اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے ای او بی آئی کیس میں خریدی گئی زمینوں کی قیمت کا دوبارہ تخمینہ لگانے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بینچ نے ای او بی آئی بورڈ کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے فریقین کے وکلا پر مشتمل کمیٹی بناتے ہوئے ہدایت کی کہ کیسز کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کر کے ہفتے کو رپورٹ پیش کی جائے، جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ میں زمینوں کی زیادہ قیمتوں کے شواہد سامنے نہیں لائے گئے تمام سودوں میں فراڈ ہوا، ای او بی آئی ہزاروں ملازمین کی پنشن سے بننے والا ادارہ ہے، کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر شروع کریں گے، قیمتوں کا دوبارہ تخمینہ نہ لگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ادارے کے چیئرمین نے کہا کہ بورڈ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دوبارہ تخمینہ لگانا مشکل ہے، فاضل جج نے کہا کہ کیا ہم سارے ڈائریکٹرز کو یہاں بلا کر پوچھیں کہ عدالتی حکم پر کیوں عمل نہیں کرتے، یہ کس قسم کا بورڈ ہے جو کہتا ہے آج کی مالیت کے ایک لاکھ وصول نہیں کرنے بلکہ 5 سال پرانے 10ہزار روپے وصول کرنے ہیں، یہ کسی اور کا نہیں عوام کے حقوق کا معاملہ ہے، کیا ہم کسی اور کو اس کام کیلیے مقرر کر دیں اور بعد میں اگر یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس کیس میں کک بیکس لیے گئے ہیں تو ہم کسی کو نہیں چھوڑیں گے، ایک فریق کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ جائیداوں کا تخمینہ نیسپاک نے لگایا۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ نیسپاک تو کہتا ہے کہ سب صحیح ہوا ہے، اب کیا ان کے کہنے پر ہم نوٹس ختم کر دیں، ادھر حکومت نے ریلوے کی زمین پر گالف کلب کی تعمیر کیلیے جائنٹ وینچر پر سپریم کورٹ میں اعتراضات اٹھائے اور بتایا کہ سرکاری املاک کے معاملے میں پرائیویٹ معاہدہ نہیں کیا جا سکتا، حکومتی وکیل نے جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بینچ کو بتایا کہ اشتہار میں جو شرائط رکھی گئیں معاہدہ اس کے برعکس ہوا۔
ایک کمپنی کے ساتھ خفیہ میٹنگ میں شرائط طے ہوئیں، اشتہار میں 103ایکڑ اراضی کا کہا گیا تھا جبکہ کمپنی کو 140ایکڑ دی گئی، نئی شرائط میں طے کیا گیا کہ کھانے پینے کی اشیا سے ہونے والی آمدنی سے ریلوے کو حصہ نہیں ملے گا، قبل ازیں درخواست گزار اسحاق خاکوانی کے وکیل میاں اللہ نواز نے بتایا کہ معاہدہ غیر قانونی اور اس وقت کے وزیر ریلوے لیفٹیننٹ جنرل جاوید اشرف قاضی کی ایما پر ہوا، سماعت آج پھر ہوگی۔