبط کا امتحان بھی ہے اور نوشتہ ٔ دیوار بھی۔۔۔ دیکھئے کب حکمر انوں کی قوت ِ برداشت جواب دیتی ہے کیونکہ کہنا آسان ہے اور نعرے لگانا اس سے بھی آسان۔۔۔ہمیں تویوں لگتاہے جیسے حکمرانوں اور دھرنے والوںمیں اعصابی جنگ ہورہی ہے جب قوت ِ برداشت جواب دے دیتی ہے تو اعصاب چٹخنے لگتے ہیں تو گویاکھیل ختم ہو جاتاہے غلام حیدر وائیں شہید کہا کرتے تھے قوت ِ برداشت نہ ہو تو سیاست چھوڑ دینا زیادہ بہترہے سیاست ہے ہی برداشت کا نام۔۔اس میدان میں گرم پائوں اور ٹھنڈا دماغ رکھنے والا بہت کامیاب رہتاہے ۔۔۔اکثرلوگوںکا خیال ہے
گونوازگو”کے نعروںنے حکومت کو ہلاکررکھ دیاہے اس لئے اب حکمرانوںکو جلسوںکا جواباًجلسہ کرنے سے بھی ڈرلگتاہے اس کا توڑ مسلم لیگی کارکنوںنے یہ نکالاہے کہ وہ بھی اب ”گو عمران گو”کے نعرے لگاناشروع ہوگئے ہیں لیکن اس سے تصادم کے خطرات بڑھتے ہی چلے جارہے ہیںسیاست میں مخالفت ایک حد تک ہونی چاہے متحارب سیاسی کارکنوںمیں آئے روز جھگڑے،مارکٹائی اور تصادم کی کیفیت کسی بھی انداز سے اچھی خبرنہیں۔۔۔ خدا خیرکرے یہ تو سیدھی سادھی خانہ جنگی کا ماحول بنتا جارہاہے یعنی جو کام ہمارے دشمن نہ کر سکے ہم خودکرنے پر تلے ہوئے ہیں حکومت میں شامل سیاستدانوں اور پارٹیوںپر بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے
Pakistan
وہ حالات کا صحیح ادراک کریں۔۔ موجودہ حالات میں انتہائی معاملات سے درگذر کریں کیونکہ آج حالات جس نہج پرہیں اس کے ذمہ دار بھی میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی ہے زرداری دور میں مسلم لیگ ن نے اپوزیشن کاحقیقی رول ادا کیا ہوتا تو عمران خان کبھی اتنی بڑی قوت سے ابھر کر سامنے نہیں آ سکتے تھے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا یہ سب سے بڑا المیہ تھا کہ پہلی بار اپوزیشن کا وجود عملاً ختم ہوگیا سب سیاستدان اور پارٹیاں کسی نہ کسی اندازمیں حکومت میں شامل ہوگئیں عوام کے حقوق کی بات کرنے والے بھی مک مکا کی سیاست کی نذر ہو گئے اور پیپلز پارٹی کے ہونہار یا چلتر شریک چیئرمین نے اسے مفاہمت کا نام دیدیا۔۔۔
دنیا بھرکی سیاست میں ایسا سانحہ کبھی رونما نہیں ہوا سیاستدان حکومت کا حصہ ہوتے ہیں یا پھراپوزیشن میں یہ کبھی نہیں ہوا کوئی بیک وقت حکومت میں بھی ہو اور اپوزیشن میں۔ لیکن آفرین ہے پاکستانی سیاسی و مذہبی رہنمائوں پر جنہوںنے ناممکن کو ممکن بنا ڈالا۔۔ مگر جناب!اسے آسا ن سے آسان الفاظ میں مفاہمت نہیں منافقت کہا جاتا ہے۔۔۔درحقیقت اسی منافقت نے مک مکا کے سیاسی کلچرکو فروغ دیاہے اور یہ سلسلہ اب تلک درازہے ۔عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو لیڈر بنانے والے یہی لوگ ہیں جو کسی قیمت پربھی اقتدارسے دستبردارہونے کو تیار نہیں ”گونوازگو”کے نعرے کے پیچھے عوام کا یہی غصہ کار فرما ہے لیکن حکمران کچھ سمجھنے اور سوچنے کیلئے تیارہی نہیں ہیں حالانکہ شعوری اور غیرشعوری طورپر یہ نعرہ پھیلتا جا رہا ہے۔
