تحریر : حاجی زاہد حسین خان ہمارا ایک پاکستانی آزاد ویزے پر جدہ پہنچا کچھ دن کام کیا ایک دن کام کے دوران اس کے پائوں میں چوٹ آ گئی۔ وہ ہسپتال کا پیپر لینے شام کفیل کے گھر پہنچا ۔ اس کے گھر کی گھنٹی بجائی۔ کفیل گھر موجود نہ تھا اندر سے اس کی بیوی نے پوچھا (من انت اس نے جواب دیا انا پاکستانی اور پوچھا ۔ فین محمد بیوی نے جواب دیا محمد مافی موجود فی البیت ۔ اش تبغا) تمہیں کیا کام ہے۔) پاکستانی نے کہا (مائی فٹ از خربان اائی گو ٹو مستشفے انا ابغا ورقہ ) یہ سنتے ہی کفیل کی بیوی ہنستے ہنستے لوٹ پھوٹ ہو گئی۔ مگر پاکستانی نے عربی اردو اور انگلش مکس کر کے اسے بات سمجھا دی اس طرح ہمارا ایک پاکستانی مزدوری کے لئے ایران گیا کپڑوں کے ساتھ وہ سرسوں کا تیل اور صابن بھی لے گیا۔
ائیر پورٹ پر کسٹم آفیسر ز نے تیل کو دیکھ کر پوچھا ( ایں است ) وہ فورا بول اٹھا۔ ایں تیل است ای سر کو گھسیٹ است وہاں کا سارا عملہ ہنستے ہنستے دہرا ہو گیا۔ مگر ہمارا پاکستانی اپنی بات سمجھا گیا۔ ہمار ا پاکستانی جب چائنہ پہنچا کھانا کھانے جب ہوٹل گیا تو بہرے کو کہا کھانا لائو۔ بہرے نے اپنی زبان میں سارے کھانوں کا ذکر کیا مگر صاحب کو سمجھ نہ آئی ادھر ادھر دیکھا کوئی حل نہیں آخر بول اتھا ککڑوں کڑوں کا گوشت لائو بہرہ سمجھ گیا مشکل حل ہو گئی۔ یہ تو بیرون ممالک ان مزدوروں محنت کشوں کے روز مرہ کے قصے اور آب بیتیاں تھیں جو وہ یورپ عرب ممالک میں پہنچ کر بھگتے رہے۔ مگر قارئین افسوس کا مقام ہے ہمارے اہل علم پڑھے لکھے دانشور لوگوں نے اپنی قو می زبان اردو کا گزشتہ نصف صدی سے جو حشر کیا اس کی کہیں دوسرے ممالک میں مثال نہیں ملتی ہمارے ان اہل علم ڈگری یافتہ لوگوں نے جن میں استاد بھی ہیں پروفیسر ز بھی ہیں اینکرز اور صحافی بھی ہیں۔
سیاستدان اور حکمران بھی ہیں ٹی وی والے ہیں یا اخبارات والے جہاں بھی موقع ملتا ہے میٹنگوں میں مجلسوں میں جلسوں میں کانفرنسوں میں منہ ٹیڑا کر کے اردو میں آدھی انگلش ملا کر بولنا فخر سمجھتے ہیں۔ بڑا پن سمجھتے ہیں۔ جس سے آج ہماری اردو رہی نہ ہی انگلش بن سکی۔ اک نئی مشکل زبان بن چکی ہے۔ لکھنے میں اور پڑھنے میں بھی آج اگر قائد اعظم زندہ ہوتے جامع ملیہ اسلامیہ کے اردو دان ہوتے جامعہ ندوة اسلامیہ اور جامعہ دیو بند کے استاذ کرام ہوتے الطاف حسین حالی ،ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر اورغالب ہوتے۔ تو خدا کی قسم وہ اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے ۔ کہ ہائے ہم نے کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا۔ ہم نے پاکستان کیوں اور کس لئے بنایا تھا۔ اور کیا کیا قومی معیار قائم کئے تھے مگر ہماری قوم کسی بھی ایک معیار پر قائم نہ رہ سکی۔ انگریز تو چلے گئے مگر ان کے طور طریقے ان کی بدعا دتیں ہمارے قوم میں رچ بس گئیں سر سید احمد نے تو علی گڑھ یونیورسٹی اور اس جیسے دوسرے اداروں میں مسلمان انگریز ی دان اس لئے پیدا کئے تھے کہ انگریزوں کی غلامی اور خوشنودی سلیقے سے کی جائے۔ ان کی نوکریاں ملازمتیں۔ حاصل کرکے نان شبینہ کا بندوبست کیا جائے۔ مگر ہمارے انگریزی دانوں نے تو نسل در نسل غلامی اختیار کر لی۔
عادات و اطوار میں غلامی زبان و بیان میں غلامی سیاست اور حکومت میں غلامی ثقافت و تہذیب میں غلامی ہائے یہ کیا سے کیا ہو گیا۔ ہم اپنے بچوں کو نہ اردو دان بنا سکے اور نہ ہی عربی دان ۔ اردو ہماری پہچان تھی تو عربی ہماری تہذیبی زبان مگر آج ہمارے نو نہال پانچ سال کی عمر میں ہی انگریزی دان بننے نکلے ہیں۔ ہماری قومی زبان علاقائی زبان بن کر رہ گئی ۔ وہ زبان جو ہماری قومی زبان قرار پائی تھی وہ آج بے یارومددگار ہو کر رہ گئی ہے۔ ہم اسے نہ اپنے اوپر لاگو کر سکے نہ ہی اسے دفتر ی عدالتی زبان کا درجہ دے سکے پاکستان بنتے ہی جب بنگالیوں نے اسے ٹھکرا کر بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کی کوشش کی تحریک چلائی تو قائد اعظم نے اسے سختی سے کچل دیا اور فرمایا تھا کہ سن لو بنگالی سندھی بلوچی ، پنجابی پشتو ہماری بحیثیت علاقائی زبانیں ہیں۔ محترم و مکرم ہیں۔ مگر ہماری قومی شناخت صرف و صرف اردو ہے۔
Urdu
انگریزی عربی اور فارسی زبانیں ہماری ضرورت ہیں مگر ہماری پہچان صرف و صرف اردو ہے ہم اسے کلیتا ۔ اپنی دفتری زبان لکھنے پڑھنے کی زبان بنائیں گے مگر ہم احساس کمتری کا شکار معاشرہ اسے وہ مقام نہ دے دلا سکے۔ انگریزی پڑھیں سیکھیں بچوں کو سکھائیں مگر اپنی قومی زبان کی قیمت پر نہیں۔ اس کی شناخت برقرار رکھیں۔ دنیا بھر کی دوسری اقوام نے اگر ترقی کی ہے تو صرف اپنی قومی شناخت کو برقرار رکھ کر چائنہ جاپان ا ور فرانس جرمنی نے اگر آج ترقی کی معراج حاصل کی ہے تو صرف و صرف اپنی قومی زبانوں میں لکھنے پڑھنے اور سیکھنے سے حاصل کی ہے آج بھی وہاں کا انجینئر ڈاکٹر اور سائنسدان انگریزی زبان سے نا واقف ہے۔ وہاں کا صدر اور وزیر اعظم بھی نا آشنا اگر موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھنا سیکھنا حاصل کرنا انگریزی کے مرہون منت ہے تو اپنی اپنی قومی زبانوں میں اسے ڈھالنا ترجمہ کرنا اسے نصابی شکل دینا ہمارے ماہرین کی ذمہ داری اور فرائض میں شامل ہے۔ انگریز اگر ہماری سائنسی ایجادات اور مسلم سائنسدانوں البیرونی ، ابن خلدون اور دوسرے مسلم سائنسدانوں کی تصنیفات کو انگریزی میں ڈھال کر ترقی کر سکتا ہے تو پھر ہم اور ہمارے ماہرین انگلش دان اپنا یہ قومی اور ملی فریضہ کیوں ادا نہیں کر سکتے ۔ اور اپنی آنے والی نسلوں کو اس سے مستفید کیوں نہیں کر سکتے۔ اور آج انگریزوں کی ذہنی غلامی سے کیوں جان نہیں چھڑا سکتے۔
