تحریر : شبیر احمد لہڑی سرزمین بلوچستان جہاں اپنی لازوال تاریخ ،بے مثال روایات اور گراں قدر قدرتی عطیات کی بدولت پوری دنیا میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے وہاں اس خطّہ کو ایک مردم خیز دھرتی کے طور پر برگزیدہ ہستیوں ،نامورشخصیتوں اورعظیم انسانوں کوجنم دینے کااعزاز بھی حاصل ہے۔ اس کے بے آب وگیاہ پہاڑوں ،گمنام وادیوں اوردورافتادصحرائوں میں ایسے درویش منش انسان پیداہوئے جو علم وعمل ،زہدوتقوٰی اورغیرتِ ایمانی کی دولت سے انسانی عظمت کے لازوال داستان چھوڑچکے ہیں۔اس خطے کے حوالے سے جب بھی مورّخ قلم اُٹھاکراس دھرتی کے متعلق اپنی معلومات ،خیالات ،تجزیات اورمشاہدات زیرقلم لاکریہاں کی جغرافیائی،قبائلی ،سیاسی اورمذہبی حالات کاتذکرہ کرے گاتوصفحہ اول پراس دھرتی کے ان عظیم فرزندوں کاتذکرہ اس کی مجبوری بن جائے گی جن کے روشن کردارکی اثرات سے یہاں بسنے والے انسانوں کی سماجی ،قبائلی اوردینی پہلوئوں کی ایسی تعمیرہوئی کہ آج ان علاقوں میں دین دوستی اورانسانی عظمت کی پاسداری کی قابل رشک روایات دیکھنے کو ملتی ہیں ۔یوں تویہ پوراخطہ اپنی مردم خیزی میں بے مثال ہے جس کے ہرکوچہ وپہاڑ ،صحراورمیدان عظیم انسانوں کی جنم گاہ بنارہا،خصوصاً تاریخی اہمیت کاحامل جھلاوان کاعلاقہ وڈھ اس اعتبار سے قابل افتخارمقام رکھتاہے یہا ں پرقبائلی حوالے سے ہویادینی ،ایسی نامورشخصیات گزرے ہیں جونہ صرف اس علاقہ بلکہ پورے خطّے کی پہچان بن گئے ۔ان میں سے ایک عظیم ہستی ،عالم دین ،استاذ العلماء حضرت مولانادُرمحمدلہڑی کی شخصیت ہیں ،جوعلم، زہدوتقوٰی اوراستغناکابے مثال نمونہ تھے
جس کی انتھک محنتوں ،مخلصانہ کاوشوں اوربابرکت قدموں کی وجہ سے اس علاقہ میں دین کی ایک ایسی چراغ روشن ہوئی جس کی نورانی کرنوں سے چاروں طرف پھیلے جہالت کے اندھیرے چھٹ کرتوحیدکی دائمی روشنی کی بنیادیں مزید پختہ ہوگئیںان کے والدبزرگوار کانام ملّاجلال الدین تھاجومیہاندروڈھ میںسکونت پذیرتھے ،وہاں ١٣٣٥ہجری میںمولانا کی پیدائش ہوئی علمی گھرانہ سے تعلق کے بناپربچپن سے ہی دینی ماحول میّسرہوا۔بنیادی تعلیم آٹھ سال کی عمرمیں حاصل کی اس کے بعد دوسال مولانانوراحمد قلندرانی کے پاس توتک میں میں علم حاصل کرنے میں گزارے جب مولانانوراحمدکاانتقال ہواتوعلاقہ مولی میں ایک عالم باعمل درویش صفت ہستی مولانامحمدصالح لہڑی جواپنے دورمیں توحید کے ایک پکے داعی کی حیثیت سے معروف تھے ،کی خدمت میں ایک سال گزاری وہاں سے توحید کاحقیقی جذبہ لیکر مدرسہ مظہرالعلوم کھڈہ مارکیٹ کراچی میں مولانامحمدصادق جیسے متحرک علمی اورانقلابی شخصیت کی فیوض سے مستفید ہوتے رہے اوروہی سے سندفراغت حاصل کی۔