اس ملک میں ہمیشہ اسلام کا نام لے کر اسلام اورغریبوںکا نام لے کر غریبوںکااستحصال کیا جاتارہاہے شاید اسی لئے آج کا پاکستان اسلامی ہے نہ جمہوری۔۔ اشرافیہ نے قانون کو موم کی ناک بنارکھاہے۔۔۔ایک طرف بھوک سے بلبلاتی عوام ہے جن کے گھر جب بجلی کے بل آتے ہیں تو ایک حشرسا بپاہو جاتاہے۔۔۔سامان کے ساتھ ساتھ سیلابی پانی میں ڈوبے ارمان ۔۔۔حسرت و یاس کی چلتی پھرتی زندہ لاشیں۔۔یا پھر پانی کو ترستے انسان۔۔۔ پیاسے مرتے جانور۔۔۔شہر شہرمظلوموں کے نوحے، نگرنگر غریبوںک ے ہاڑے، فرعون صفت لوگوں کی درندگی۔۔۔ سسکتے بلکتے عوام کی رونگٹے کھڑے کردینے والی کہانیاں۔۔
تارتار آنچل کی بے بسی ۔۔لٹتی عصمتوںکی دہائی اور جابجانا انصافی کی داستانیں بکھری پڑی ہیں یہ لوگ انصاف نہ ملنے پر گو۔۔گو نہ کہیں تو کیا کہیں۔۔۔ایک طرف یہ عالم ِ بے بسی اور بے کسی اور دوسری طرف جاتی عمرہ کے مور کی ہلاکت پر قرب و جوار کے تمام بلی اوربلوںکا” قتل ِ عام”۔۔۔ VIP پروٹوکول اورکلچرکے تحفظ کیلئے ایک لاکھ اہلکاروں کی ڈیوٹیاں۔۔۔وزیر ِاعظم کا 24 کروڑکی بیش قیمت بلٹ پروف گاڑی خریدنا۔۔ 25 لاکھ کے کتے خرید لینا۔۔ اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے موقعہ پر اپنے ملک کے ذاتی ہوٹل میں رہائش کرنے کی بجائے مہنگے ترین ہوٹل میںرہنا۔اٹارنی جنرل کیلئے بھی کروڑوںکی بلٹ پروف گاڑی۔۔
اس سے بڑھ کر پنجاب کے حکمرانوں کیلئے 10 کروڑکی بلٹ پروف گاڑیاں اور اب پچاس لاکھ مالیت کا پروٹوکول ٹرک خریدنے کی تیاریاں۔ ۔۔اور سیلاب زردگان کیلئے محض 25 ہزارفی خاندان۔۔۔ان حالات میںگونوازگو”کا نعرے نہ لگیں توکیا عوام حکمرانوںکے گلے میں ہار ڈالیں۔۔ملک میں لا اینڈ آرڈرکی بگڑتی ہوئی صورت ِ حال،اور سابقہ وزیر اعظم کے بیٹے کی پروٹوکول گاڑی سے ٹکرانے کی سزا میں ہنستے مسکراتے نوجوان کی کھوپڑی میں سیسہ اتارکر ٹھنڈا کردینا۔۔۔جس ملک میں صدر،وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے لوگ۔۔ لاکھوں بے گھر قبائلی خاندانوں اورسیلاب زردگان کیلئے اپنی ذاتی جیب سے ایک روپیہ بھی دینا پسند نہ کریں
عوام کے ٹیکسزسے اکھٹاہونے والا سرمایہ ملکی ترقی اور عوامی فلاح وبہبودپر خرچ ہونے کی بجائے اشرافیہ کی جیبوںمیں چلا جائے یا پھر انکے بیوی بچوں کی سیکورٹی کے نام پر خرچ کردیا جائے وہاں بہتری کی سب امیدیں عبث ہیں ۔۔۔جہاں سب قاعدے قانون غریبوںکیلئے ہوں امیروںکو کوئی پوچھنے کی جرأت کرنے والا نہ ہووہاں حالات کے مارے ”گونوازگو”کا نعرہ نہ لگائیں تو کیا کریں گے؟
ویسے عوام میں جتنا سیاسی و فکری شعور آتا جارہاہے لگتاہے صرف میاں نواز شریف پر ہی موقوف نہیں اب انشاء اللہ ”گو۔۔گو”کا نعرہ ہرحکمران کا پیچھا کرے گا حکمرانوںکو اس کا حقیقی ادراک ابھی سے کرلینا چاہیے یہ نعرہ بھوت بن کر چمٹ جائے گا اورہماری چشم تصور میں وہ دن دیکھ رہی ہیں ۔۔ہمارے دل کو بھی یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب جھوٹے،مکاراور سبزباغ دکھانے والے حکمرانوںکے گھروںکے باہر عوام کے جم ِ غفیر دھرنا دیا کریں گے اور”گو۔۔گو”کے نعرے ان کا جینا حرام کردیں گے اور ان کا اپنے ہی گھروں سے نکلنا مشکل ہو جائے گا ۔اس کے بعد کیا ہوگا۔۔اس دن سے ڈرنا چاہیے ہمیں تو سوچ سوچ کرا بھی سے ڈرلگ رہاہے۔