روشن خیالی کے کھنکتے گھنگرو

Pakistan

Pakistan

تحریر : صاحبزادہ
”میں اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وفاداری کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض منصبی ادا کروں گا اور خلوصِ نیت کے ساتھ پاکستان کا حامی و وفادار رہوں گا اور ذاتی مفادات کو اپنے سرکاری فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دوں گا، آئین ِ پاکستان کی حفاظت کروں گا ہر حالت میں بلا خوف و ترد خدمات سر انجام دوں گا اور اپنے فرائض ہمیشہ پاکستان کی خود مختاری، سالمیت، استحکام، بہبودی اور خوشحالی کی خاطر سر انجام دوں گا۔

پیارے قارئین ۔۔۔۔درج بالا پیرا گراف نا خلف اشرافیہ کے اُٹھائے ہوئے حلف کی اُس مظلوم عبارت کا ہے کہ جس کے تقدس کو اُن کے کردار کی چھُری اس طرح ذبح کرتی ہے کہ اس کے لہو کے چھینٹے ہر محلے ، ہر گلی اور ہر گھر کے درو دیوار پر بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس ایوان میں یہ حلف اُٹھا یا جاتا ہے اس کے صدر دروازے پر اس حلف کی لٹکتی ہوئی بے گور و کفن لاش کے جگر شگاف منظر اور وطن عزیز کی نوحہ گر فضا ئوں سے ایک ہی ہوک اور ایک ہی ماتم کناں صدا اُٹھتی سنائی اور دکھائی دیتی ہے۔

اے راہبرِ مُلک وقوم بتا
یہ کس کا لہو ہے ؟کون مرا ؟

اسی پارلیمنٹ کی پیشانی پر وہ آفاقی اور لازوال کلمہ تحریر ہے جس کی بنیاد پر کشور حسین ، مرکزِ یقین ، پاک سر زمین اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض ِ وجود میں آیا ،یہ کلمہ پارلیمنٹ کے باہر نقش ہے ۔۔۔۔۔کاش یہ کلمہ پارلیمنٹیرینز کے دل و دماغ پر بھی نقش ہو جاتا تو آج وطن عزیز کو جن حادثات و تغیرات کا سامنا ہے کم ازکم وطن عزیز اِن خرافات سے محفوظ رہتا ، ایک طرف کشور حسین ، مرکز یقین ، پاک سر زمین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میرے مخبر نے آج ہی یہ اطلاع دی ہے کہ اسلام آباد کی حکومت نے ”بھوکے ننگے ”ااور ”کاسہ گدائی ” پکڑے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 146فیصد ریکارڈ اضافہ کے بعد غریب ارکان کی تا حیات پنشن ، انشورنس اور ہیلٹھ کارڈ کے اجراء کی تیاری کا کام زور شور سے جاری رکھنے کا ”شاہی حکم نامہ ” کر دیا ہے ہر رکن پارلیمنٹ کے چہرے پر خوشی کے آثار ہیں ،چہرے چمک دمک رہے ہیں ،منی لانڈرنگ کے شہنشاہ اور ”شریفین والبریفین ” کی دولت کے چوکیدار اسحاق ڈالر نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ارکان پارلیمنٹ کی مراعات میں اضافے کی یقین دہانی بھی کروا دی ہے انشورنس ، ہیلتھ کارڈ اور پنشن مقرر ہونے سے قومی خزانے کو سالانہ 3 ارب روپے سے زائد کا اضافی ٹیکہ لگے گا ۔۔۔۔۔ ”خوشحال ” عوام کے ”غریب ارکان پارلیمنٹ ”ملک کے کسی بھی نجی ہسپتال سے علاج کروائیں گے جبکہ بل قومی اسمبلی ، سینٹ سیکرٹریٹ ادا کرے گا، جبکہ اسی ملک کی عوام کو سرکاری ہسپتال سے ڈسپرین کی گولی بھی ملنا مشکل ہے۔