حصول علم کے سفر سے فارغ ہونے کے بعددوبارہ آبائی وطن لوٹنے اوروہاں دین کی خدمت کامصمم ارادہ کرلیاکیونکہ علاقہ کی حالت اس کے سامنے تھی جہاں بدعت اورفرسودہ قبائلی رسوم میں جکڑے ہوئے لوگ دینی ماحول سے دورجہالت کی گمراہیوں میں بھٹک رہے تھے گوں کہ اس دور میں جہاں ایک طرف غربت نے ڈیرے ڈالی ہوئی تھی جس کے باعث بلوچستان کے ان دورافتادپسماندہ پہاڑی علاقوں میں زندگی گزارناایک تلخ اورتکلیف دہ عمل تصورہوتا تھاتودوسری جانب مختلف گمراہ کن عقائد کے شکاراور سخت گیر قبائلی رسم وروا ج کے پابند لوگوں میں کسی عالم دین کاحقیقی دین اورشریعت کے احکام کاپرچارایک مشکل کن اورصبر آزمامرحلہ بھی تھاجس کے لیئے ایمانی جذبہ اوربلندپایہ کی استقامت درکارتھی ،جوان مردکوہستانیوںکاشیوہ تھا۔جب آپ واپس وڈھ تشریف لائے توعلاقہ کی ایک علم دوست اورنامورقبائلی شخصیت میرجمعہ خان شاہی زئی نے مدرسہ کے لیئے زمین وقف کرکے مولانادُرمحمدسے مدرسہ کھولنے کی درخواست کی یوں ١٣٥٠ہجری میں مولانامحمدرمضان زئی کی رفاقت اورمشاورت سے مدرسہ کاسنگ بنیاد رکھاگیا۔
Education
دارلعلوم کے نام سے موسوم اس علمی ادارے کاناظم میرحاجی جمعہ خان مرحوم نامزد ہوادیگرارکان میں حاجی دین محمد لانگو،جلال الدین لانگو،محمدعثمان براھیم زئی ،مولوی نورمحمد رمضان زئی ، حاجی رسول بخش شادمان زئی شامل تھے ۔مدرسہ کاسنگ بنیاد رکھنے کے بعد وہاں باقاعدہ علم کی بابرکت مجلسیںشروع ہوگئیں قال اللہ اورقال رسول اللہ کی مسحورکن گونج سے فضائیں معطرہوئے دین کی اشاعت اورترویج میں مولانا دُرمحمد نے شب روز ایک کی ۔آپ کی علمی خدمات سے لوگ متاثرہوکرآپ کے گرویدہ ہوتے گئے اورعلاقے میں ”سائیں دُرجان ”کے نام سے مشہورہوگئے جولوگوں کی آپ سے محبت اورعقیدت کی دلیل تھی ۔مولانا نے درس وتدریس کے ساتھ غلط رسومات اورگمراہ کن عقائد کاقلع قمع کرنے کے لیئے عملی جدوجہد کاآغاز کیاعلاقہ میں من گھڑت کہانیوں سے منسوب ،ایسے پرانے درخت جنہیں لوگ جہالت کی وجہ سے عقیدت کے طورپرعبادت اورمشکل کشائی کے لیئے متعین کرکے انہیں مقدس سمجھتے تھے،فوراًمولانادُرجان نے ایسے تمام درخت کٹواکرلوگوں کے عقائد کوشرک سے محفوظ کرکے راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کی،اسی طرح مختلف بیماریوں کے لیئے نام نہاد روحانی فقیروں کے مکاّرانہ طریقہ علاج پرپابندی لگواکرانہیں قید کروائی تاکہ یہاں کے سادہ لوح عوام کی جان ومال ان گمراہ رہزنوں سے محفوظ رہ سکیں
اس وقت کے سخت گیرقبائلی معاشرہ میں عورتوں کے شرعی حق ِوراثت کونظر انداز کرکے انہیں میراث سے محروم کردیتے تھے ،مولانادُرجان کی شب وروزتبلیغ سے آخرکار وہاں کے مقامی باشندے اس ناانصافی اورغیرشرعی عمل سے توبہ کرکے عورتوں کے لیئے میراث میں متعین حصّہ اداکرنے لگے اور یوں دین کی خدمت کے ساتھ انسانی حقوق کی پاسداری اور حقوق نسواں کی تحفظکاعظیم کارنامہ بھی سرانجام دیا،پورے علاقے کادورہ کرکے بستیوں اورکلیوں میں مساجد تعمیرکروائے اوران کے لیئے پیش امام مقرر کرنے کاانتظام کیا۔
