سمجھ سے بالا تر ہے کہ مضمون کی ابتدا کہاں سے کروں اور کیسے کروں؟ کیونکہ آج جو موضوع دماغ کے پیوستہ شریانوں میں گردش کر رہا ہے وہ ہے ملک میں ہر سطح پر ناانصافیوں کی ہے۔ بہر حال کوشش کرتا ہوں کہ تصویر کا درست رُخ آپ تک پہنچ سکے۔ ہمارے ملک میں کمی ہے تو ایمانداری و دیانت داری کی’ ہمدردی کی’ محنت کی’ عزت کی’ انصاف اور بے لوثی کی۔ یہاں کرپشن ہے لوٹ مار ہے’ خود غرضی ہے’ ہوس اور لاچ کی انتہا ہے’ حسد ہے’ رقابت ہے’ نفرت ہے’ عداوت ہے’ یا پھر عظیم بے خبری اور بے حسی ہے۔
مطلب یہ کہ یہاں تو سب کچھ چل رہا ہے، کس کس کو روئیں اور کس سے فریاد کیا جائے۔ ابھی تو یہاں انسانوں کو مار کر جنت میں جانے والے پروپیگنڈے کی دہشت گردی جاری ہے۔ اور ابھی تو ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ یہ ہمارا مہلک رویہ آگے جانے کیا کیا گُل کھلائے گا۔ یہ رویہ ہمارے مستقبل پر سوالیہ نشان لگائے ہوئے ہے۔ اچھے لوگوں کی اچھائی کس کام کی اگر وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف میں دیکھیں اور اس کی مدد کا خیال بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہو۔ کوئی اپنے عزیز و اقارب کو پریشانی میں دیکھے اور ان کے دلوں میں مدد کا خیال اجاگر نہ ہو۔
ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن کون ہے، یا خود ہی ہم اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ کیا ہم ایک انصاف پسند معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں اگر کر سکتے ہیں تو کیسے، ایسا انصاف پسند معاشرہ جہاں ہر شخص کو بنیادی شخصی آزادی ہو، لیکن ایسی آزادی نہیں جو عوام کی قیمت پر مٹھی بھر امیروں کے ہاتھوں میں ظلم و استحصال کا لائیسنس بن کر رہ جائے۔
یہ شہروں کا امیروں کی نگری اور غریبوں کی بستی میں بٹ جانا کسی بھی ملک کے عمومی مفاد میں نہیں ہو گا۔ یہ نام نہاد پوش علاقے جہاں ہر طرح کی بنیادی شہری سہولتیں موجود ہوں مگر غریبوں کے علاقے میں کچروں کے انبار لگے ہوں، بیماریاں پھیل رہی ہوں۔
سامانِ راحت تو ہر سطح پر مہیا ہونا چاہیئے چاہے وہ غریبوں کا علاقہ ہو یا پوش علاقہ؟ قدرتی وسائل جو تمام انسانوں کا مشترکہ ورثہ ہوتی ہیں، اس کا اسراف ہو رہا ہو، جہاں پکا ہوا کھانا روٹی اور چاول وغیرہ کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہو اور جہاں جھگی چھونپڑیاں اور کچی بستیاں ہوں جہاں انسان جانوروں سے بھی بد تر زندگی گزرانے پر مجبور کر دیئے جائیں۔
جہاں آزادی کے معنی ظلم ہوں، اور جہاں جمہوریت کے معنی بیوقوفوں کی بھیڑ اور طاقتور خواص کی اجارہ داری ہو اور جہاں قانون سب کے لئے عملاً برابر نہ ہو اور جہاں ‘ جس کی لاٹھی اس کی بھینس (might is right) والے ہٹلری اور یرقانی اصول کی فرماں روائی ہو۔
یعنی وہ نظام جس کی بنیاد صرف ظلم پر ہو وہ بہت دنوں تک چلنے والا نہیں۔ اگر ایسا ہی سب کچھ چلتا رہا تو ہم اور آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ” ظلم کا حد سے گزرنا دوا ہو جانا” چارلس ہینڈی ہی کے الفاظ میں اگر ہم کہیں تو وہ الفاظ کچھ اس طرح ہونگے کہ: ہمیں اپنے شہروں کو پھر سے ایجاد کرنا ہوگا اور امیروں کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ اپنے بے پناہ وسائل اور اپنا عظیم سرمایہ اپنے کتوں کے لئے قیمتی ہیروں سے مزین پٹّے خریدنے اور چیک پر دستخط کرنے کے لئے جڑائو قلم خریدنے اور ٹھوس ولایتی میٹریل سے بنی ہوئی باتھ رومز فٹنگز میں سرمایہ کاری کرنے اور محض چار نفوس کے رہنے کے لئے چار کروڑ اور چار ارب کے محل و وِلا خریدنے پر صرف کرنے کے بجائے کمزوروں اور غریبوں کے عمومی فلاح و بہبود کے زُمرے میں سرمایہ لگائیں۔
Poor People
لیکن ظاہر ہے کہ ایسا ہوتا ہوا کہیں نظر نہیں آتا نہ مستقبل قریب میں ایسا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے کہ کوئی قارون غریبوں کا مسیحا بن جائے۔ جو انجام قارون کا ہوا وہی تمام قارونی سرمایہ داروں کا بھی مقدر لگتا ہے۔ کیوں کہ آج آپ سب بلکہ اب تو امیر بھی مہنگائی سے پریشان حال ہے۔