نجی ہسپتال کی تو فقط باہر سے غریب زیارت ہی کر سکتا ہے اور تو اور 5سال پورے کرنے والے سسکتے ، بلکتے رکن اسمبلی کو تا حیات پنشن بھی دی جائے گی۔۔۔۔ موجاں ہی موجاں ۔۔۔۔۔پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ۔۔۔۔۔۔ غریب عوام کے منتخب نمائندگان کی تنخواہوں میں وفاقی حکومت نے اکتوبر 2016ء سے 146فیصد ریکارڈ اضافہ کیا تھا وزارت پارلیمانی امور کی دستاویز کے مطابق پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شگفتہ جمانی نے قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور س مراعات میں اضافے کا بل جمع کروایا تھا جس کی تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں نے بھر پور حمایت کی تھی ،حمایت ہی کرنا تھی ، مخالفت کر کے بھوکوں تو نہیں مرنا ۔۔۔۔۔دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان متعدد وبائوں کا شکار ہے۔

مقدس بار گاہوں کی دہلیز پر آئے روز ہونے والے بم دھماکے ،تعصب اور لسانیت کی بڑھکتی آگ کے شعلے،شفا خانوں اور تھانوں میں بے رحم موت کا بہیمانہ رقص، سیاست دانوں کی جگت بازیاں،آتش بازیاں ،رنگ بازیاں ،ڈرامے بازیاں ،قلا بازیاں ،بارود کے دھوئیں میں گم اجسام ،نخوت کی دھول سے اٹے چہرے ،ربڑ سٹیمپ اسمبلیاں،کرپشن سے معمور ایوان ،ذہنی غلام ،روشن خیالی کے کھنکتے گھنگرو،ترقی کے کھوکھلے دعوے، ٹوٹی سڑکیں ،بہتی نالیاں ،ابلتے گٹر ،دھول اڑاتی شاہرائیں ،ناجائز اور بے قابو تجاوزات ،لو ڈشیڈنگ کا نہ ختم ہونے والا عذاب ،مردہ جانور کھلانے والے قصاب ،شعلہ بیاں مقرر ،دیہاڑی دار محرر ،آتش فشاں خطیب،فتویٰ فروشی کی مشینیں،جاگیر داروں کے قبضے میں بے چارے ہاریوں کی ہزاروں ایکڑ زمینیں ،علمی ڈکیت ،پکی قبریں ،کچے ذہن ،رہبر کے روپ میں رہزن کا بھیس ، ہرص و ہوس کے مارے ،سارے کے سارے ،لاغر اُمید ،بے رحم سو سائٹی ،دیہاڑی دار نقیب، جعلی ادیب ، ڈبہ پیر ،جاہل مرید ،کھوکھلے فقیر ،بے حضور امام ،بے وضو مقتدی ،نیم حکیم اوران پڑھ ملا،حرام کمائی سے بیت اللہ شریف کانامکمل طواف ،نا پاک اور غلیظ ہونٹوں سے حجر اسود کے بوسے ،گنبد خضراء کے سامنے مگر مچھ کے آنسو ،خواہشات کے اسیر ،دنیا کے فقیر ،,,ہذا من فضل ربی ،،کے تحت امیر،جگہ جگہ ناکے ،آئے روز دھماکے ،بستی بستی فاقے ،نا پختہ ذہن کے کاکے ،دودھ کی رکھوالی پر معمور بلا ،وارثین منبر و محراب سے گلہ،گلی گلی کمر شل ازم کے سانچے میں ڈھلی دانش تقسیم کرتی حکمت گا ہیں۔