مدرسہ دارلعلوم وڈھ کی علمی فضائوں میں سینکڑوںطلباء مولانادُرجان کی درس سے فیض یاب ہوکرخلق خُداکی رہنمائی کے لیئے اطراف ِعالم میں پھیل گئے حضرت کے مشہور تلامذہ کی فہرست میں مفسرالقرآن الشیخ عبدالکریم الاثری (استاذجامعہ مدینہ منورہ )اُستاذالعلماء مولانااللہ داد، مولوی عبدالرئوف پندرانی ،مولاناعبداللہ جان بانی مدرسہ فروغ الاسلام وڈھ،مفتی عبداللہ لہڑی، مولوی محمدیعقوب خِدرانی ،مولوی گل محمدلہڑی(مولاناکے چھوٹے بھائی )،مولوی عبدالحکیم گزگی،مولوی فتح محمد موروگرّ،مولوی مشتاق احمد کلی صالح محمد،مولوی غلام حیدربراہیم زئی،مولوی نصراللہ میراجئی ،میاںپیرمحمد،مولوی عبداللہ شیخ بُھٹ،میاں عبدالغفور دراکھالہ ،مولوی عبدالرحمان شیخ،مولوی عبدالواحد لہڑی، مفتی محمد ابراہیم میہاڑی نال،میاں یارمحمدساسولی پارکو،مولوی غلام رسول خِدرانی ،اورشیخ الحدیث مولانامحمود لہڑی کے نام شامل ہیں ،ان کے علاوہ سینکڑوں طالبان دین آپ کی صحبت اورعلمی مجلسوں سے مستفیدہوتے رہے۔
Life
حضرت کی دینی خدمات کادائرہ بہت وسیع ہے ان کااحاطہ کرناچند سطورمیں ممکن نہیں بلکہ ان کے زندگی کے کئی انقلابی گوشے اب تک پوشیدہ ہیں جنہیں منظرعام پرلانے کے لیئے انتھک سعی کی ضرورت ہے اس کے لیئے حضرت کے ہی کوئی جفاکش شاگرد آگے آکراس نامکمل سوانح کو پائے تکمیل تک پہنچاسکتاہے ۔جھلاوان کے سنگلاخوں میں علم وعرفان کایہ سمندر١٣٧٠ہجری تک تشنگان ِتوحید کوسیراب کرتے رہے،دارلعلوم کی پرنورفضائوں میں علم کی بابرکت مجلسیں جاری وساری تھیں اس دوران جامعہ کے ہمدرد حاجی جمعہ خان انتقال کرگئے ،مولانا نے حاجی صاحب مرحوم کے کے لیئے ختم قرآن پڑھوائے ۔حاجی صاحب کی رحلت کے دوماہ بعد ہی سرزمین جھلاوان کاعظیم فرزنداوراپنے دورکاولی کامل مولاناد’رجان بھی داعی اجل پرلبیک کہتے ہوتے ہوئے اس دارفانی سے کوچ کرگئے(اِناّلللہ واِنّاالیہ راجعون)۔
حضرت کے سانحہ ارتحال کے بعدمفتی عبداللہ لہڑی مدرسہ کے مہتمم مقرر ہوئے ان کے انتقال کے بعد مولوی محمودلہڑی مسنداہتمام پرفائزرہے۔الحمدلِللہ مولانادُرجان لہڑی کے ہاتھوں کالگایاہوایہ شجرِسایہ دارآج بھی کلی صالح محمدوڈھ میں قائم ،سرسبز اورعلوم دینیہ کی روشنی پھیلانے کامسلسل زریعہ بناہواہے۔
اس وقت علاقے کے معروف عالم دین حضرت مولانانعمت اللہ مینگل صاحب مدرسہ کے مہتمم کے طورپراحسن طریقے سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں جب کہ نظامت کی زمّہ داری آج بھی علم دوست خاندان کے افراد میں سے معتبرشخصیت میرشکرخان شاہی زئی صاحب کے پاس ہے ،دُعاہے کہ اللہ تعالیٰ مولانادُرجان لہڑی کے اس مقدس مشن کوتاقیامت جاری وساری رکھے (آمین)