دہشت گردوں کا سکول پر حملہ قوم کے 132 بچے اور 9 سکول سٹاف ارکان کو شہید کر دیا گیا ۔اس سانحہ پر ہر آنکھ اشکبار ،ہر دل لرز اٹھا، دہشت گرد ایک ایک بچے کوپکڑ کر مارتے رہے، بچوں کی کلاس میں اندھا دھند فائرنگ کر کے ایک ساتھ درجنوں بچوں کو خون میں نہلا دیا ۔بچوں کے سامنے ان کی استانی کو زندہ جلا دیا گیا ،ایک دہشت گرد نے ایک کلاس میں گھس کر خود کو بم سے اڑا لیا۔دہشت گرد بچوں سے بلند آواز میں کلمہ پڑھنے کا کہتے اور پھر ان کو گولیوں سے بھون دیتے ۔ان سفاک درندوں کے لیے آرمی کے آ فیسر عاصم باجوہ نے انسان دشمن ،اسلام دشمن اور پاکستان دشمن کا نام استعمال کیا کیونکہ ایک انسان اتنا درندہ کیسے بن سکتا ہے وہ انسان کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے اور اسلام جس نے کافروں کے بچوں کو بھی جنگ میں نہ مارنے کا حکم دیا اس کے ماننے والے کیسے اتنے سفاک ہو سکتے ہیں
یہ درندے پاکستان کے بھی دشمن ہیں ۔دل پرجبر کر ایک زندہ بچ جانے والے طالب علم کی روداد سنیں ۔پشاور میں ایک سکول پر انسان دشمن ،اسلام دشمن،پاکستان دشمن دہشت گردوں کے حملے سے زخمی ہونے والے ایک بچے جو کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیر علاج ہے نے خود پر اور اپنے ساتھیوں پر گزرنے والے لمحات بتاتے ہوئے کہا کہ میں اور میرے ساتھی اسکول کے آڈیٹوریم میں کیرئیر گائیڈنس سیشن میں شریک تھے ۔جب سیکیورٹی اہلکاروں کی وردیوں میں ملبوس چار افراد وہاں گھس آئے ،اسی وقت کسی نے چیخ کر ہمیں ڈیسک کے نیچے چھپ جانے کا کہا اسی وقت دہشت گردوں نے فائرنگ کھول دی ۔اس سے بہت سے بچوں کو گولیاں لگیں وہ نیچے گر کرتڑپنے لگے میں نیچے گر گیا میری دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگیں
میں نے ٹائی کھول کر اپنے منہ میں دبا لی تاکہ درد سے چیخ نہ نکل سکے میرے اردگرد ایک قیامت برپا تھی بچے چیخ رہے تھے تڑپ رہے تھے درد سے کراہ رہے تھے جان کنی صورت میں دیکھے نا جاتے تھے ۔اسی وقت ایک دہشت گرد نے دوسرے سے کہا کہ جا ئو بچے بینچوں کے نیچے چھپے ہوئے ہیں ان کو مار دو ،اس وقت میں لیٹا ہوا تھا میں نے ایک سیاہ جوتے والے کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا میں نے آنکھیں بند کر لیں اور خود پر فائرنگ کا انتظار کرنے لگا۔ وہ سیاہ جوتے والا زندہ بچوں کو ڈھونڈ کر مار رہا تھا میں ان سیاہ جوتوں اور اس لمحے کو جب میں خود پر ہونے والی فائرنگ کا انتظار کر رہا تھا اور بچوں کے مرنے کا منظر نہیں بھول سکتا میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا ۔تھوڑی دیر بعد دہشت گرد کمرے سے چلے گئے میں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن گر پڑا میں رینگ کر دروازے کے پیچھے پہنچا اور پھر مجھے ہوش نہ رہا جب مجھے ہوش آیا تو میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں تھا۔
ایسی دردناک دل لرزا دینے والی بے شمار کہانیاں منظر عام پر آ رہی ہیں جن کو سننا بہت مشکل ہے ۔اس سانحہ پر مذمت ایک گالی لگتی ہے ،سوگ ایک طعنہ ان زخموں کا کوئی مداوا نہیں کوئی سزا اس کی شایان شان نہیں بے شک اس حملے میں شامل دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا لیکن اصل مجرم ابھی تک زندہ ہیں وہ جنہوں نے اس حملے کا منصوبہ بنایا ،بے شک ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ،دہشت گرد کون تھے کہاں سے آئے اور وہ کہاں سے ہدائت لے رہے تھے سب معلوم ہو چکا ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب معلوم ہو چکا ہے تو وہ زندہ کیوں ہیں ؟اب تک ان کو جہنم واصل کیوں نہیں کیا گیا ۔اس سانحہ کوہوئے پورا ایک دن گزر گیا ہے ۔اس سانحہ پر بیانات ،مذمت ،اجلاس ،سب فضول لگ رہا ہے ۔ہمارے ملک میں ایسا ہوتا ہے
Terrorists
سانحہ ہوتا ہے اس پر بیانات دئیے جاتے ہیں اور پھر سب بھول جاتے ہیں مگر مائیں کیسے اس کو بھولیں گئیں جن کے لخت جگر اس سانحہ میں شہید ہوئے ،جو زخمی ہوئے وہ اس کو کیسے بھول سکتے ہیں جو اس سانحہ کا حصہ بنے باقی پوری زندگی یہ سانحہ ان کے لیے ایک بھیانک یاد بن کر ان کا پیچھا کرے گا ۔یہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے دن ہوا ۔ساڑھے دس بجے سکول پر حملہ کیا گیا دہشت گرد سکول کے پیچھے سے واقعہ قبرستان کے راستے سے دیواریں پھیلانگ کر سکول میں داخل ہوئے دہشت گردوں نے سیکورٹی فورسزز کی وردیاں پہن رکھی تھیں ان کی تعداد 7 بتائی جاتی ہے ۔ ایک دہشت گرد نے ایک کلاس میں گھس کر خود کو دھماکہ سے اڑا لیا جس سے بہت سے بچے ایک ساتھ شہید ہوگئے۔
سب نے خود کش جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور وہ جدید اسلحہ سے لیس تھے۔ یہ سب خود کش حملہ آور تھے یہ دہشت گرد عربی زبان بول رہے تھے ۔اس واقعہ نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے ایک قیامت ٹوٹ پڑی پاکستان پر دنیا کی تاریخ میں اس سے بڑا حادثہ بچوں کے سکول میں نہیں ہوا۔سانحہ کاسن کر والدین وہاں پہنچ گئے سارا دن سکول سے دھماکوں اورگولیاں چلنے کی آوازیں آتی رہیں ۔جس سے باہر کھڑے والدین لرزتے رہے اللہ سے دعائیں کرتے رہے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زخمی بچوں کو لایا جاتا رہا والدین اپنے بچوں کی تلاش میں روتے پھر رہے تھے ان کو علم نہیں ہو رہا تھا ان کے بچے کہاں ہیں سکول میں ہیں یا ہسپتال ہیں زندہ ہیں یا شہید ہو گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان بچوں کا قصور کیا تھا دہشت گرد اس سے کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔اس سانحے پر پوری قوم متحد نظر آئی۔
پورے ملک میں تین روزہ سوگ منایا جا رہا ہے ۔ملک بھر میں کاروباری مراکز بند کر دیئے گئے ۔اور شہدا کی یاد میں موم بتیاں جلائی گئیں ،دو منٹ خاموشی اختیار کی گئی ۔ سب نے دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کا عہد کیا ۔اس سانحے کے بعد مخالفین بھی ایک دوسرے کے قریب آگئے ۔اس موقع پرملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی کااجلاس طلب کر لیا گیا ہے جو اس وقت جاری ہے اس میں عمران خان بھی شامل ہیں ۔اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ د ہشت گردوں نے قوم کے دل کو نشانہ بنایاخاتمہ تک پیچھا کریں گے ۔وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ان سے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا اور عمران خان نے کہا کہ بیان بازی نہ کی سیاسی قوتوں اور فوجی قیادت کو مل کر سوچنا ہوگا یہ جنگ کیسے جیتی جائے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہماری قوم اس سانحے سے سبق سیکھے اور متحد ہو کر ایسی منصوبہ بندی کرے جس سے ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