دانش گاہیں، مگرپھر بھی تہذیب مغرب کی یلغار ،اللہ اکبرکی صدا بلند کرتے بلند و بالا مینار ،مگر کردار کے نہایت ہی بونے لوگ ،ماتھے پر بد نمائی اور خود نمائی کے داغ سے بنے محراب ،مگر پیشانیاں سجدوں کی لذتوں سے نا آشنا،اذانِ بلالی اور تلقینِ غزالی مفقود ،زبان پر قال اللہ و قال الرسول ۖکی تقریریں ،مگر تاثیر کی حلاوتوں سے کو سوں دور،موٹی گردنیں ،چھوٹی شلواریں ،نکلی ہوئی توندیں ،وزنی کوپر،اُلجھے بال ،گھنی اور بے ربط داڑھیاں ،ننگی ساڑھیاں،,,ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ،،کی چھتر چھائوں تلے ملاوٹ زدہ چیزیں ،,,یہاں گندگی پھینکنا منع ہے ،، لکھا ہونے کے با وجود جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر،,,یہاں تھوکنا اور پیشاب کرنا منع ہے ،، مگر اسی جگہ غلاظت کا انبار ،,,رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ،،مگر اسی حدیث کے زیر سایہ رشوت کا گرم بازار ۔۔۔۔۔۔۔۔خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی ناخواندگی،گردن میں پیوست 6،6انچ کے موٹے سریے ، آنکھوں میں بے حیائی اور بے شرمی کا کاجل ،زبان پر غلیظ گالیوں کا غلاف ،بظاہر قرآن کریم اور رسول اللہ ۖ سے پیار ،مگر عملی تعلیمات اور سنت سے بیزار ،دکھاوے کی تسبیحاں ،ریاکاری کے سجدے ،خضوع و خشوع سے یکسر محروم رکوع،بندگی سے خالی قیام ،غلیظ افکار ،کھوکھلے کردار ،مصنوعی پیار،منافقت ہی منافقت ،نفرت ہی نفرت ،جھوٹ ہی جھوٹ ،فریب ہی فریب ،دغا ہی دغا ،فراڈ ہی فراڈ ،عارضی سہارے ،جس نے بھی کیا ان سب باتوں پر عمل اس کے ہو گئے وارے نیارے۔۔۔۔۔۔شکل مومناں ،کرتوت کافراں ،ممی ڈیڈی این جی اوز کی بھر مار، ہم سب کو پڑ رہی ہے۔

اس لیے با ر بار مار ،خدمت انسانیت کے نام پر قائم وسیع نیٹ ورک،مگر انسانیت پھر بھی نان جویں کی محتاج ۔۔۔۔۔۔نت نئی کھمبیوں کی طرح اگتی سیاسی جماعتیں ،نالائق اور کرپشن کے چیمپیئن سیاستدانوں کی روز روز وضاحتیں ،جگہ جگہ پھرتی لوٹے اور مصلے اُٹھائی جماعتیں ، سینکڑوں برادریوں میں منقسم ذاتیں،مگر پھر بھی جگہ جگہ قباحتیں ،ناقص منصوبہ بندیاں ،بے محل تُک بندیاں،دھرنے اورمرنے ۔۔۔۔۔معاشرتی جبر ، بندر بانٹ ، پلاٹ ، پرمٹ ، اراضی ، عہدے ، ٹھیکے ، قبضے ، جھُک جھُکا ، چُک چُکا ، مُک مُکا ، مفاد پرستیاں ،چیرہ دستیاں ،بلکتی بستیاں ،سسکتی سسیاں ، اقتدار کی بد مستیاں ، حکمرانوں کی خر مستیاں دشنام طرازی ، زبان درازی ، جملہ بازی ، کھینچا تانی ، اجارہ داریاں ، دل آزاریاں ،عیاریاں ، مکاریاں جعلی مہارتیں ، مفادات کے آگے سجدہ ریز دانشوریاں ، پروٹوکول ، حقِ استثنا ئی ، چینل چینل دہائیاں دیتے اور لٹیرے رہبروں کی صفائیاں دیتے گلے پھاڑتے ، کُوکتے دھاڑتے اور چیختے چنگھا ڑتے یہ بچے جمورے اور کچے جمہورے ، ”اسلامی ” ملک کی بے فیض اور نکمی اسمبلیاں ، کینسر زدہ وی وی وی آئی پی کلچر کے نشے میں بد مست یہ لڑ کھڑاتے ، دگمگاتے ، چہچہاتے ، کھلکھلاتے ، جگمگاتے ، اور بڑ بڑاتے ظِلِ الہی ، غرور و تکبر کی خلعتوں میں ملبوس یہ لطیفے ، جھوٹی آس دلاتے اور وعدوں کی بانسری بجاتے ہوئے یہ کارٹون ، جھوٹ کے پلندے اور سیاست کے گورکھ دھندے ،مفادات کی منڈی میں کہیں بھی ہمہ وقت بِکنے کے لیے تیار لش پش یہ گھگھو گھوڑے۔۔۔۔ناچتی ہوئی وحشت ، دندناتی ہوئی جہالت ، اللے تللے ، بلے وی بلے ، دہشت گردی کے خاتمے اور مجرموں کی سر کوبی کے دعویدار اور عالم یہ ہے کہ

