تحریر : طارق حسین بٹ شان امریکی تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ایک بات حتمی یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ امریکہ میں قانون کی مکمل حکمرانی ہے اور کسی صا حبِ اقتدار کو اسے چھونے کی اجازت نہیں ہے۔ قانون کی یہی حکمرانی امریکہ کی اصل طاقت ہے۔حکمران کتنا ہی مقبول اور طاقتور کیوں نہ ہو اسے امریکی نظامِ عدل اور قانون وآئین کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔امریکی صدر میں جتنی انانیت ہوتی ہے شائد اس کا عشرِ عشیر دنیا کے کسی دوسرے حکمران میں نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود صدرِ امریکہ کو یہ باور کروا دیاجاتا ہے کہ وہ دنیا میں کچھ بھی سکتے ہیں لیکن امریکی آئین و قانون سے کھلواڑ نہیں کر سکتے۔
عراق پر حملہ ہو یا پھر افغانستان پر یلغار ہو امریکی صدر کو اس سلسلے میں وسیع اختیار حا صل ہو تے ہیں اوروہ ایسا حکم صادر کرنے کا مکمل ا ختیار رکھتا ہے لیکن یک ایسے صدارتی حکم نامے پر جہاں سات ملکوں اور اب چھ ملکوں کے شہریوں کے بنیادی حقوق متاثرہوتے ہیں اسے عدلتوں سے پسپائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور صدرِ امریکہ کوئی واویلا نہیں کرتا بلکہ دل کی کامل یکسوئی سے عدالتی فرمان پر عمل داری کو یقینی بناتا ہے۔عدلیہ کے سامنے اس کی انانیت اس کے آڑے نہیں آتی جب کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی شروعات پر اس کی انانہت کو ٹھیص پہنچتی ہے اور وہ پروگرام کا بیڑہ اٹھانے والے عظیم سپوت ذولفقاتر علی بھٹو کونشانِ عبرت بنا دینے کی دھمکی ہی نہیں دیتا بلکہ اس پر عمل کر کے بھی دکھاتا ہے ۔یہ الگ بات کہ نشان ِ عبرت بنائے جانے والا عظیم سیاستدان اب کروڑوں پاکستانیوں کا فخر و ناز کی علامت بن چکا ہے۔
بہر حال امریکہ میں حکمران عدالتوں پر دبائو نہیں ڈالتے اور نہ ہی ان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔عدالتی فیصلے سے متفق نہ ہونا یا ذہنی تحفظا ت رکھنا ایک الگ بات ہے لیکن عدالت کی اتھارٹی کو تسلیم نہ کرنادوسری بات ہے اور امریکی حکمران قانون سے روگردانی کا تصور نہیں کر سکتے۔مزے کی بات یہ ہے کہ امریکہ میں عدلیہ میں ایڈہاک ازم نہیں ہے اور نہ ہی عدلیہ کسی حکمران کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔یہ سچ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی منظوری صدرِ امریکہ ہی دیتا ہے لیکن اس کے بعد اس کا کوئی کردار باقی نہیں رہتا کیونکہ چیف جسٹس کو معطل کرنا یا ہٹانا اس کی صوابیدیدی اختیارات میں نہیں ہوتا۔امریکہ میں ہر جج اپنی موت تک اپنے عہدے پر قائم ہ سکتا ہے ، اس کا پاگل پن، بیماری،اپاہجی یا خراب صحت ہی فرائض ادا کرنے سے روک سکتی ہے لہذا جب صورتِ حال ایسی ہو کہ جج کے سر پر عدمِ تحفظ کی کوئی تلوار نہ لٹک رہی ہو تو پھر اپنے ضمیر کو بیچ دینے کی نوبت نہیں آتی۔امریکی جج پر چونکہ کسی قسم کا معاشی،معاشرتی ،خاندانی اور مالی دبائو نہیں ہوتااور شائد یہی وجہ ہے کہ امریکی جج اپنی ایمانداری،علم ،ذہن اور قانونی روح کے مطابق فیصلے کرتا اور انصاف کے سارے پہلووں کو مدِ نظر رکھتا ہے ۔اس کے فیصلوں سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی ایمانداری پر شک نہیں کیا جا سکتا۔اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔
اگر نیت صاف ہو تو پھر فیصلے بھی مبنی بر انصاف ہوتے ہیں لیکن اگر نیت میں کھوٹ ہو تو پھر انصاف کا خون ہوتا ہے اور یہی پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ یہاں پر عمومی فیصلے انصاف کی بجائے نوٹوں کی حررات اور حکمرانوں کی خوشنودی کے لئے کئے جاتے ہیں۔،۔ موجودہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا عہدِ صدارت شروع کرنے پر سات ملکوں کے خلاف سفری پابندیوں کا ایک قانون جاری کیا جس سے پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ خوش تھے کہ انھوں نے امریکی عوام سے جو وعدہ کیا تھا اسے ایفا کرد یا ہے لیکن انھیں کیا خبر تھی کہ ان کا پہلا صدارتی حکم عدلیہ کے ہاتھوں پارہ پارہ ہو جائیگا۔اس طرح کا عدیم النظیر مظاہرہ امریکہ میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
