تحریر : شہزاد سلیم عباسی ْفرانس میں ایک شخص نے بے رحمی سے لوگوں پر ٹرک چڑھا دیا اور بیسیوں لوگ موت کی نیند سو گئے ،۔ میرے دو دوستوں نے اسی وقت فیس بک پر اسٹیٹس اپڈیٹ کیا کہ اللہ خیر کرے کہیں اب ترکی میں بھی کچھ ایسی ویسی حرکت نہ ہو جائے ۔ بہرحال رات کو ترکی میں کچھ فوجی باغیوں کی طرف سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی گئی جسے عوامی طاقت نے مسل کر رکھ دیا۔ملک کوئی بھی ہو، ریاست کوئی بھی ہواور جگہ کوئی بھی ہو ، ہر جمہوری طاقت کو پھیلتے پھولتے رہنا چاہئے، آمرانہ نظام کبھی بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوتے۔ اردگان 1926 کے کمال اتاترک کے بعد ترکی کے مضبوط ترین حکمران کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔1954 میں استنبول کے نواحی علاقے “قاسم پاشا” میں پیداہونے والے اردگان اسلامی تحریک نیشنل سالوشن پارٹی کے نوجوانوں کے مقامی صدر منتخب ہوئے ۔1994 میں استنبول کے مئیر اور 98ء تک اسی عہدہ پر رہے۔اسی سال انکی سیاست پر پابندی کیساتھ ساتھ فوج کی حمایت یافتہ سیکولر عدالت نے انہیں10 ماہ کے لیے جیل کی سلاخوں کی پیچھے بھیج دیا۔
بہرحال رجب اردگان نے 2001 میں جسٹس اینڈ ڈیوپلمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی اور یہ پارٹی باقی جماعتوں کی نسبت قدرے معتدل پارٹی تھی جس نے انتہائی سیکولر اور دائیں بازو سے مایوس لوگوں کو اپنی طرف کھینچا اورتقریباََ پندرہ سال طیب رجب اردگان نے عوام کو اپنے ماضی کے روشن دریچوں سے آگاہ کیا جس میں انہوں نے مئیرشپ کے دوران بلا تفریق غیرے لوگوں کے براہ راست متعلقہ مسائل صحت، تعلیم، روزی وغیر ہ پر توجہ دیکر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ لوگ پہلے ہی قائل تھے کہ اب آئے گا تو اردگان ہی آئیگا جو تقدیر بدل کر رکھ دیگا۔ یوں اس نئی نویلی پارٹی نے 2002 میں 35 فیصد ووٹ حاصل کر کے حکومت بنائی اور پھر 2003 میں ان پر سے دس سالہ پابندی ختم ہو گئی اور اردگان نے ضمنی الیکشن لڑ کر وزارت عظمی سنبھالی بس وہ دن تھا کہ آج کا دن اردگان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
Tayyip Erdogan
2011 میں پارٹی نے عام انتخابات میں تیسری بڑی کامیابی حاصل کر کے 50 فیصد ووٹ لیے۔مارچ 2014 میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جسمیں جسٹس پارٹی نے بھاری اکثریت حا صل کی ۔ 12 سال تک وزیراعظم رہنے والے اردگان نے جولائی 2014 میں الیکشن لڑا اور یہ سفر ابتک جاری ہے۔ جس دن اردگان نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا اسی دن سے ہی فتح اللہ گولن اور اردگان میں سیاسی، ملکی اور نطریاتی اختلافات کی داغ بیل ڈھل گئی ۔ تین سال سے جناب فتح اللہ گولن جو کہ فوج ، عوام، میڈیا اور عدلیہ میں کافی اثر رسوخ رکھتے ہیں اردگان کے مخالف بیانات دینے شروع کر دیے۔ فتح اللہ گولن ایک بڑے اسکالر، کئی سکولوں، دعوتی اکیڈمیوں، مراکز، کالجز اور یونیورسٹیوں کا پوری دنیا میں ایک بڑا نیٹ ورک رکھتے ہیں ۔انکی فکر اور کتابوں کا خزانہ بائیں بازؤں کی جماعتوں اور سیکولر لوگوں کے مقاصد کو تقویت بخشتا ہے ۔ آج گولن کے مقاصد میں سب سے بڑا مقصد یہ شامل ہو چکا ہے کہ کسی طرح ایک آزاد ، خوشحال اور ترقی یافتہ ترکی کو آمرانہ نظام کے سپرد کر دیا جائے جسکو ترکی کے غیور عوام نے سختی سے جھٹک دیا۔
بہرکیف کئی دہائیوں سے امریکہ میں رہائش پذیر فتح اللہ گولن اب مختلف استعماری طاقتوں اور آہنی سازشوں کے ذریعے ترکی کے عوام کو بند گلی میں دھکیل کر سیاہ آمریت کا باب رقم کرنے چاہتے ہیں اور خدا نخواستہ ترکی کوبنگلہ دیش یا بھارت جیسی سٹیٹ بنا کر امریکہ عیار کا دائمی غلام بنانا چاہتے ہیں۔ فتح اللہ گولن کے مطابق اردگان نے پہلے ٹھیک کام کیا ہے لیکن بعد میں اس نے لالچ میں آکر صدارتی انتخاب لڑا تا کہ ملک کے آئین سے لیکر ہر ادارے کو اپنے کنٹرول میں کر کے “ون مین آرمی” کا رول ادا کرے ۔ گولن، ملک کے باہر موجود مطلبی ٹولہ اور پاکستان میں موجود کچھ ناعاقبت اندیش تجزیہ نگاروں، کالم نگاروں اور کچھ بائیں بازرو کے سیاستدانوں نے بھی اردگان کی حکمت عملیوں ، پالیسیوں اور دلچسپیوں پر کھل کر تنقید کی ہے۔
Gulen
اردگان کے مخالفین کہتے ہیں کہ اب اردگان کے معاملات ٹھیک نہیں رہے اور حکمران جماعت کا پورا سسٹم Disfunctional ہو چکا ہے ۔ گولن اور ترکی کی اپوزیشن جماعتیں الزام عائد کرتی ہیں کہ (1 ) صدارتی انتخابات ہمیں ناقابل قبول ہیں، جبکہ اردگان اب 80 والے قانون میں قانون سازی کے ذریعے “پریذڈنشل لاء” لانا چاہتاہے۔(2) اردگان ملٹری سسٹم کو تباہ کر رہا ہے ۔(3 )اردگان کی نرم پالیسیوں کے باعث ملک میں داعش کا نیٹ ورک موجود ہے۔(4 ) شام ، تیونس اور دوسرے مسلم ممالک میں اردگان کی دلچسپی انہیں ملکی خوشحالی کے نئے اشارویوں پر سوچنے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ (5 )اردگان نے کبھی بھی امریکہ سے اچھے تعلقات استوار نہیں کیے ۔ ( 6 ) ااردگان کا رویہ امرانہ ہے وغیر وغیرہ۔یہ تمام الزامات صحیح نہیں ہیں کیونکہ اردگان کا سوشل میڈیا کے ذریعے ایک چھوٹا سا ویڈیو کلپ بھیجنا اورپھر لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا سڑکو ں پر آکر اردگان سے اپنی محبت کا اظہار کرنا اور باغیوں کی جانب سے شپ خون مارنے کی روش کو کچل ڈالنا اور جمہوریت کے لیے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر قربانی دینا یقیناًان بے بنیاد الزامات کی بیخ کنی ہے۔ ترکی میں باغیوں کے اس اقدام کے نتیجے میں عوام نے ایک بار پھر جمہوریت اور جمہور پسند رویوں کی عکاس حکمران جماعت کاساتھ دیکر پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ دراصل غیر جانبدار جمہوریت ہی خوشحالی، امن اور ترقی کی ضامن ہے۔اردگان کی نویں بار کامیابی اور پھر باغیوں کے شکنجے سے بچ نکلنے اور عوام کا بھرپور ساتھ دینے کا راز اس بات میں مضمرہے کہ وہ وہی کچھ کرتے ہیں جو انکے عوام چاہتے ہیں۔
بغاوت کی صور ت میں 4000 ہزار کے قریب باغیوں کا پکڑے جانا ، اور 300 کے قریب افراد کا ہلاک ہو جانا ، 5 جرنلز اور 29 کرنلز کا اس میں شامل ہونا اور حکمران جماعت کا امریکہ سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کرنا ترکی کا اندرونی معاملہ ہے لیکن ایک بات طہ ہے کہ طیب رجب اوردگان نے پندرہ سالوں میں عوامی خوشحالی ، گڈ گورننس اور ڈور سٹپ پر مسائل حل کرنے کی جو مثال قائم کی ہے وہ کمال ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ فتح اللہ گولن کی نظر اب سیاسی کرسی پر ہے لہذا اوردگان کو کسی بھی گہناؤنی سازش سے بچنے اور عوام کی مزید خدمت کے لیے اپنے جارحانہ رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی اگرچے ترکی نیٹو کا رکن اور یورپی یونین کے لیے گہری دلچسپی کا مظہر ہے۔ اردگان کا شام ، یمن، تیونس وغیرہ کے معاملات میں دخل اندازی سے پہلے اپوزیشن جماعتوں اور فوج کو اعتماد میں لینا ہوگا ۔اور عوامی طاقت کیساتھ اپنی خارجہ پالیسیوں اور امریکہ،ایران ، چائنہ سمیت تمام ممالک کیساتھ اپنی bilateral talksکومضبوط بنانا ہو گا۔