چھُپتا ہے تہہِ مسند ہر جرم یہاں آکر
زنجیر بجے تو خود دربار لرزتے ہیں

قارئین ۔۔۔۔ یہ تو ایک معمولی سی جھلک ہے اُس اُٹھائے ہوئے اور اُٹھا کر ٹھُکرائے ہوئے ، ٹھُکرا کر کفنائے ہوئے ،کفنا کر دفنائے ہوئے ، دفنا کر بھُلائے ہوئے حلف کے حلیف نما حریف ۔۔۔۔۔ یہ ہے ایک اسلامی معاشرے کی دھندلی سی تصویر ،اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ جب تک ہم اپنے آپ کو ان غلاظتوں اور کثافتوںسے پاک نہیں کریں گے اس وقت تک ہمارے کردار اور افکار میں پختگی پیدا نہیں ہو سکتی ،لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے خونخوار اور وحشیانہ طرزِ عمل رکھنے والے معاشرہ میں مردِ درویش جنید وقت حضرت حافظ الملت حافظ محمد صدیق کی فکر اور سیرت طیبہ ۖ کے پیکر میں ڈھلی پاکیزہ ، مصفیٰ اور مزکیٰ تعلیمات کو عام کیا جائے تاکہ سوسائٹی امن و آشتی کا گہوارا بن سکے ۔۔۔۔جسٹس امیر علی کی لکھی گئی کتاب میں درج وہ خوبصورت اور فکر انگیز جملہ مجھے ابھی بھی اچھی طرح یاد ہے کہ,,مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی سر زمین پر خراماں خراماں چلتے عظمت و کردار کے سانچے میں ڈھلے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ قُدسیوں کی ایک مقدس اورنورانی جماعت ہے جو ابھی ابھی آسماں سے اُتری ہے ،، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان مقدس ہستیوں کی تر بیت اس بلند و بالا کردارکی حامل مبارک ہستی نے کی تھی کہ جس کے بارے میں کتاب انقلاب قرآن کریم میںارشاد ہوتا ہے کہ ,,لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ،،آج بھی رسول اللہ ۖ کی پاکیزہ سیرت کو اپنا کرتحت الثریٰ کی گہری کھائی سے نکل کر اوج ثریا کے منصب پر فائز ہواجا سکتا ہے ،تب تک کے لیے اجازت ،آئندہ نئے عنوان کے ساتھ جلد ملاقات ہو گی۔۔۔۔اللہ حافظ :

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر : صاحبزادہ
مفتی نعمان قادر مصطفائی
/فکرِ فردا 03314403420
بانی و مرکزی امیر : تحریک منہاج الرسول ۖ ، چیئر مین ایوان ِ اتحاد پاکستان ، مرکزی خطیب جامع مسجد مدینہ شریف ، اعوان ٹائون لاہور