ہمارے ملک میں مہنگائی کا تناسب جس تیزی سے بڑھ رہا ہے مستقبل قریب میں اس کے اثرات کچھ اچھے نظر نہیں آ رہے۔ آج غریب اپنے اعضا ء بیچ کر اپنے بچوں کو روٹی کھلانے پر مجبور ہے۔ ایک معمولی ٹماٹر کی قیمت دو سو روپئے سے تجاوز کر گئی ہے۔ جس کی ضرورت ہر گھرانے میں لازمی ہوتی ہے چاہے وہ امیر کا گھر ہو یا غریب کا کیونکہ اس کے بغیر ہر کھانے کی رنگت پھیکی ہے۔ اگر ایسی چیزوں کے نرخ اس نہج تک پہنچا دیئے جائیں تو سوچیں کہ باقی لوازمات کا کیا حال ہوگیا ہوگا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” ہم انسانوں کے درمیان زمانوں کو بدلتے رہتے ہیں۔” (آلِ عمران:١٤٠) اور ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ جب اللہ کے ماننے والے اس کے احکامات سے لا تعلق ہوئے تو پھر ظالموں کی بالادستی قائم ہو گئی۔ لیکن جب مظالم حد سے بڑھ جائیں اور ظلم کے اندھیرے ہر طرف چھا جائیں تو وہی تاریکیوں میں نور کو پروتا ہوا لے آتا ہے۔ یہ اندھیروں کی فرما روائی ہی تو حقیقت میں نور کی بشارت ہوتی ہے۔ یہی تاریکی بتا رہی ہے کہ اب صبح قریب ہے۔
وہ ہر شئے پر قادر ہے۔ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے، وہ جسے چاہے اقتدار دے اور جسے چاہے حکومت سے بے دخل کر دے۔ وہ جسے چاہے عزت بخشے اور جسے چاہے ذلت و خواری میں مبتلا کر دے۔ ہر طرح کی بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے اور صرف اسی کو ہر شئے پر قدرت حاصل ہے۔ وہ رات کو دن میں سمو دیتا ہے اور دن کو رات میں جذب کر دیتا ہے۔
تجزیہ کار بتاتے رہتے ہیں کہ اب وہ دن بہت دور نہیں کہ جب یہ دبے کچلے ہوئے لوگ ہی اس زمین کے وارث بنا دیئے جائیں گے اور اس وقت خود غرض حکمرانوں، بے رحم دولت مندوں اور ظالموں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی ۔
بہرِ صورت اب ہم سب کو کئی طرح کے کام کو اوّلیت دینا ہوگی جیسے کہ کردار سازی، اتحاد و اتفاق، مہنگائی کا خاتمہ، بے روزگاری کے خاتمے کی طرف پیش قدمی، اور ہر طرح کے اسراف سے پرہیز۔ عوام پر مہنگائی اور بے روزگاری سب سے بڑا ظلم ہے، بدقسمتی سے یہی ظلمِ عظیم برداشت کرتے رہنے کی ہمیں عادت پڑ چکی ہے۔
آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی دن بہ دن غریب عوام کی کمر توڑتی چلی جا رہی ہے۔ قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔ لوگ بھوک سے مرنے کے دَر پہ ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے حکمرانوں کو عوام کی رتّی برابر بھی فکر نہیں ہے۔ پانچ سال میں ایک مرتبہ انہیں غریب عوام یاد آتے ہیں۔ چھوٹے سچے وعدے کرتے ہوئے اور ہتھیلیوں میں جنت دکھا کر ووٹ لینا، اقتدار حاصل کرنا اور ووٹروں کو بھول جانا ان کا شیوہ بن چکا ہے۔
غریب دن بہ دن غریب اور امیر ہر دن اپنی دولت کو بڑھاتے ہی جا رہے ہی۔ چاہے ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدر کم ہو، سونے کی قیمت میں ہر روز اضافہ ہو، شیئر مارکیٹ اچھال آئے یا گراوٹ اس سے امیروں کو کوئی نقصان نہیں ہونے والا، کیونکہ انہیں تبدیلیاں متاثر کر ہی نہیں سکتیں۔ ہاں اس تمام چکر میں صرف غریب ہی متاثر ہوتا ہے۔ اور ایسا متاثر ہوتا ہے کہ اسے سنبھلنے کے لئے بھی موقع نہیں ملتا۔
بزمِ عیش سے فرصت جب ملے چلے آنا بے کسوں کی دنیا میں وقت کے مسیحائو! ناپ کر بتا دینا تم غموں کی گہرائی
اِتمامِ ہجت یہ کہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ حکومت کو غریب کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہیئے۔ ماشاء اللہ سے بھاری مینڈیٹ والے وزیر اعظم ملک میں موجود ہیں انہیں کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے کسی کی ‘ہاں’ یا ‘نہیں’ سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اس لئے مناسب وقت ہے کہ عوام کے لئے ہر وہ قدم اٹھایا جائے جن میں اُن کی بہتری پِنہا ہے۔