قارئین ہمارے ان ہی نا اہل ماہرین اور نا اہل حکمرانوں کی تعلیمی پالیسیوں نے قوم کو آدھا بٹیر بنا دیا ،۔ اور ہمارے معصوم نو نہالوں کو ہوش سنبھالتے ہی غیر ملکی زبان انگریزی کے بوجھ تلے داب کر رکھ دیا ہے۔ غیر ملکی این جی اوز اور انگریزی میڈیم سکولوں کے مالکان کی دولت کو چار چاند اور قوم کے ان معصوموں کے ذہنوں کو کند بنا کر رکھ دیا ہے۔ جبکہ گزشتہ ادوار میں چھٹی جماعت سے انگلش پڑھنے والوں نے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیئے اور ثابت کر دیا کہ انکی وہ قوم اور ملک کے لئے بنائی گئی پالیسیاں حرف بہ حرف درست تھیں۔ جو کہ بدقسمتی سے نرسری قاعدے سے انگلش میں بدل کر آنے والی معصوم اور نوجوان نسل کو درجہ بندیوں میں تقسیم اور قومی زبان اردو کو کھچڑی بنا کر رکھ دیا ہے۔ چین جاپان ہوں یا عرب ریاستیں وہاں آج بھی بنیادی تعلیم اپنی قومی زبانوں میں پڑھائی لکھائی جاتی ہیں۔
عرب ممالک مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ بسم اللہ سے شروع کرتے ہوئے قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بنیادی تعلیم سے آراستہ ہو کر کالجوں یونیورسٹیوں تک جا پہنچتے ہیں۔ حتی کہ کمپیوٹر کی اعلی تعلیم بھی اپنی قومی زبان عربی میں سیکھ سیکھاکر عبور حاصل کرتے ہیں۔ اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر کے اپنے ملک و قوم کی خدمت اور آنے والی اپنی نسلوں کے لئے راستے متعین کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے صرف ہم بر صغیر ہندوپاکستان والے ہی کل بھی انگریزوں کے غلام اور آج بھی ان کی پالیسیوں کے غلام اور احساس کمتری کی شکار قومیں ہیں۔ ورنہ انگریزی کسی قوم ملک کی ترقی کی ہرگز ضمانت نہیں یہ رابطہ اور تعارفی زبان ہے۔ قارئین ہم اپنے بچوں کو علم و ہنر سے آراستہ کریں انگریزی فرانسی بطور زبان ضرور سیکھیں مگر خدا کے لئے اپنی قومی زبان اپنی پہچان کی شناخت ختم نہ کریں۔ اسے ملاوت سے بچائیں ۔ اسے خالص ہی رہنے دیں انگریزی بولنے سے ہم انگریز تو نہیں بن سکتے ۔ مگر کل کو اپنی شناخت اور قومی پہچان ضرور کھو دیں گے۔ اور خدشہ ہے کہ اگر ہماری روش یہی رہی تو ہماری آنے والی نسلیں خالص اردو سے محروم ہو کر عربی انگلش اور ملی جلی ایک نئی زبان وجود میں لے آئیں گے جیسے ہمارے پاکستانی بھائی نے جدہ میں بولی مگر خوب بولی۔ (مائی فٹ از خربان آئی گو ٹو مستشفے )
Haji Zahid Hussain
تحریر : حاجی زاہد حسین خان (کالمسٹ) پلندری سدہنوتی آزاد کشمیر hajizahid.palandri@gmail.com