ہم تارکین وطن پاکستانی لکھاری شعراء دنیا بھر میں اردو زبان کی حفاظت اور پھیلاو میں تن من دھن وار رہے ہیں اور پاکستان میں ہمارے بچے انگریزی کے رٹے مار مار کر پاگل ہوئے جارہے ہیں ۔ انگریزی کیا قہر خداوندی ہے اس قوم پر؟ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اردو کے ملک میں اردو کو بے آبرو کرنے والے لوگ تخت نشیں ہیں ۔ دنیا کی ہر زبان سیکھیں لیکن بطور زبان کے ۔ اسے بطور نظام تعلیم قوم پر مسلط نہ کریں ۔ کیونکہ دنیا کی کسی قوم نے کسی دوسرے کی زبان میں کبھی ترقی نہیں کی ۔ اس کی سب سے بدترین مثال پاکستان اور بھارت ہیں ۔ جو ساری عمر انگریزی سیکھنے اور پھر انگریزی کی غلطیاں نکالنے میں گزار دیتے ہیں ۔ یا پھر اس کا طرز زندگی سمجھنے اور اپنانے میں آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر نہ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے ۔ جسم پر پورا تھان لپیٹ کر سر کی ٹنڈ کروا کر ایک موٹی سی ماتھے برابر بندیا لگا کر سگریٹ کے کش لگاتی ہوئی خواتین وحضرات انگریزی فرفر جھاڑتے ہوئے خود کو کس جہان کا باسی ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟
شاید اس جہان کا نام ہے کنفیوز نگر کیونکہ زبان بول چال کی سیکھنا اور بات یے اور زبان کا نظام تعلیم رائج کرنا گویا آپ نے اپنے زندگی کے ہر اثاثے کو ،انداز فکر کو، کھانا پینا رہنا اوڑھنا بچھونا سب کچھ اس تہذیب کے حوالے کر دیا ہے اور خود کو زیرو قرار دیدیا ہے ۔ انگریزی کو بطور زبان ضرور سیکھئے لیکن اس کی تہذیب میں ڈبکیاں مت لگایئے ۔ بس یہی سچائی ہے۔
اگر آپ نے کہا کہ انگلش بین الاقوامی زبان ہے جو ساری دنیا میں بولی جاتی ہے تو یہ بھی آپ کی ہی خام خیالی ہے اور آپ کے ہمخیال لوگوں نے ہی ایسا مفروضہ رائج کر رکھا ہے جبکہ حقیقت میں امریکہ کے چند ممالک اور انگلستان کے علاوہ شاذونادر ہی کسی ملک میں انگریزی بولی جاتی ہے ۔ اور نظام تعلیم تو کسی دوسرے کی زبان میں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ہمیں ضرورت ہے اسی لنڈے کی سوچ سے باہر نکلنے کی۔ لیکن اسے ایک زبان کے طور پر بطور مضمون رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے جو کہ لازمی نہیں اختیاری مضمون ہونا چاہیئے ۔
دنیا کا کون سا ترقی یافتہ ملک ہے جس نے اپنے ملک کی زبان کے بجائے دوسرے کے زبان انگریزی میں ترقی کی ہے پلیز رہنمائی فرمائیں کیا فرانس ، جرمنی۔ اٹلی، سپین، سوئزرلینڈ، ناروے ، ڈنمارک ،چین ، جاپان ، انڈونیشیا وغیرہ وغیرہ اور کیا یہ سب ترقی یافتہ ممالک دوسری زبانوں میں اپنے طلبہ کو تعلیم دیتے ہیں ۔۔؟
وضاحت پلیز اور اگر کسی کو سیکھنی ہے تو وہ بطور زبان سال بھر کا لینگویج کورس کر کے اسے بول چال کے قابل ہو سکتا ہے ۔ پھر اسے بچوں کی نصابی کتب میں ٹھونس کر انہیں زبردستی پڑھانے کی کیا تک ہے؟
یہ بات درست ہے کہ آج کی نسل کی تباہی کی وجوہات میں دین سے دوری اخلاقی اقدار کا زوال اورمعاشی اور معاشرتی ناانصافی بڑے اہم عوامل ہیں لیکن ان وجوہات و عوامل کی تہہ میں جائیں تو معلوم ہو گا کہ دین سے دوری کا سبب بچوں کی تعلیم جبرا اس زبان میں دلوانا ہے جس کا ہمارے مذہب سے تہذیب سے معاشرت سے ہر گز کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ وہاں پر انگریزی زبان کا قہر ہم پر قہر خداوندی ہی تو بن چکا ہے جہاں ہماری عقل پر قفل لگ چکا ہے ۔ اور ہم بے عقل، بے رشدو ہدایت بھاگے جا رہے ہیں بنا کسی منزل کے تعین کے ۔ ہم ہزار سال بھی انگریزی یا کسی اور زبان کے نظام تعلیم کیساتھ علم کے حصول میں دوڑتے رہیں تو بھی کبھی اس کی منزل نہیں پا سکتے اور اگر پالیں تو اپنے سارا تہذیبی دینی سماجی ڈھانچہ تباہ و برباد کر کے بلکہ خس و خاشاک کر کے ۔ کیا ہم یہ قیمت ادا کر کے خوش رہ سکتے ہیں یا آذاد قوم کہلا سکتے ہیں ؟
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پیارے پاکستان میں کوئی اردو بولنا چاہتا ہے ؟ کیا اردو بولنے والے کو ہندوستانی کا نام نہیں دیتے ہم لوگ ؟ کیا اردو زبان میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ جدید علوم کا ترجمہ کر سکے؟ جی ہاں آپ کا درد دل آپ کی بات سے چھلکتا ہے ۔ پاکستان میں تحریک نفاذ اردو کے نام سے تحریک بھرپور انداز میں کام کر رہی ہے اور قانونی طور پر اجراء کا فیصلہ بھی لے چکی ہے لیکن کچھ انگریزوں کے ذہنی غلام جو اپنے بچے پالتے ہی گورا صاب بننے کے لیئے ہیں وہ اسکے عملی نفاذ کی راہ میں سب سے بڑا روڑا ہیں کیونکہ انہیں ہر وقت اپنا بچہ گھوڑے پر سوار گورا صاب دیکھنے کا ارمان ہے اور پاکستانی قوم و نسل ان کے گھوڑے باندھنے اور رگڑنے والے سائیس کے طور پر چاہیئے ۔ اس وقت پاکستانیوں کی کمائیوں کا ستر فیصد اپنے بچے کے منہ میں انگریزی ٹھونسنے اور اسے گورا صاب بنانے کی دوڑ پر خرچ ہو رہا ہے ۔ اور یقین مانیئے دنیا کی ہر زبان کے لفظ کا ترجمہ کرنے کی صلاحیت اردو زبان میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ہم سب اسے غالب کے زمانے کی متروک اردو میں نہ ڈھالیں بلکہ اسے جدید اردو زبان میں (جو کہ رائج الوقت ہے میں) ڈھال کر بہت آسانی سے دنیا بھر کا علم اردو میں منتقل کر سکتے ہیں ۔
آج کمپیوٹر کے زمانے میں ایسا سوال کہ کونسی زبان کس زبان میں ڈھل سکتی ہے ترجمہ ہو سکتی ہے بالکل بچگانہ ہو کر رہ گیا ہے ۔ اصل مسئلہ جو زبان سے منسلک ہے وہ ہے ہماری شناخت اور تہذیب بچانے کا ۔ ۔ ہر زبان اپنی تہذیب آپکو سکھاتی ہے ۔ کوئی بھی زبان زبان کے طور پر سیکھیئے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا کر اپنے گرد آکاس بیل بنا کر لپیٹ لیں گے تو یہ آپ کا سارے کا سارا ورثہ نچوڑ کر پی جائے گی ۔ یعنی گہرائی سے سوچیئے تو قومی زبان کا نفاذ ہماری نسلوں کی ترقی یا تباہی کا سوال ہے ۔
ہمارے ملک میں ترقی کے نام پر کمائی کا ستر فیصد حصہ انگریزوں کے نام نہاد پاکستانی ایجنٹ پاکستانیوں سے نچوڑ رہے ہیں ۔ اور اس کی تہذیبی اور دینی بنیادوں میں انگریزی زبان کے زریعہ ان کی تہذیب کے زہریلے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں اور یہ تمام دولت پاکستان سے باہر بیرون ملک بھیجی جا رہی ہے ۔ جب تک یہ بیرونی رسد نہیں روکی جائے گی ۔ انگریزی زہر طلب کے نام پر یونہی بکتا رہیگا ۔ ہماری قوم ہر لحاظ سے تباہ و برباد ہوتی چلی جائے گی اور ہمارے دشمن ہمارا خون چوس چوس کر طاقت حاصل کرتے رہینگے ۔ اخلاقی زوال اور مذہبی تنزلی کی مثالیں ہر روز بلکہ ہر لمحہ ہمارے معاشرے میں ماتم کناں ہیں اور ان سب برائیوں کی جڑ تک جائیں تو اخلاقی اور دینی علوم سے دوری اور دوری کی وجوہات میں سب سے بڑا عذاب جبری انگزیزی نصاب۔