دنیا کا سب سے طاقتور انسان کیا اس بات کا تصور کر سکتا تھا کہ اس کے پہلے صدارتی حکم کو عدلیہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گی؟عدالتی فیصلے سے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جس طرح جگ ہسائی ہوئی وہ کسی بیان کی محتاج نہیں ہے لیکن کمال یہ ہے کہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے نہ تو عدلیہ پر چڑھائی کی اور نہ ہی بریف کیسوں سے ججز کو رشوت دینے کی کوشش کی حالانکہ امریکہ دنیا کا امیر ترین ملک ہے اور اس کا صدر بے پناہ اختیارات کا حامل ہے ۔وہ چاہتے تو دولت کے انبار لگانا اس کیلئے کونسا مشکل کام تھا لیکن وہ ایسا کر نہیں سکتا کیونکہ اسے اس کا حساب بھی دینا پڑتا ہے اور پھر امریکی ججز پا کستانی ججز کی طرح تو نہیں کہ انھیں بریف کیسز سے خرید لیا جائے۔
چیف جسٹس سجاد احمد شاہ کے ساتھ یہی ہوا تھا کہ سپریم کورٹ کے چند ضمیر فروش ججز نے ان کے خلاف عدالتی بغاوت کر کے انھیں ان کے عہدے سے معزول کر دیا تھا ۔کیسا منظر ہو گا کہ چند ماتحت ججز کسی کے اشارے پر اپنے چیف کو معطل کر رہے ہوں گے؟قوم اخلاقی بانجھ پن کا شکار ہو جائے تو ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہ کرپشن کی دلدل میں بری طرح دھنس چکا ہے اور کوئی معجزہ ہی اسے اس دلدل سے نکال سکتا ہے۔چیف جسٹس سجاد شاہ کے بارے میں اس کے چند ساتھیوں نے مخبری کر دی تھی کہ وہ میاں محمد نواز شریف کے خلاف فیصلہ صادر کرنے والے ہیں بس پھر کیا تھا ایک لائو لشکر تیار کیا گیا اور سپریم کورٹ پر چڑھائی کر دی گئی جس سے چیف جسٹس کو اپنے چیمبر میں چھپ کر اپنی جان بچانی پڑی اور پھربریف کیسوں میں بھرے ہوئے نوٹوں نے باقی ماندہ کام سر انجام دے دیا۔اس کارِ خیر کو سر انجام دینے والوں کو بڑے بڑے عہدوں سے نوازا گیا ۔کوئی صدرِ مملکت بنا،کوئی سینیٹر بنا ،کوئی ایم این اے بنا اور کوئی گورنر بنالیکن ان سب افراد کی پیشانی میں رسوائی کی جو کالک چمٹی ہوئی ہے اسے کون مٹاسکے گا؟افراد چلے جاتے ہیں،موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں اور مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتے ہیں لیکن ان کی ذات کے ساتھ منسلک افعال کبھی نہیں مرتے ۔وہ سدا ان کا پیچھا کرتے ہیںاور تاریخ میں ایک ریفرنس کی شکل میں سدا زندہ رہتے ہیں۔
وہ تمام افراد جو چیف جسٹس کے خلاف بغاوت میں ملوث تھے ان کا منفی کردار ہمیشہ عبرت کی علامت بنا رہیگااور اسے تاریخ کے اوراق سے کوئی کھرچ کر علیحدہ نہیں کر سکے گا۔جو لوگ مفادِ عاجلہ کو اپنی منزل بنا لیتے ہیں آخرِ کار رسوا ہوتے ہیںاور جسے وہ اپنی کامرانی تصور کرتے ہیں اسی میں ان کی رسوائی پنہاں ہو تی ہے لیکن وہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے اسے دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔جب نگاہوں پر حر ص و ہوس کے پردے حائل ہو جائیں تو سچائی اپنا چہرہ چھپا لیتی ہے اور برائی خوشنما بن کر ابھرتی ہے حالانکہ برائی انتہائی مکروہ اور بد نما ہوتی ہے لیکن ا س کا کیا کریں کہ بے کردار لوگوں کی نگاہوں میں برائی ہی خوش نما ٹھہرتی ہے اور اس کا حصول ان کی پہلی ترجیح بن جاتی ہے ۔اقبال نہ شائد ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ( ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں ) یہ کیا کم ہے کہ وقت کا کاتب اس وقت یہ چند سطریں لکھ کر ایسے بے کردار انسانوں کی دولت پرستی اور جاہ طلبی کی خواہش کو ہدفِ تنقید بنا رہا ہے۔
بات یہ نہیں کہ ہماری عدلیہ انصاف پسند ججز سے محروم ہے بلکہ اس میں بڑے بڑے دبنگ ججز رہے ہین جھنیں نہ تو کوئی خرید سکا اور نہ دولت و حشمت اور عہدوں کا لالچ انھیں اپنی چنی گئی راہ سے ہٹا سکا۔وہ عدل و انصاف کے ایسے کوہِ گران تھے جن کے عدل و انصاف کی روشنی آج بھی دلوں میں عزم و ہمت کو پروان چڑھاتی ہے ۔ان کا شفاف اور بے داغ کردار ہمارے لئے باعثِ فخر ہے اور ہم انھیں سدا خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے عدل و انصاف کی روح کو زندہ رکھا تھا ۔سچ تو یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی ہی قوموں کی ترقی کا پہلا زینہ ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے کچھ افراد نے اسے ذاتی اقتدار اور خواہشات کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے ۔میری ذاتی رائے ہے کہ جس دن ہم نے آئین و قانون کو اپنا راہنما اصول بنا لیا دنیا کی کوئی قوم پاکستان کا مقابلہ نہیں کر سکے گی کیونکہ خدا نے اس قوم کے افراد کو بے شمار صلا حیتوں سے نواز رکھا ہے۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال